غزل ۔۔۔ شین زاد
غزل
( شین زاد )
پہلے ہم اپنی کھال میں ہی بھر دیئے گئے
اُس پر ستم ہزار ہمیں سر دیئے گئے
آنکھیں جو دیکھتی تھیں سبھی نوچ لی گئیں
اُٹھتے ہوئے جو سر تھے قلم کر دیئے گئے
بستے، قلم، کتاب کہاں ہو سکے نصیب؟
بچوں کو کھیلنے کے لئے ڈر دیئے گئے
آنکھوں سے عمر بھر کے لئے نور چھین کر
نظارگی کے واسطے منظر دیئے گئے
نسلوں کا خون دے کے بھی ملنا محال تھا
یہ روشنی یہ نور جو دے کر دیئے گئے
جب—– آسمان جو تھا ہمارا ! نہیں رہا
تو پھر سزا کے واسطے یہ پر دیئے گئے
یہ آخری پڑاؤ ہے ہم کیسے مان لیں؟
اُڑتی ہوئی زمیں پہ ہمیں گھر دیئے گئے
Facebook Comments Box