رتن بابو اور وہ آدمی ۔۔۔ ستیہ جیت رے

ٹرین سے اترنے کے بعد جب رتن بابو نے اپنے آس پاس نگاہ ڈالی تو ان کا دل خوشیوں سے بھرگیا۔ جگہ تو اچھی لگتی ہے۔ اسٹیشن کے پیچھے کا سکھوئے کا درخت اپنا سر اونچا کیے کھڑا ہے اور اس کی ڈال میں ایک سرخ رنگ کی پتنگ اٹکی ہوئی ہے۔ لوگ بہت مصروف بھی نہیں نظر آتے۔

ہوامیں ایک قسم کی سوندھی خوشبوہے۔ مجموعی طور پر یہاں کاماحول بہت دلکش ہے۔

ان کے ساتھ ایک چھوٹابستر اور چمڑے کا ایک سوٹ کیس ہے ۔ قلی کی ضرورت نہیں۔ رتن بابو نے ان چیزوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں اٹھا لیا اور گیٹ کی طرف بڑھ گئے۔

باہر رکشا ملنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ دھاری دار ہاف پینٹ پہنے ہوے چھوکرے جیسے رکشاوالے نے پوچھا، ’’کہاں جائیے گا بابو؟‘‘

رتن بابو نے دریافت کیا، ’’نیو مہامایا ہوٹل کہاں ہے، جانتے ہو؟‘‘

چھوکرے نے سرہلاکر ہامی بھری اور کہا، ’’بیٹھیے۔‘‘

گھومنا پھرنا رتن بابو کا جھکی پن ہی کہا جائے گا۔ موقع ملتے ہی وہ کلکتہ کے باہر کہیں گھومنے کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انھیں ہمیشہ یہ سنہرا موقع مل جاتا ہے، کیونکہ وہ نوکری کرتے ہیں۔ وہ کلکتہ کے زولاجیکل سروے آفس میں کرانی کا کام کرتے ہیں۔ چوبیس سال سے وہ اسی نوکری پر ہیں، اس لیے انھیں باہر جانے کا موقع سال میں ایک بار ہی ملتا ہے۔ پوجا کی چھٹی کے ساتھ ہی سال بھر میں ملنے والی چھٹی لے کر وہ ہر سال کہیں نہ کہیں سیر سپاٹے کے لیے نکل جاتے ہیں۔ سیر سپاٹے کے معاملے میں وہ کسی کو اپنے ساتھ نہیں لیتے۔ ساتھ لینے کی خواہش بھی ان کے دل میں نہیں ہوتی۔ یہ بات نہیں کہ شروع میں انھیں ساتھی کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ایک بار برابر کی میز پربیٹھنے والے کیشو بابو سے ان کی اس موضوع پر بات چیت بھی ہوئی تھی۔ مہالیہ کے کئی دن پہلے ہی رتن بابو چھٹی لینے کا منصوبہ بنارہے تھے۔

انھوں نے کہا تھا، ’’آپ بھی تو صاحب، اکیلے آدمی ہیں۔ چلیے نا، اس بار پوجا کی چھٹی میں کہیں گھوم پھر آئیں۔‘‘

کیشو بابو نے اپنا قلم کان میں لگا کر اپنے ہاتھوں کو جوڑ کر ان کی طرف دیکھاتھا اور سرہلاکر مسکراتے ہوے کہاتھا، ’’آپ کی پسند اور میری پسند کیا ایک ہوپائے گی؟آپ ایسی ایسی عجیب جگہوں میں جائیں گے جن کا ہمیں نام بھی نہیں معلوم ۔ وہاں نہ تو کوئی قابلِ دید جگہ ہوگی اور نہ ہی کھانے پینے کی کوئی آسانی۔ مجھے معاف کریں، میں ہری نا بھی اپنے برادر نسبتی کے یہاں جارہاہوں۔‘‘

آہستہ آہستہ رتن بابو کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ اپنی مرضی کے مطابق دوست ملنا بے حد مشکل ہے۔ ان کی پسند ناپسند دوسروں کی پسند ناپسند سے بالکل نہیں ملتی ہے، اس لیے دوست بنانے کی امید چھوڑ ہی دیناچاہیے۔

رتن بابو کے عادت اورمزاج واقعی مختلف تو تھے۔ مثال کے طور پر آب و ہوا کی تبدیلی کی بات کو ہی لے لیجیے۔ کیشو بابو نے غلط نہیں کہاتھا۔ لوگ عام طور سے آب وہوا بدلنے کے خیال سے جن جگہوں پر جاتے ہیں، رتن بابو کی نگاہ اس طرف جاتی ہی نہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ارے صاحب، یہ بات تو ہر کسی کو معلوم ہے کہ پوری کے پاس ہی سمندر ہے، جگن ناتھ جی کا مندر ہے، دارجیلنگ سے کنچن جنگھادکھائی دیتا ہے، ہزاری باغ میں پہاڑ ہیں، جنگل ہیں، رانچی کے پاس ہنڈرو فالز ہیںـ اور لوگوں کے منھ سے بار بار کسی چیز کا ذکر سننے کا مطلب یہ ہوا کہ اسے دیکھ لیا۔‘‘

رتن بابو کو جس جگہ کی تلاش رہتی ہے، وہ ہے ریلوے اسٹیشن کا کوئی چھوٹا سا شہرـ بس، اتنا ہی۔ ہر سال چھٹی کے پہلے ٹائم ٹیبل کھول کر وہ ایک ایسی جگہ کا نام تلاش کرتے ہیں جو زیادہ دور نہ ہو، اور پھر وہ دُرگا کا نا م لے کر نکل پڑتے ہیں۔ کہاں گئے تھے ، کیا کیا دیکھا، یہ سب ان سے کوئی پوچھتا نہیں، اور وہ بھی کسی کو نہیں بتاتے۔ ایسا کئی بار ہوچکا ہے کہ وہ ایسی جگہ پہنچ گئے ہیں جس کا انھوں نے کبھی نام تک نہ سنا ہوگا، اور وہ جہاں بھی گئے ہیں وہاں انھیں ایسی چیز ضرور مل گئی ہے جس کی وجہ سے ان کا دل خوشیوں سے بھر گیا ہے۔ دوسرے لوگوں کی نظروں میں یہ سب چیزیں، ہوسکتا ہے بالکل معمولی ہوں۔ جیسے رات بھات کھاوا کا ایک بوڑھا پیپل جوایک بیر اور ناریل کے پیڑوں سے لپٹ کر کھڑا ہے، مہیش گنج کی ایک نیل کوٹھی کا کھنڈر، مئینا کی ایک مٹھائی کی دکان کی دال کی برفی…

اس بار رتن بابو جہاں آئے ہیں، اس جگہ کا نام سِنی ہے۔ یہ قصبہ ٹاٹا نگر سے پندرہ میل دوری پر ہے۔ اتناضرور ہے کہ اس جگہ کو انھوں نے ٹائم ٹیبل سے تلاش کر کے نہیں نکالا ہے۔ آفس کے قریبی دوستوں نے اس جگہ کے بارے میں بتایا تھا۔ نیومہامایا ہوٹل کا نام بھی انھیں سے سنا تھا۔

