آواز کی موت ۔۔۔ شاہین کاظمی
آواز کی موت
( شاہین کاظمی )
دُھائی کے کڑوے پات چباتے چباتے ہماری روح پر آبلے پھوٹ
نکلے اور
تعظیم کے لیے جھکے سروں پر رکھے سنہری بارنے بینائی کو
ڈس لیا
اندھیری رُتوں میں دشمنوں کی رہبری کرتے ہوئے
آنکھوں کی جیت ہوئی تو دروازے کی موت ہو گئی
مندر وں میں بیٹھےدیوتا سارا پرساد چاٹنے کے بعد
داسیوں کے گلے میں پڑی مالاؤں کو للچائی نظروں سے دیکھنے
لگے
صدیوں سے سوئی زبانوں کے تن بدن میں آگ ضرور لگی
لیکن آوازکی میت پر منہ بسورتے الفاظ باغی ہی رہے
اندھی آنکھیں مردہ آواز کو کاندھوں پر ڈھوتے ہوئے
شنوائی کھوجتی رہیں
خالی کھوپڑیوں میں بیٹھے کیڑے سڑکوں پر رینگ آئے
اور راستے تنگ کر دیے
قاتلوں نے رہائی پا کر خدائی دعوی کیا
تووقت پوری طاقت سے چِلا اُٹھا
تالوسے چپکی زبانیں آواز کے پاؤں پڑ نے لگیں
لیکن
یہ بھول گئیں کہ
آواز کو جوان ہونے کے لیے صدیاں درکار ہیں