
ایک کھلا خط، بنام عرشی ملک ۔۔۔ شہناز پروین سحر
ایک کھلا خط ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بنام عرشی ملک
تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہناز پروین سحر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” کس کو پتہ ہے کہ وہ کب کس سے آخری بار مل رہا ہے ۔۔۔
یہ ” آخری بار ” بتا کر کبھی نہیں آتا ۔۔۔۔ جانے کیوں ؟؟؟
آوازیں ہمارے پاس ہی رہ جاتی ہیں
شاید آوازیں کبھی مرتی نہیں
نا موجود میں موجود کیا ہے . یہ اب جانا
تم اب دکھائی نہیں دیتیں
صرف سنائی دیتی ہو ۔
کیا اب تم صرف آواز ہو ؟ “
یہ اختتامی سطور تھیں میری ایک تحریر میری ہمجولیاں سے
جسے پڑھ کر تم نے لکھا
” اُف کیا ہی جیتی جاگتی تحریر ہے شہناز۔
تمہاری معصوم صورت اور قہقہے یاد آ گئے اور تمہاری یاد نے اُدھم مچا دیا
یار ایک دفعہ مِل نہ لیں؟؟؟؟؟
آوازیں ، یا ، گھوسٹ بن جانے سے پہلے؟؟؟؟ “
پیاری عرشی ۔۔آوازیں یا گھوسٹ بن جانے سے پہلے کا عرصہ تو بیت چکا ہے ۔ ہمیں آوازیں اور گھوسٹ بنے ہوئے ، بہت دن ہو لیئے ۔ قسم سے اب کبھی دیکھنے کی کوشش بھی کروں ، تو آئینہ ڈانٹتا ہے ، کیوں کہ اب وہاں اجنبیت نظر آتی ہے ، وہ اجنبیت ، جو انسان کو خود اپنے آپ سے ہو جاتی ہے ۔
ایک دن تمہارے لکھے دو شعر پڑھے ۔۔۔۔۔
تُو چُھڑا کر ہاتھ اک دن دفعتاً کھو جائے گا
اور میری جیب میں تیرا پتہ رہ جائے گا
جانے والوں کو بُلائیں گے کئی رستے نئے
اس کا کیا ہو گا جو کھڑکی میں کھڑا رہ جائے گا
یہ تلخ اشعاربھی تم اسی آواز سے پڑھتی ہو گی ، جس میں پرندوں کی سی چہکار اور معصومیت ہوا کرتی تھی ۔ تم شعر پڑھنے میں کمال رکھتی تھیں ۔ ایک ایک لفظ کو موتی کی سی اُجلی ادائیگی کے ساتھ ادا کرتی تھیں ۔ لفظوں میں جیسے چاندنی گھُل جاتی تھی
” میں بھی تمہاری طرح شعر پڑھوں گی ” ایک دن میں نے کہا
” تم نہیں پڑھ سکتیں “
” کیوں نہیں پڑھ سکتی “
” تمہارے پیچھے تو بارہ مُلکوں کی پولیس لگی ہوتی ہے ، غزل ختم کر کے اپنی جان بھی بچانی ہوتی ہے تم نے ” شرارت تمہاری آنکھوں میں ناچتی تھی ۔
تمہاری خوبصورت آواز اور ہنسی میں گندھی ہوئی باتیں آج بھی میرے پاس موجود ہیں ۔
مجھے زندگی میں پھول لاتے ہوئے وہ دن اب بھی یاد ہیں ، جب ہم اکٹھے مشاعرے پڑھا کرتے تھے ، سلور و گولڈن کپس اور ٹرافیاں جیتا کرتے تھے ۔
یاد ہے ہم لاہور گھومنے نکل جایا کرتے تھے ، بھلا کیسے ، یونیورسٹی کی بس جو سارا دن نیو کیپس سے اولڈ کیپس چلتی رہتی تھی ہم بس یونہی اُس میں بیٹھ جاتے تھے ایسا لگتا تھا کہ سارا جہان دیکھ آئے ۔