رتن بابو کو ہوٹل پسند آیا ۔ کمرہ چھوٹا ہے، مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے ! مشرق اور جنوب دونوں طرف کھڑکیاں ہیں۔ ان کھڑکیوں سے بہت ہی خوبصورت منظر نظر آتے ہیں۔ پنچا نام کا جو نوکر ہے، وہ سیدھا سادہ ہے ۔ چاہے سردی ہو یا گرمی، رتن بابو ہر موسم میں گرم پانی سے نہاتے ہیں۔ پنچا نے انھیں دلاسا دیاکہ اس کے لیے انھیں فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہوٹل کاکھانا بھی ٹھیک ہی ہے اور رتن بابو بھی یہی پسند کرتے ہیں، کیونکہ کھانے پینے کا انھیں زیادہ مراق نہیں ہے۔ ان کی طرف سے بس ایک ہی مانگ رہتی ہےـبھات اور روٹی۔ یہ دو چیزیں اگر ایک ساتھ نہ ہوں تو وہ کھانا نہیں کھاسکتے ۔ مچھلی کے شور بے کے ساتھ بھات اور دال سبزی کے ساتھ روٹی، یہی ان کا کھانا کھانے کا طریقہ ہے۔ ہوٹل آتے ہی انھوں نے یہ بات پنچا کو بتا دی ہے اور پنچا نے یہ خبر منیجر کو دے دی ہے۔

نئی جگہ آنے پر پہلے دن ہی جب تک وہ تیسرے پہر چہل قدمی نہیں کر آتے، انھیں سکون نہیں ملتا۔ سِنی آنے پر بھی اس معمول میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ چار بجے پنچا کی لائی ہوئی چائے پی کر رتن بابو گھومنے پھرنے نکل گئے۔قصبے سے باہر نکلتے ہی کھلا ہوا ناہموار میدان ملتا ہے۔ اس کے بیچ سے پگڈنڈیاں نکلتی چلی گئی ہیں۔ رتن بابو ایک پگڈنڈی پر چلتے ہوے جب ایک ڈیڑھ میل نکل گئے تو انھوں نے ایک بہت خوبصورت چیز ڈھونڈ نکالی ۔ ایک چھوٹا سا ڈیرا ہے۔ اس میں کچھ کُمد کے پھول کھلے ہیں، اور ان کے چاروں طرف بیشمار پرندوں کا ہجوم لگا ہے۔ بگلا، ڈاہُک، چاہا، کوڈلاّـ ان پرندوں کو رتن بابو پہچانتے ہیں۔ باقی پرندوں کو انھوں نے یہاں پہلی بار دیکھا ہے۔

ہر روز تیسرے پہر اسی ڈیرے کے کنارے بیٹھ کر رتن بابو چھٹی کے باقی دن گزار سکتے ہیں۔ مگر دوسرے روز کسی دوسری چیز کی تلاش میں انھوں نے ایک نئی پگڈنڈی پکڑ کر چلنا شروع کردیا۔ ایک آدھ میل جانے کے بعد راستے میں بکریوں کا ریوڑ ملا اور انھیں اپنی چہل قدمی کچھ دیر کے لیے روکنا پڑی۔ جب راستہ خالی ہوگیا تو وہ آگے بڑھے اور تقریباً پانچ منٹ کے بعد ان کی نگاہ لکڑی کے ایک پُل پر گئی۔ کچھ دور جانے پر انھیں پتاچلا کہ وہ ایک اوور برج ہے۔ اس کے نیچے سے ریلوے کی لائن چلی گئی ہے۔ مشرق کی طرف تھوڑے فاصلے پر اسٹیشن نظر آرہا ہے، اور مغرب کی طرف آنکھیں جتنی دور جاتی ہیں، ریل کی پٹریاں بچھی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اچانک ابھی کوئی ریل آکر پل کے نیچے سے نکل جائے تو کتنی عجیب بات ہوگی، یہ بات سوچتے ہی رتن بابو کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

رتن بابو چونکہ ایک ٹک ریل گاڑی کی پٹریوں کی طرف دیکھ رہے تھے، اس لیے کب ایک دوسرا آدمی ان کی بغل میں آکر کھڑا ہوگیا، اس کا انھیں علم ہی نہیں ہوا۔ جب انھوں نے بغل کی طرف نگاہ گھمائی تو چونک گئے۔

وہ آدمی دھوتی اور قمیص پہنے تھا۔ کندھے پر خاکی رنگ کی ایک چادر تھی، پاؤں میں کینوس کے جوتے، آنکھوں پر بائی فوکل چشمہ۔ رتن بابو کے دل میں ایک کھٹکا پیدا ہوا۔ اس آدمی کو کیا وہ اس سے پہلے دیکھ چکے ہیں؟ جانا پہچانا سا نہیں لگتا کیا؟ درمیانی قد کا ہے، بدن کا رنگ بھی گورے کالے کے بیچ کا ہے، آنکھیں اُداس اور جذباتی ہیں۔ کتنی عمر ہوگی؟ پچاس سے زیادہ نہیں ہے۔ بال بہت ہی کم پکے ہیںـ کم سے کم شام کی روشنی میں تو ایسا ہی لگتا ہے۔

اجنبی نے ایک ٹھنڈی ہنسی ہنس کر رتن بابو کو نمسکار کیا۔ رتن بابو ہاتھ جوڑ کر جب اسے نمسکار کرنے لگے تو اچانک یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی کہ ان کے دل میں یہ وہم کیوں پیداہورہا تھا۔ یہ آدمی جو جانا پہچانا سا لگتا ہے، اس کی کوئی دوسری وجہ نہیں ہے۔ اس ڈھانچے کے چہرے کو رتن بابو بہت بار دیکھ چکے ہیں، اور دیکھا ہے تو آئینے میں ہی۔ اس بھلے آدمی سے ان کا چہرہ ہوبہو ملتا جلتا ہے۔ چوکور چہرہ، بالوں کی مانگ، مونچھوں کی شکل، ٹھوڑی کے بیچ کا گڈھا، کان کے اوپر کا حصہـیہ سب تقریباً ایک جیسے ہیں۔ ہاں، اجنبی کے بدن کا رنگ کچھ زیادہ کالاپن لیے ہوے ہے، بھنویں زیادہ گھنی ہیں اور سر کے پچھلے حصے کے بال کچھ زیادہ لمبے ہیں۔

اس کے بعد اجنبی کے گلے کی آواز سن کر رتن بابو اور بھی زیادہ چونک گئے۔ ایک بارمحلے کے سشانت نام کے ایک لڑکے نے ان کے گلے کی آواز ٹیپ ریکارڈ میں بھرکر انھیں سنائی تھی۔ اس آواز اور اس آدمی کے گلے کی آواز میں کوئی فرق نہیں ہے۔

اجنبی نے کہا، ’’میرا نام ہے منی لال مجومدار۔آپ نیومہامایا ہوٹل میں ٹھہرے ہوے ہیں نا؟‘‘

