نظم ۔۔۔ شاہین کاظمی
ہمیں محبت پر نظم لکھنے کے لیے دوبارہ جنم لینا ہوگا
شاھین کاظمی
نفرت کی وبائی دھجیاں اوڑھے ہوئے دن
جبر کی اَن کہی اساطیر رات کے کانوں میں انڈیل کر
ہمیں زندگی کے اُن تمام بوسوں سے محروم کر دیتا ہے
جن کی چاہ میں ہم نے اندھیری راہوں پر
بے شمار سفر کیے
ہم بیزاری سےآلودہ سرد شاموں کو
اُن عہد ناموں سے انحراف کی دستاویز سونپتے ہوئے
دعائے خیر کی التجا کرتے ہیں
جو قدیم شکاری محبت کی مچانوں پر بھول گئے ہیں
ہمارے شہروں کے سبھی باشعور کوچوں میں
اذہان سے باغی پیر دیواری رخنوں میں
بارود بھر کر
اُن متروک نغموں کی لے ترتیب دیتے ہیں
جو رزم گاہ سے کامیاب لوٹتے سپاہی گاتے تھے
گھر کے ملبے پر تنہا بیٹھی اُس ننھی بچی کی ہر احساس سے عاری آنکھیں
اور ساکت ہونٹوں پر دھرے سوال کا جواب کون دے گا
کیا ہمیں محبت پر نظم لکھنے کے لیے ایک اور جنم لینا ہوگا؟