تمہارے ہوسٹل میں رہنے پر میں بڑی مرعوب تھی کیسے گھر سے اتنی دور تم اتنی بہادری سے رہ لیتی ہو اور وہ بھی اتنے قرینے سے الماری ٹنگے ہوئے تمہارے ملبوسات اور تمہارے تمیز دار جوتوں کی وہ قطار ۔ ایک میں تھی کہ میرے جوتے انتہا کے بدتمیز ، کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا ۔ کئی بار ماں نے مجھ سے پوچھا
” یہ تم آخر جوتے اتارتی کس طرح ہو کہ ایک کمرے میں پڑا ہے اور ایک صحن میں “
اس مسٗلے پر میں نے خود بھی کئی بار غور کیا لیکن راز ہمیشہ راز ہی رہا شاید یہ جوتوں کا کوئی اپنا ہی گُل غپاڑا تھا اس عجیب سے چکرمیں قصور وار ہمیشہ مُجھی کو ٹھہرا دیا جاتا تھا ۔ ہاں البتہ اب میرے ان بیچارے جوتوں پر بڑھاپا طاری ہو چکا ہے بڑے سکون اور خاموشی سے ایک دوسرے کے ساتھ ہی پڑے مل جاتے ہیں ْ۔
تم مجھے وہاں میس کی طویل میزوں پر کھانا کھلاتی تھیں جبکہ میں ہوسٹل میں نہیں رہتی تھی ۔
یونیورسٹی میں ایک ادبی رسالے کا ایڈیٹر ہر مہینے اپنے میگزین لا کر ہم دونوں کو ایک ایک کاپی دینے کی رائیگاں کوششیں کیا کرتا تھا ، ہم کہتے تھے ہم پڑھ چکے ہیں وہ پھر بھی مصر ہوتا یہ پرچہ تو رکھ لیجیئے تو ہم کہتے ہمارے پاس ہے ۔ پھر وہ مایوسی سے لوٹ رہا ہوتا تو اُس کی اُس نامراد واپسی پر انتظار کیئے بغیر ہی ہمیں بے تحاشا ہنسی آجاتی تھی ، ہنستے ہنستے ہم ایک دوسرے کو ڈانٹتے
” اُسے جا تو لینے دو وہ پھر آ جائے گا “
وہ بھی اتنا ڈھیٹ کہ اگلے مہینے پھر اپنے رسالوں کی جوڑی لیئے آ دھمکتا ۔
وہ پکنکیں ، وہ یونیورسٹی وہ یونیورسٹی کے الیکشن ، نہر کنارے چلتے چلتے دنیا جہان کی باتیں ۔
ایک دن ہاسٹل کے کمرے میں تم اپنے کپڑے استری کر رہی تھیں ، میں تمہیں اپنے تازہ اشعار سنانا چاہتی تھی ، تم نے کہا
” یار ابھی نہیں سننی تیری غزل ” ۔
” عجیب لڑکی ہو تم ۔ شاعرہ ہوکر بھی تمہیں پتہ نہیں کہ ایک شاعر کو اپنے شعر اپنے بچوں کی طرح سے پیارے ہوتے ہیں اور تم ایسی بیدرد ہو کہ سنتی ہی نہیں ہو۔
” اب تیرا بچہ تو ہر وقت ریں ریں ہی کرتا رہتا ہے ” ۔
” اچھی بات ہے ، اب کرنے دے ذرا تیرے بچے کو ریں ریں ، چپیڑ کھا لے گا وہ مجھ سے”
ہم دونوں ایک دوسرے کے بچوں کو سنوارتے بہلاتے ، ان کا منہہ سر دھلاتے ، اور جی بھر کے اُن کی ریں ریں سنتے ۔
میری شادی یونیورسٹی داخل ہونے کے اوائل ہی کا واقعہ تھا تم نے اور سب سہیلیوں نے جی بھر کے میرے دوپٹے اور غرارے پر لپے اور گوکھرو کے پھول ٹانکے ۔ بابل کی دعائیں لیتی جا گا گا کر مجھے دلہن بنایا ۔ ان دنوں ، میں شادی ہو جانے کے خیال سے بھی ڈری ہوئی تھی اتنی کہ مجھ سے اپنے بالوں میں ٹھیک سے برش تک نہیں کیا جاتا تھا ۔