رتن لال… منی لال… نام بھی ملتے جلتے ہیں۔ رتن بابو نے حیرانی کے جذبے پر قابو پاکر اپنا تعارف کرایا۔

اجنبی نے کہا، ’’شاید آپ مجھے پہچان نہیں پارہے ہیں، مگر میں اس کے پہلے بھی آپ کو دیکھ چکا ہوں۔‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’آپ پچھلی پوجا کی چھٹی میں دھلیان نہیں گئے تھے؟‘‘

رتن بابو نے حیران ہوکر کہا، ’’آپ بھی وہاں گئے تھے؟‘‘

’’جی ہاں، میں ہر بار پوجا کی چھٹی میں کہیں نہ کہیں جاتا ہوں۔ اکیلا آدمی ہوں، دوست احباب بھی زیادہ نہیں ہیں۔ اکیلے ہی نئی نئی جگہوں کا سیر سپاٹا کرنا بہت اچھا بھی لگتا ہے۔ سِنی کے بارے میں میرے آفس کے ایک ساتھی نے مجھے بتایاتھا۔ بہت ہی اچھی جگہ ہے۔ کہیے، ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟‘‘

رتن بابو نے تھوک نگل کر سرہلاتے ہوے ہامی بھری ۔اب کچھ دیسی پرندے بھی وہاں جمع ہوگئے ہیں۔

’’کچھ ایسے پرندے بھی دیکھے جنھیں بنگال میں نہیں دیکھا تھا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘

اتنی دیر میں رتن بابو کچھ سنبھل گئے تھے۔ بولے، ’’میرا بھی یہی خیال ہے، میں بھی بہت سے پرندوں کو نہیں پہچان سکا تھا۔‘‘

دور سے ایک دھمک سی سنائی دے رہی ہے۔ ریل آرہی ہے۔ مشرق کی طرف دیکھنے پر ہیڈلائٹ دکھائی دی۔ روشنی آہستہ آہستہ بڑی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ رتن بابو اور منی لال بابو پُل کی ریلنگ کے کنارے جاکر کھڑے ہوگئے۔ تیز آواز کرتی، پل کو دہلاتی ہلاتی، ریل دوسرے کنارے کی طرف چلی گئی۔ دونوں آدمی پیدل چل کر پل کی دوسری طرف بڑھ گئے اور اس وقت تک ریل کو دیکھتے رہے جب تک کہ وہ آنکھوں کے سامنے سے غائب نہ ہوگئی۔ رتن بابو کے دل میں بچوں جیسا سنسنی خیز جذبہ جاگ گیا ہے۔ منی لال بابو نے کہا، ’’حیرت ہے! اتنی عمر ہوگئی، پھر بھی ریل گاڑی دیکھنے کا تجسس دل سے دور نہیں ہوا!‘‘

لوٹتے وقت رتن بابو کو معلوم ہوا کہ منی بابو کو سِنی آئے تین روز ہوے ہیں اور وہ کالکا ہوٹل میں ٹھہرے ہوے ہیں۔ کلکتہ میں ہی ان کا آبائی مکان ہے اور وہ وہیں کے ایک بزنس آفس میں کام کرتے ہیں۔ عام طور سے لوگ ایک دوسرے سے تنخواہ کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کرتے ہیں مگر رتن بابو نہ چاہتے ہوے بھی پوچھ ہی بیٹھے۔ جواب سن کر ان کا ماتھا پسینے سے بھیگ گیا۔ کیا یہ ممکن ہے؟ منی لال اور رتن بابو کو بالکل ایک جتنی تنخواہ ملتی ہےـ دونوں میں سے ہر ایک کو چار سو پینتیس روپے۔ پوجا میں دونوں کو بونس بھی ایک جتناملاہے۔

یہ آدمی پہلے سے ہی رتن بابو کے بارے میں سب کچھ پتالگا کر ان کے ساتھ چالبازی کر رہا ہے، رتن بابو کو ایسا محسوس نہیں ہوا۔ پہلی بات تو یہ کہ ان کی روز مرہ کی زندگی کس طرح گزر رہی ہے، اس پر کبھی کسی نے غور نہیں کیا ہے۔ وہ اپنی رو میں زندگی جی رہے ہیں ۔ آفس کے باہر نوکر کے علاوہ کسی دوسرے سے بات تک نہیں کرتے، کبھی کسی کے گھر جاکر اڈے بازی نہیں کرتے۔اگر یہ مان بھی لیں کہ تنخواہ کے بارے میں باہری لوگوں کو معلوم ہے تو رات میں وہ کب سوتے ہیں، کیا کھانا پسند کرتے ہیں، کون سا اخبار پڑھتے ہیں، کون سا تھیٹر یا بنگالی سنیما ابھی حال میں انھوں نے دیکھا ہےـیہ سب باتیں ان کے علاوہ کسی دوسرے کو معلوم نہیں۔لیکن یہ ساری باتیں اس بھلے آدمی سے ہو بہو مل رہی ہیں۔ رتن بابو یہ بات منھ کھول کر منی لال بابو کو نہیں کہہ سکے۔ راستے بھر وہ صرف منی لال بابو کی باتیں سنتے رہے اور اپنے ساتھ اس کی مشابہت پاکر باربار حیران ہوتے رہے۔ اپنے بارے میں انھوں نے کچھ نہیں بتایا۔

رتن بابو کا ہوٹل پہلے آتا ہے۔ ہوٹل کے سامنے آکر منی لال بابونے پوچھا،’’آپ کے یہاں کھانا کیساملتا ہے؟‘‘

رتن بابو نے کہا،’ ’مچھلی کاشوربہ اچھاہوتا ہے۔باقی سب بس چالو کہہ لیجیے۔‘‘

’’میرے ہوٹل میں اچھا کھانا نہیں ملتا ہے۔ سنا ہے، یہاں جگن ناتھ مشٹھان بھنڈار میں بہت عمدہ پوریاں اور چنے کی دال ملتی ہے۔ آج رات وہیں کھانا کھایا جائے تو کیسا رہے؟‘‘

رتن بابو نے کہا، ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ آٹھ بجے چلا جائے؟‘‘

’’ٹھیک ہے۔ میں آپ کا انتظار کروں گا۔ اس کے بعد ایک ساتھ چلیں گے۔‘‘

منی لال بابو کے چلے جانے کے بعد رتن بابو ہوٹل کے اندر جانے کے بجاے کچھ دیر تک راستے پر ہی چہل قدمی کرتے رہے۔ شام ڈھلنے لگی ہے۔ آسمان صاف ہے، اتنا صاف کہ تاروں کے بیچ سے گزرتی ہوئی کہکشاں بھی صاف صاف نظر آرہی ہے۔ حیرت ہے، اتنے دنوں تک رتن بابو کو یہی دُکھ تھا کہ انھیں کوئی ایسا دوست نہ ملا جس سے ان کا دل اور خیالات ملتے ہوں؛ لیکن سِنی آنے پر اچانک ایک ایسے آدمی سے ملاقات ہوگئی جسے ان کا ڈپلیکیٹ ہی کہا جاسکتا ہے۔ چہرے میں تھوڑا بہت فرق ہے، پھر بھی عادت، مزاج اور فطرت میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ایسی مماثلت جڑواں بھائیوں میں بھی ملنا مشکل ہوتی ہے۔

