نظم ۔۔۔ سیما چانڈیو

نظم

سیما چانڈیو

میری پرورش کرنے والی عورت آنکھوں سے نابینا تھی

میرے حصے میں آئی ہوئی روشنیاں

اس کے نصیب کی ہیں

میری حفاظت کرنے والا مرد

چڑیوں کے پر نوچتا تھا

اور میرے حصے میں آئی ہوئی قید

اُس کے گناہوں کی سزا ہے

میں کوئل کی طرح بارش کا پانی پیتی ہوں

مجھے رویّوں کا زہر پینے کی زیادہ عادت ہے

میں شام کے بعد

بتھان میں جلائی ہوئی دھونی بننے کی حسرت رکھتی ہوں

تاکہ بے زبانوں کی زبان بن سکوں

مجھے کنویں سے پانی بھرتے ہوئے

عمر* یاد نہیں آتا کیونکہ میں مرد کو بے وفا ذات نہیں سمجھتی

درانتی سے انگلی کٹ جانے سے بہتے خون میں

قلم ڈبو کر میں کسان عورت پر نظم لکھتی ہوں

گھاس کی چادر بچھا کر سونے سے

مجھے محبوب کی سیج جیسا سکون ملتا ہے

محنت کش مرد کے پسینے سے مجھے

غیرت کی مہک آتی ہے

کنواری لڑکیوں کی چھاتیوں کو تکتے مرد کی ماں مجھے ڈسٹ بن جیسی لگتی ہے

میری مسکان پہ عاشق ہو جانے والا مرد

مجھے اپنے باپ کی مانند لگتا ہے

گھر میں میری پازیب کی چھم چھم

میرے بھائیوں کی نیند خراب کر دیتی ہے

کیونکہ انہیں ان کی محبوبائیں یاد آتی ہیں

میں سُر سارنگ * شوق سے پڑھتی ہوں

کیوں کہ میں کبھی بارش میں نہا نہیں پائی

مجھے بچے کے قہقہے سے خوف آتا ہے

کہ ہواؤں میں سے ہوّس کی بدبُو آتی ہے

جانوروں کی آنکھوں میں مجھے

راز چھُپے ہوئے لگتے ہیں

تنگ چولا میں مرد کی فطرت پڑھنے کے لئے پہنتی ہوں

میرے سر پر اوڑھی ہوئی چادر

مجھے اپنے مرتبے کا احساس دلاتی ہے

میں آسمان پر چڑھ کر

زمین دیکھنا نہیں چاہتی

زمین پر بیٹھ کر مجھے

آسماں دیکھنے جتنی آزادی چاہیے

اپنے محبوب کو اپنی ملکیت سمجھنے سے پہلے

خود کو اپنے عاشق کی جائداد بنانا چاہتی ہوں

مور کے پیر دیکھ کر مجھے اپنی آتم کتھا لکھنے کا شوق جاگتا ہے

چاند سے چاندنی گن گن کر لیتی ہوں

کیونکہ

میری پرورش کرنے والی عورت آنکھوں سے نابینا تھی

میرے حصے میں ٓآئی ہوئی روشنیاں

اس کے نصیب کی ہیں

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031