غزل ۔۔۔ شہناز پروین سحر
غزل ۔
( شہناز پروین سحر)
جو
ماں پہنتی تھیں وہ مُرکیاں نہیں بنتین
اب اُس طرح کی کہیں بالیاں نہیں بنتیں
کلایئوں سے اتر کر لہو میں
پھیل گئیں
وہ
کرچیاں جو کبھی چوڑیاں نہیں بنتیں
وہ سرخ گٹھڑی سے باہرکھڑی
ہوئی دلہن
سمجھ
گئی ہے کہ اب گٹھڑیاں نہیں بنتیں
بتا جو دل کے مہاجرہیں وہ
کہاں جائیں
سنا
ہے اِن کے لیئے بستیاں نہیں بنتین
بہار ہو یا خزاں دل کے اپنے موسم ہیں
بہار ہو یا خزاں دل کے اپنے موسم ہیں
جھڑی میں آنسووْں کی بدلیاں نہیں بنتیں
حروف جیسے چلی آ رہی دیئوں
کی قطار
نئے
زمانوں میں وہ تختیاں نہیں بنتیں
دکان کوئی تو ہوگی جہاں پہ
ملتی ہیں
وہ چنریاں
جو کبھی دھجیاں نہیں بنتیں
یہ مہرو ماہ بھی روزن بنا
نہیں سکتے
ہوائیں
چلنے سے تو کھڑکیاں نہیں بنتیں
سحر یہ رنگ ہیں تصویرہی
بنائیں گے
کہ
ان سے اُڑتی ہوئی تتلیاں نہیں بنتیں