اس کا مطلب کیا یہ ہے کہ اتنے دنوں کے بعد دوست کی کمی پوری ہوگئی؟

رتن بابو کو اس بات کا جواب فوراً نہیں ملا۔ منی لال بابو سے تھوڑا اور ملنے جلنے سے، ہوسکتا ہے یہ بات ان کی سمجھ میں آجائے۔ ایک چیز وہ اچھی طرح سمجھ گئے تھے، اور وہ یہ کہ ان کے اکیلے پن کی کمی دور ہوگئی ہے۔ اس دنیا میں انھیں کے جیسا ایک آدمی اتنے عرصے سے موجود تھااور اب اس سے اچانک ملاقات ہوگئی۔

جگن ناتھ مشٹھان بھنڈار میں میز پر آمنے سامنے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوے رتن بابو نے غور کیا کہ منی لال بابو بھی انھیں کی طرح چاٹ پونچھ کر کھانا پسند کرتے ہیں، انھیں کی طرح کھانا کھاتے کھاتے پانی پیتے ہیں، انھیں کی طرح کا غذی لیموں دال میں نچوڑ لیتے ہیں۔ سب کچھ کھانے کے بعد رتن بابو دہی کھاتے ہیں۔ منی لال بابو کے ساتھ بھی یہی بات ہے۔

کھانا کھاتے وقت رتن بابو کو اس لیے بے چینی محسوس ہورہی تھی کیونکہ دوسری میزوں کے لوگ مڑ مڑ کر ان دونوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ یہ لوگ کیا ان دونو ں کی مشابہت کو اتنے غور سے دیکھ رہے ہیں؟ یہ دونوں کیا اس حد تک ایک دوسرے سے ملتے ہیں کہ لوگوں کی توجہ ان کی طرف مائل ہوجاتی ہے؟

کھاناکھانے کے بعد رتن بابو اور منی لال بابو چاندنی رات میں کچھ دیر تک چہل قدمی کرتے رہے۔ ایک سوال رتن بابو کے دماغ میں بہت دیر سے گھوم رہا تھا، بات چیت کے دوران وہ باہرنکل آیا، ’’آپ کیا پچاس پار کرچکے ہیں؟‘‘

منی لال بابونے ہنس کر کہا، ’’جلد ہی پچاس سال پورے کرنے جارہا ہوں۔ پوس کی گیارھویں تاریخ کو پچاس کمپلیٹ ہوجائے گا۔‘‘

رتن بابو کا دماغ چکرانے لگا۔ دونوں کی پیدائش کی تاریخ بھی ایک ہی ہےـ 1916کے پوس مہینے کی گیارھویں۔ آدھے گھنٹے تک چہل قدمی کرنے کے بعد وہاں سے رخصت ہوتے وقت منی لال بابو نے ہنس کر کہا، ’’آپ سے مل کر بے حد خوشی ہوئی۔ میں کسی سے گھلتا ملتا نہیں ہوں، مگر آپ کے ساتھ کچھ اور ہی بات ہے۔ لگتا ہے چھٹی مزے میں گزرے گی۔‘‘

رتن بابو دس بجے سے پہلے ہی سوجاتے ہیں۔ اپنے ساتھ بنگلہ زبان کے دو چار ماہوار رسالے لے کر لیٹے لیٹے جب ان کی ورق گردانی کرتے ہیں تو نیند خود بخود آجاتی ہے۔ لیٹے لیٹے ہی ہاتھ بڑھاکر بجلی کابٹن دباکر بتی بجھا دیتے ہیں اور چند پلوں میں ہی ان کے خراٹے گونجنے لگتے ہیں۔ مگر آج نیند ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ پڑھنے کی خواہش بھی نہیں تھی۔ رسالے کو ہاتھ میں اٹھاکر پھر سے بغل کی میز پر رکھ دیا۔

منی لال مجومدار…رتن بابو نے کہاں پڑھا تھا کہ دنیا میں کروڑوں آدمی ہیں، پھر بھی کہیں ایسے دو آدمی نہیں مل سکتے جن کے چہرے ہوبہو ایک جیسے ہوں، حالانکہ سبھی کی آنکھ، کان، ناک، ہاتھ پیر وغیرہ کی تعداد برابر ہوتی ہے۔ چہرے کاایک جیسا ہونا ہوسکتا ہے ناممکن ہو، لیکن دولوگوں کے دل کا ایک جیسا ہونا کیا ممکن ہے؟ دل ہی نہیں، عمر، پیشہ، گلے کی آواز، چلنے اوربیٹھنے کا انداز، آنکھوں کی عینک کا پاور وغیرہ، اور بھی بہت سے چیزیں ہوبہو ایک جیسی ہیں۔ سوچنے پر محسوس ہوتا ہے ناممکن ہے، مگر ممکن ہوگیا ہے، اوراس کا ثبوت پچھلے چار گھنٹوں کے دوران رتن بابو کو کئی بار مل چکا ہے۔

رات بارہ بجے رتن بابو نے بستر سے اٹھ کر صراحی سے چلّو میں تھوڑا سا پانی لے کر اسے اپنے سر پر ڈالا۔ ان کا سر چکرانے لگا ہے۔ اس حالت میں نیند نہیں آئے گی۔ گیلے سر کو انگوچھے سے آہستہ سے پونچھا اور دوبارہ بستر پر لیٹ گئے۔ تکیہ بھیگ گیا۔ اچھی ہی بات ہے۔ جب تک تکیہ سوکھ نہیں جاتا ہے، ماتھا ٹھنڈا رہے گا۔

پورے محلے میں سناٹا چھایا ہوا ہے ایک الّو ڈراؤنی آواز میں چلّاتا ہوا ہوٹل کے قریب سے اڑتا ہوا چلا گیا۔ کھڑکی سے چاندنی آکر بستر پر رینگ رہی ہے۔ نہ جانے کب رتن بابو کے دل سے فکر اپنے آپ دور ہوگئی اور ان کی پلکیں جھپک گئیں۔

رات کو دیر سے سونے کے باعث رتن بابو کی نیند صبح آٹھ بجے ٹوٹی۔ نوبجے منی لال بابو آنے والے ہیں۔ آج منگل کا دن ہے۔ یہاں سے تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلے پر آج ایک جگہ پر ہاٹ لگے گا۔ کل کھانا کھاتے ہوے دونوں نے تقریباً ایک ساتھ ہی ہاٹ جانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ خریدنا کوئی خاص چیز نہیں ہے، بس یوں ہی گھوم پھر آئیں گے۔

چائے پیتے پیتے نو بج گئے۔ سامنے رکھی طشتری سے تھوڑی سی سونف اٹھاکر رتن بابو نے منھ میں ڈالی اور ہوٹل سے باہر آتے ہی دیکھا، منی لال بابو مسکراتے ہوے چلے آرہے ہیں۔

قریب آتے ہی منی لال بابو نے پہلی جو بات کہی وہ یہ کہ رتن بابو اور ان میں کتنی مشابہت ہے! یہی بات سوچتے سوچتے کل رات وہ بہت دیر سے سوئے تھے۔ جب سوکر اٹھے تو آٹھ بج کر پانچ منٹ ہوچکے تھے۔ یوں وہ ٹھیک چھ بجے بستر سے اٹھ جاتے ہیں۔

رتن بابو نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ دونوں ہاٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ محلے کے کچھ چھوکروں کا جمگھٹ لگا ہوا تھا۔ رتن بابو اور منی بابو ان کے سامنے سے جانے لگے تو ان میں سے ایک نے طنز کے لہجے میں کہا، ’’مانِک مُکتاکی جوڑی ہے۔‘‘ رتن بابو اس کی بات کو ٹالتے ہوے آگے بڑھ گئے۔ تقریباً بیس منٹ میں وہ ہاٹ پہنچ گئے۔

کافی اچھا ہاٹ لگا ہے ۔ پھل پھول سے لے کر ساگ سبزی، برتن، مٹی کی ہانڈی، مرغوں اوربکروں وغیرہ کی دکانیں سجی ہوئی ہیں۔ لوگوں کی بھیڑ بھی کافی ہے۔ اسی بھیڑ کے بیچ سے دکانوں پر سرسری نگاہ ڈالتے ہوے رتن بابو اور منی لال بابو آگے بڑھتے گئے۔

وہ کون ہے؟ پنچا؟ نہ جانے کیوں رتن بابو نے اس بھیڑ کے سامنے اپنے ہوٹل کے نوکر کو دیکھ کر اپنی آنکھیں جھکا لیں اور اپنے چہرے کو بھیڑ کی اوٹ میں چھپا لیا۔ اس چھوکرے کی ’’مانک مکتا کی جوڑی‘‘ کی بات سننے کے بعد سے ہی ان کے دل میں یہ بات گھر کر گئی ہے کہ ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر لوگ دل ہی دل میں ہنستے ہیں۔

بھیڑ کے بیچ سے گزرتے ہوے رتن بابو کے دل میں اچانک ایک خیال آیا۔ انھیں لگا کہ وہ جب تنہا تھے تو زیادہ بہتر تھے۔ انھیں دوست کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر دوست ہو بھی تو وہ منی لال بابو کی طرح نہ ہو ۔ وہ منی لال بابو سے جتنی بار گفتگو کرتے ہیں، اتنی بار انھیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے آپ سے گفتگو کر رہے ہیں۔ سوال کرنے سے اس کا جواب کیا ملے گا، یہ بات جیسے انھیں پہلے سے ہی معلوم ہو۔ بحث کرنے کا کوئی موقع نہیں آتا، سوچ بچار کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، جھگڑے جھنجھٹ کا کوئی امکان نہیں ہےـ کیا یہ دوستی کی نشانی ہے؟ ان کے دفتر کے کار تک رائے اور مکند چکرورتی میں گہری دوستی ہے۔ مگر ایسا ہونے پر بھی کیا دونوں میں بحث مباحثہ نہیں ہوتا ہے ؟ ہوتا ضرور ہے، مگر پھر بھی وہ دوست ہیںـ ایک دوسرے کے سچے دوست۔

ساری باتو ں پر غور کرنے کے بعد انھیں بار بار یہی محسوس ہونے لگا کہ منی لال مجومدار اگر ان کی زندگی میں نہ آتے تو اچھا رہتا۔ ایک جیسے دو آدمی اگر اس دنیا میں ہوں تو ان کا ایک دوسرے کے قریب آنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ سِنی سے کلکتہ لوٹ جانے پر بھی منی لال بابو سے ملاقات ہوسکتی ہے،یہ بات سوچتے ہی رتن بابو کانپ اٹھتے۔

ایک دکان میں بانس کی لاٹھی بک رہی تھی ۔ رتن بابو کی بہت دنوں سے لاٹھی خریدنے کی خواہش تھی، مگر منی لال بابو کو سودے بازی کرتے دیکھ کر زبردستی اپنی خواہش کو دل میں ہی دبا لیا۔ آخر میں دیکھنے میں یہ آیا کہ منی لال بابو نے ایک کے بجاے دو لاٹھیاں خریدیں اور ان میں سے ایک رتن بابو کو بطور تحفہ پیش کی۔ تحفہ دیتے وقت کہا، ’’امید ہے کہ یہ معمولی لاٹھی دوستی کی نشانی کے طور پر لینے سے آپ انکار نہیں کریں گے۔‘‘

ہاٹ سے لوٹتے وقت منی لال بابو نے بہت سی باتیں بتائیں۔ اپنے بچپن کی بات، اپنے ماں باپ کی بات، اپنے اسکول کالج کی باتـ سنتے وقت رتن بابو کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ان کی باتیں کوئی دھڑلّے سے انھیں ہی سنارہا ہے۔

تیسرے پہرچائے پی کر جب وہ دونوں میدان کے بیچ پگڈنڈی سے ہو کر پل کی طرف جا رہے تھے تو رتن بابو کے دماغ میں ایک خیال آیا۔ انھیں زیادہ بولنا نہیں پڑرہا تھا، اس لیے ان کا دماغ اچھی طرح کام کر رہا تھا۔ دوپہر سے ہی انھیں لگ رہا تھا کہ اس آدمی کو اگر دور ہٹاسکوں تو اچھا رہے، مگر دماغ میں کوئی تدبیر نہیں آرہی تھی۔ اسی لمحے آسمان کے کالے بادلوں پر نگاہ پڑتے ہی رتن بابو کی آنکھوں کے سامنے یہ ترکیب آگئی۔

حیرت ہے! ایک آدمی کو قتل کرنے کی بات سوچ کر بھی رتن بابو خود کو قصور وارنہیں مان سکے۔ منی لال بابو میں اگر کوئی خصوصیت ہوتی، یہاں تک کہ ان کی عادت و اطوار رتن بابو سے اگر ذرا بھی مختلف ہوتے، تو رتن بابو ان کو قتل کرنے کی بات نہیں سوچ سکتے تھے۔ رتن بابو کو یقین ہوگیا ہے کہ ایک ہی طرح کے دو آدمیوں کاایک ساتھ زندہ رہنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ وہ ہیں اور وہی رہیں گے، یہی کافی ہے۔ منی لال بابو اگر زندہ رہ کر بھی ان سے دور رہتے، جیسے کہ کچھ دن پہلے تک تھے، تو انھیں کوئی اعتراض نہ تھا، مگر اب اس جان پہچان کے بعد ایسا ہونا ناممکن ہے،اس لیے انھیں دور ہٹا دینا نہایت ضروری ہے۔

دونوں آدمی اوور برج پر پہنچ چکے تھے۔

’’بڑی ہی اُمس ہے،‘‘ منی لال بابو نے کہا،’’رات میں بارش ہوسکتی ہے۔ اور اس کا مطلب یہ کہ کل کڑاکے کی سردی پڑے گی۔‘‘

اس بیچ رتن بابو نے ایک بار اپنی گھڑی کی طرف نگاہ ڈالیـچھ بجنے میں بارہ منٹ باقی ہیں۔ ریل ٹھیک وقت پر آتی جاتی ہے، اب دیر نہیں ہے۔ رتن بابو نے اپنی بے چینی کو چھپانے کے لیے جماہی لی او رکہا،’ ’ابھی چار پانچ گھنٹے تک بارش ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔‘‘

’’سپاری کھائیں گے؟‘‘

منی لال بابو نے جیب سے ٹین کی ایک گول ڈبیا نکالی اور اس کے ڈھکن کو کھول کر رتن بابو کی طرف بڑھائی۔ رتن بابو کی جیب میں بھی ایک ڈبیا میں سپاری تھی؛ اس ڈبیا کو جیب سے نکالے بغیر، اور اس کی بابت کچھ کہے بغیر، انھوں نے منی لال بابو کی ڈبیا سے سپاری کا ایک ٹکڑا نکال کر منھ میں ڈال لیا۔

اور عین اسی وقت ریل کی آواز سنائی دی۔

منی لال بابو نے ریلنگ کے پاس جاکر گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا ،’’سیون منٹ بی فور ٹائم۔‘‘

مغرب کی طرف گھٹاچھائی ہونے کی وجہ سے آج اور دنوں کی بہ نسبت اندھیرا ہے، اس لیے ہیڈلائٹ کی روشنی زیادہ اجلی لگ رہی ہے۔ ریل اب بھی کافی دور ہے، اور ہاں، روشنی کا حجم جلدی جلدی بڑھتا جارہا ہے۔ لگاتار دیکھا جائے تو آنکھوں میں پانی بھر آئے۔

ایک آدمی سائیکل پر سوار ہوکر سڑک سے پل کی طرف آرہا ہے۔ بڑی مصیبت ہے یہ آدمیـ یہاں رکنے والا ہے کیا؟

رتن بابو کااندیشہ غلط ثابت ہوا۔ وہ آدمی ان لوگوں کے پاس سے ہوتا ہوا، آندھی کی طرح سائیکل چلاتاہوا،مخالف سمت کے راستے پر شام کے اندھیرے میں گم ہوگیا۔ ریل گاڑی تیز رفتار سے چلی آرہی ہے ۔ آنکھوں میں چکا چوند پیدا کرنے والی ہیڈلائٹ میں فاصلے کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ اب کچھ ہی پلوں کے بعد اوور برج کانپنے لگے گا۔ ریل کی آواز سے کان کا پردہ پھٹاجارہا ہے۔

منی لال بابوریلنگ پکڑ کر ریل کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایک بار بجلی چمکی اور اس کے ساتھ ہی رتن بابو نے اپنی پوری طاقت لگا کر دونوں ہاتھوں سے منی لال بابو کی پشت پر ایک دھکا دیا۔ منی لال بابو کاجسم دو ہاتھ اونچی لکڑی کی ریلنگ کے اوپر سے ہوتا ہواسیدھا ریل کی پٹریوں کی طرف چلا گیا۔ ٹھیک اسی وقت رتن بابو کو محسوس ہوا کہ اوور برج تھرتھرانے لگاہے۔

آج رتن بابو نے ریل گزرنے کے منظرکو دیکھنے کا انتظار نہیں کیا۔ لکڑی کے برج کی طرح ہی ان کے اندر ایک تھرتھراہٹ شروع ہوگئی ہے۔ مغرب کی طرف گھٹابہت آگے تک چلی آئی ہے اور بیچ بیچ میں بجلی چمک رہی ہے۔

رتن بابو نے شال کو اچھی طرح لپیٹ لیا اور ہوٹل کی طرف روانہ ہوگئے۔

بارش کے پہلے جھونکے کو نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش میں رتن بابو نے باقی راستے کو دوڑتے دوڑتے طے کیا اور ہانپتے ہوے ہوٹل پہنچے۔

اندر جاتے ہی انھیں شک ہوا۔

وہ کہاں آگئے! مہامایا ہوٹل کے سامنے ایسامکان نہیں تھا۔ اس طرح کی میز، اس طرح کی کرسیوں کی سجاوٹ ، دیوار پر اس طرح کی تصویر…!

اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد اچانک ان کی نگاہ لکڑی کے ایک بورڈپر گئی۔ باپ رے، ان سے کتنی بڑی غلطی ہوگئی ہے ! وہ تو کالکا ہوٹل کے اندر آگئے ہیں۔ یہیں منی لال بابو ٹھہرے ہوے تھے نا؟

بارش نے انھیں بھگو دیا کیا؟

کسی آدمی نے ان سے کچھ پوچھا۔ رتن بابو نے مڑ کر دیکھا، ایک آدمی ہے جس کے گھنگھرالے بال ہیں، بدن پر ہرے رنگ کی شال ہے۔ معلوم ہوتا ہے ، اسی ہوٹل کارہنے والا ہے۔ وہ ان کی طرف منھ کیے چائے کی پیالی لیے بیٹھا ہوا ہے۔ رتن بابو کے چہرے پر نگاہ پڑنے کے بعد اس نے ذرا گھبراہٹ کے ساتھ کہا، ’’سوری! غلطی ہوگئی۔ آپ پر اچانک نگاہ پڑی تو لگا، منی لال بابو ہیں۔‘‘

اس سوال سے ان کے دل میں یہ شک پیدا ہوا کہ انھوں نے جو قتل کیا ہے، وہ ہر پہلو سے سوچ سمجھ کر اور پوری ہوشیاری برتتے ہوے کیا ہے یا نہیں۔ وہ دونوں ایک ساتھ نکلے تھے، بہت سے لوگوں نے ہوسکتا ہے دیکھا ہو، مگر دیکھنا ہی کیا، غور سے دیکھنا اہم ہے۔جنھوں نے دیکھا ہوگا، انھیں کیا یہ بات یاد ہوگی؟ اور اگر یاد ہو بھی تو کیا ان پر شک کریں گے؟ ہاٹ سے نکلنے کے بعد جب وہ کھلے راستے پر آئے تھے انھیں کسی نے نہیں دیکھا تھا، یہ بات رتن بابو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اور اس اووربرج پر پہنچنے کے بعد… او ہ،ہاں… اس سائیکل والے نے انھیں ضرور ہی دیکھا ہوگا۔ مگر تب گہرا اندھیرا اتر آیاتھا، اس طرح تیزی سے سائیکل چلاتے ہوے اس آدمی نے کیا ان کاچہرہ پہچان لیا ہوگا؟ اور پہچان کر یاد رکھا ہوگا؟ ناممکن بات ہے۔

رتن بابو نے اس موضوع پر جتنا زیادہ سوچا وہ اتنا زیادہ مطمئن ہوگئے۔ منی لال بابو کی لاش ضرور ہی برآمد ہوگی۔ مگر اس کی وجہ سے رتن بابو پر شک ہوگا، معاملے پر غور کیا جائے گا، انھیں خونی مان کر پھانسی کی سزا دی جائے گیـ ان باتو ں پر رتن بابو کو قطعی یقین نہیں ہوا۔

باہر بارش ہوتے دیکھ کر رتن بابو نے کالکا ہوٹل میں بیٹھ کر ایک پیالی چائے پی۔ ساڑھے سات بجتے بجتے بارش تھم گئی۔ رتن بابو سیدھے مہامایا چلے آئے۔ کس طرح غلطی سے وہ دوسرے ہوٹل میں چلے گئے تھے، اس پر سوچتے ہی انھیں ہنسی آنے لگی۔

رات میں پیٹ بھر کھانا کھاکر رتن بابو بستر پر لیٹ گئے اور دیش رسالہ کھول کر آسٹریلیا کی جنگلی ذاتو ں کے بارے میں ایک مضمون پڑھا۔ اس کے بعد بتی بجھا کر اطمینان کے ساتھ آنکھیں بند کرلیں۔ اب پھر وہ اکیلے ہیں اور ان کی طرح کوئی دوسرا نہیں ہے۔ ان کا کوئی ساتھی نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی ضرورت ہی ہے۔ وہ اتنے عرصے سے جس طرح زندگی گزار رہے تھے، اسی طرح زندگی گزاریں گے۔ اس سے بڑھ کر آرام اور کیا ہوسکتا ہے؟

باہر پھر سے بارش ہونے لگی ہے۔ اس کے ساتھ بجلی کی چمک اوربادلوں کی گڑگڑاہٹ شروع ہوگئی ہے۔ مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ رتن بابو کے خراٹے گونجنے لگے ہیں۔

دوسرے روز جب وہ چائے پی رہے تھے تو پنچا نے پوچھا،’ ’یہ لاٹھی کل ہاٹ میں خریدی ہے کیا بابو؟‘‘

رتن بابو نے کہا،’’ہاں۔‘‘

’’قیمت کتنی ہے؟‘‘

رتن بابو نے اس کے دام بتائے۔ اس کے بعد اپنے لہجے کو عام اور فطری سا بناکر کہا، ’ ’تم ہاٹ گئے تھے؟‘‘

پنچانے ہنستے ہوے جواب دیا، ’’ہاں بابو، آپ کو بھی دیکھاتھا۔ آپ کی نگاہ مجھ پر نہیں پڑی تھی؟‘‘

’’ نہیں۔‘‘

اس کے بعد پنچا سے ان کی کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔

چائے پی کر وہ ہوٹل سے باہر نکلے اور پیدل چلتے ہوے کالکا ہوٹل کے پاس آئے۔ کل کا وہی گھنگھرالے بالوں والا آدمی کچھ بنگالیوں کے ساتھ دروازے کی چوکھٹ پر کھڑا ہوکر بات چیت کر رہا تھا۔ منی لال بابو کا نام اور ’خود کشی‘ لفظ رتن بابو کو سنائی دیا۔ اچھی طرح سننے کی غرض سے وہ تھوڑا اور آگے بڑھ گئے۔ اتناہی نہیں، ایک سوال بھی پوچھ لیا۔

’’کس نے خود کشی کرلی صاحب؟‘‘

کل والے آدمی نے کہا، ’’کل آپ کو دیکھ کر جن آدمی کامجھے گمان ہوا تھا، انھوں نے ہی۔‘‘

’’خود کشی؟‘‘

’’لگتا تو یہی ہے۔ ریل گاڑی کے پاس لاش ملی ہے۔ ایک اوور برج ہے، ٹھیک اسی کے نیچے۔ لگتا ہے اوپر سے چھلانگ مارکر کود پڑے ہیں۔ وہ یوں بھی عجیب قسم کے تھے۔ کسی سے زیادہ بات چیت نہیں کرتے تھے۔ ہم اُن پر اکثر جملے بازی کیاکرتے تھے۔‘‘

’’لاش کہاں ہے؟‘‘

’’پولیس کے ذمے۔ آب وہوا بدلنے کے خیال سے آئے تھے۔ یہاں ان کا کوئی جاننے والانہیں تھا۔ کلکتہ سے آئے تھے۔ اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں ہے۔‘‘

رتن بابو نے ہمدردانہ انداز میں دوبار سرہلاکر ’’چچ چچ‘‘ کی آواز نکالی اور اس کے بعد پھر سے چہل قدمی شروع کردی۔

خود کشی … یعنی قتل کی بات کسی کے دماغ میں نہیں آئی ہے۔ ان کی تقدیر کتنی اچھی ہے! پھر قتل کرنا تو بہت ہی آسان کام ہے! لو گ ا تنا ڈرتے کیوں ہیں؟

رتن بابو بہت ہلکا پن محسوس کرنے لگے۔ دو دنو ں کے بعد وہ آج پھر اکیلے گھومنے کے لیے باہر جاسکیں گے، یہ بات سوچ کر انھیں بہت خوشی ہوئی۔

کل منی لال بابو کو دھکا دیتے وقت رتن بابو کا ایک بٹن ٹوٹ کر گرگیا تھا۔ درزی کی دکان پر جاکر انھوں نے اسے ٹکوا لیا۔ اس کے بعد منیہاری کی دکان پر جاکر نیم کاٹوتھ پیسٹ خریدا۔ نہیں خریدتے تو کل صبح دانت صاف نہ کرپاتے۔ ابھی جو ٹوتھ پیسٹ ان کے پاس ہے، دبتے دبتے وہ چپٹا ہوکر آخری حالت میں پہنچ چکا ہے۔

دکان سے نکل کر کچھ دور جاتے ہی انھیں ایک مکان سے کیرتن کی آواز سنائی دی۔ رتن بابو تھوڑی دیر تک رک کر کیرتن سنتے رہے۔ اس کے بعد شہر کے باہر کی ایک نئی سڑک کو پکڑ کر ایک آدھ میل کا چکر کاٹتے رہے۔ اس کے بعد گیارہ بجے ہوٹل لوٹ کر نہائے دھوئے اور کھانا کھایا۔ کھانا کھانے کے بعد قیلولہ کرنے کی کوشش کرنے لگے۔

اور دنو ں کی طرح تین بجے ان کی آنکھ کھلی اور آنکھ کھلتے ہی رتن بابو کو لگاکہ ان کا دل چاہ رہا ہے کہ آج شام ایک بار پھر اوور برج کی طرف گھومنے جائیں۔ کل تووہ، ظاہر ہے کہ بہر حال ریل کے نظارے کالطف نہ اٹھا سکے تھے۔ آسمان سے بادل چھٹے نہیں تھے مگر اس میں حرج ہی کیا ہے۔ آج بار ش کی کوئی امید نہیں ہے۔ آج وہ ریل کو آنے سے لے کرجانے کے وقت تک دیکھتے رہیں گے۔

پانچ بجے رتن بابو چائے پی کر نیچے آئے۔ سامنے ہی منیجر شمبھو بابو بیٹھے ہوے ملے۔ رتن بابو پر نظر پڑتے ہی بولے، ’’کل جس آدمی کی موت ہوئی اس سے آپ واقف تھے؟‘‘

شروع میں بغیر کچھ بولے رتن بابو نے چونکنے کی اداکاری کرتے ہوے شمبھو بابو کی طرف دیکھا، اس کے بعد پوچھا، ’’کیوں، بات کیا ہے؟‘‘

’’نہیں، وہ… یعنی، پنچا نے بتایا کہ ہاٹ میں اس نے آپ دونوں کو ایک ہی ساتھ دیکھا تھا۔‘‘

رتن بابو نے ذرامسکراکر پرسکون لہجے میں جواب دیا، ’’یہاں میری کسی سے واقفیت نہیں ہے۔ ہاٹ میں البتہ دو چار آدمیوں سے گفتگو ضرور ہوئی تھی، مگر کس آدمی کی موت ہوئی ہے، اس بات کامجھے علم نہیں۔‘‘

’’اوہ!‘‘ شمبھو بابو ہنس پڑے۔’’بڑا ہی دلچسپ آدمی تھا۔ آپ کی طرح ہی آب وہوا بدلنے کے خیال سے یہاں آیاتھا۔ کالکا ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔‘‘

’’اوہ، یہ بات ہے!‘‘

اس کے بعد رتن بابو بغیر کچھ کہے باہر نکل آئے۔تقریباً دو میل راستہ طے کرنا ہے، اب دیر کرنے سے ریل نہیں دیکھ پائیں گے۔

راستے میں کسی نے ان پر مشکوک نگاہ نہیں ڈالی۔ کل جن چھوکروں کا جمگھٹ لگاتھا، آج ان میں سے وہاں کوئی نہیں تھا۔’’مانک مکتا کی جوڑی‘‘ والی بات رتن بابو کو اچھی نہیں لگی تھی۔ وہ لڑکے کہاں چلے گئے؟ رتن بابو کو ڈھول کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ لڑکے ضرور ہی وہیں گئے ہوں گے۔ رتن بابو اطمینان کے ساتھ آگے بڑھتے گئے۔

کھلے میدان کے بیچ کے راستے پر آج وہ اکیلے ہی ہیں۔ منی لال بابو سے جان پہچان ہونے کے پہلے بھی وہ اطمینان سے رہتے تھے، لیکن آج وہ جتنا ہلکا پن محسوس کر رہے ہیں، اس کے پہلے کبھی اتنا ہلکا پن محسوس نہیں کیا تھا۔

وہ ببول کا پیڑ نظر آرہا ہے۔ اس کو پار کرنے کے بعد کچھ منٹوں تک چلنا پڑے گا اور تب اوور برج ملے گا۔ آسمان میں چاروں طرف گھٹا چھائی ہے۔ ہاں گھٹا کا رنگ گہرا کالا نہیں، بلکہ سلیٹی ہے۔ ہوا نہیں ہے، اس لیے تمام بادل ایک جگہ ٹھہر گئے ہیں۔

اوور برج پر نگاہ پڑتے ہی رتن بابو کا دل خوشی سے ناچ اٹھا۔ وہ لمبے لمبے قدم اٹھانے لگے، کہا نہیں جاسکتا، ریل کہیں وقت سے پہلے نہ آجائے ! سر کے اوپر سے بگلوں کا ایک غول اڑ کر چلا گیا۔ پتا نہیں بدیسی بگلے ہیں یا اسی دیس کے۔

پل پر کھڑے ہونے کے بعد رتن بابو کو شام کے سناٹے کا بھرپور احساس ہوا۔ خوب ہوشیاری سے ، غور سے سننے پر ہی ڈھول کی ہلکی کی سی آواز سنائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری آوازنہیں ہے۔

رتن بابو ریلنگ کے پاس جاکر کھڑے ہوگئے۔ دور سگنل دکھائی دے رہا ہے اور اس سے بھی دور اسٹیشن ریلنگ کے نچلے حصے میں لکڑی کی دراڑ میں کوئی چیز چمک رہی ہے۔ رتن بابونے جھک کر اس چیز کو اٹھایا۔ وہ ایک گول ٹین کی ڈبیا ہے۔ اس کے اندر الائچی اور سپاری ہے۔ رتن بابو نے تھوڑا مسکراکر اسے پل کے نیچے ریلوے لائن پر پھینک دیا ۔ ٹھن سے آواز ہوئیـ پتا نہیں سپاری کی یہ ڈبیا وہاں کتنے دنوں تک پڑی رہے گی۔

یہ کس چیزکی روشنی ہے؟

ریل آرہی ہے۔ ابھی آواز نہیں سنائی دے رہی ہے، مگر روشنی آگے بڑھتی ہوئی آرہی ہے۔

رتن بابو حیران ہوکر روشنی دیکھنے لگے۔ اچانک ہوا کاایک تیز جھونکا آتا ہے اور ان کے شانے پر سے شال نیچے گرجاتی ہے۔رتن بابو اسے پھر بدن سے لپیٹ لیتے ہیں۔

اب ریل کی آواز سنائی دے رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بادلوں کی گڑگڑاہٹ ۔ اب ریل کی طرف سے آنکھیں ہٹانا مشکل ہے، پھر بھی انھوں نے اپنے آس پاس نظر ڈالی۔ کہیں کوئی نہیں ہے۔ کل کے مقابلے میں آج اندھیرا کم ہے، اس لیے دیکھنے میں کوئی دقت نہیں ہورہی ہے۔ تیز رفتار سے آتی ہوئی اس لمبی چوڑی ریل اور رتن بابو کے علاوہ ایک آدھ میل کے دائرے میں شاید اور کوئی نہیں ہے۔

ابھی ریل ایک سوگز کے بیچ ہی ہوگی۔ رتن بابو ریلنگ کی طرف تھوڑا اور بڑھ گئے۔پہلے کے زمانے کا بھاپ کا انجن ہوتا تو اتنا آگے بڑھنا مشکل ہوتا، آنکھ اور منھ میں کوئلے کا دھواں بھر جاتا۔ یہ ڈیزل ٹرین ہے، اس لیے اس سے دھواں نہیں نکلتا۔ بس، چھاتی کو دہلا دینے والی گمبھیر سی آواز ہے اور آنکھوں میں چکا چوند پیدا کرنے والی ہیڈ لائٹ۔

اب ریل برج کے نیچے آچکی ہے۔

رتن بابو کہنیوں کے بل سامنے کی طرف جھک گئے۔ اور ٹھیک اسی لمحے پیچھے سے دوہاتھوں نے ان کی پشت کو زور سے ڈھکیل دیا۔

رتن بابو اس دھکے کو برداشت نہیں کرسکے، کیونکہ ریلنگ صرف دو ہاتھ ہی اونچی تھی۔

میل ٹرین آواز کرتی، پل کو ہلاتی اور دہلاتی، مغرب کی جانب ، جہاں کے آسمان کا رنگ اب سُرخی مائل ہو چکاتھا، چلی گئی۔

رتن بابو اب پل پر نہیں ہیں، مگر ان کی نشانی بطور ایک چیز اب بھی ریلنگ کی لکڑی کی درار میں اٹکی ہوئی ہےـ اور وہ ہے سپاری اور الائچی سے بھری ہوئی المونیم کی ایک ڈبیا۔

 

Satyajit Ray(1921-1992) was an Indian filmmaker, screenwriter, graphic artist, music composer and author, widely regarded as one of the greatest filmmakers of the 20th century.

Read more from Satyajit Ray

Read more Urdu Stories

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930