میں نے اپنا ماسٹرز بعد میں مکمل کیا تھا اور میرے اللہ نے ایک بیٹی کی رحمت سے میری گود کو پہلے ہی آباد کر دیا تھا ۔ اُن دنوں ، میں اُن تکالیف سے آشنا ہوئی ، جو ماں بننے کے عمل سے بھی کہیں زیادہ پیچیدہ تھیں ۔ میں شدید بیماراور پریشان تھی ۔ میرے کلاس فیلوز میری بچی دیکھنے کے لیئے آئے اُن کے پاس میری بچی کے لیئے تحائف تھے فراک کھلونے بےبی جانسن صابن پاوْڈر اور جانے کیا کیا لیکن میں ان کو دیکھ کر میں بری طرح رو پڑی ۔ میرا یہ حال تھا کہ میں نے ایک ماہ کے بعد اپنی بچی کو دیکھا اور خوشی سے نہال ہو گئی کہ اس آنکھیں گرین رنگ کی تھیں ۔
مجھے عرشی نے بتایا سب کلاس فیلوز تمہارے لیئے بے حد پریشان ہیں ، کہتے ہیں بچی کے ہاں بچی پیدا ہوگئی ہے پتہ نہیں اب کب ٹھیک ہو گی شہناز ہو گی بھی کہ نہیں ۔ اور سب دعائیں کرتے ہیں کہ تم جلدی سے اچھی ہو کر اپنی پڑھائی کی طرف لوٹ آوْ۔ شاید انہی دعاوْں کا اثر تھا کہ میں اپنی پڑھائی مکمل کر کے فائینل امتحان دینے کے قابل ہو گئی اور اپنی ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ۔
اس کے بعد بہت سارے دن بلینک ہو گئے ۔ ہماری زندگی ایک نیا ٹرن لے چکی تھی ۔ تم پڑھائی ختم کر کے اپنے شہر چلی گئیں اور میں شہر پناہ کے ایک نئے دروازے میں داخل ہو چکی تھی ۔
ایک روز تمہارا فون آیا ۔۔۔۔
” میں لاہور میں ہوں اور آدھ گھنٹے میں تمہارے پاس آ رہی ہوں “
تم میرے گھر آئیں تو میں نے دیکھا تم ایک بیگماتی زندگی میں داخل ہو چکی تھیں ، میرے گھر کے باہر انتظار کرتے ہوئے مستعد ڈرائیور کے ساتھ تمہاری گاڑی کھڑی تھی اور گھرکے اندر میرے پاس میری وہی چلبلی شاعرہ سہیلی ۔ سب کچھ بھول کر ہم اپنے اسی زمانے میں پہنچ گئے ، کتنی ساری باتیں تھیں جو ہمیں ایک دوسرے سے شئیر کرنی تھیں ، اپنی ، اِس کی ، اُس کی ، یہاں کی وہاں کی ۔ لیکن پھر بھی ، داری باتیں کب ممکن تھیں ، کچھ کیں ، اور کچھ رہ گئیں ۔
گزرے ہوئے کتنے ہی سال ہم نے ایک دن میں جیئے تھے ۔ اُس ایک دن کا سورج ہماری عمر کے اوجھل دنوں کو روشن کرتا رہا ۔۔
لیکن پھر جب شام آئی ۔۔۔ تو ، سامنے کتنے ہی بجھے ہوئے سالوں کا ایک ڈھیر پڑا تھا ۔
پھر ایک طویل عرصہ اندھیرے میں گذر گیا مدت بعد ایک دن تم نے اپنی تصویر بھیج دی تو ایسا لگا کہ تم جھوٹ بول رہی ہو یہ تم نہیں ہو ، یا پھر ضرور تم کسی کردار کے گِٹ اپ میں ہو ۔ لیکن تمہارا بھلا کسی کردار کے گٹ اپ سے کیا کام وہ تم ہی تھیں ۔
در اصل ہم نے اپنی زندگی میں قوس و قزاح کے رنگوں سے سجی ہوئی بہاریں ساتھ میں دیکھی تھیں ، جا چکی بہاروں کے تمام زرد پتے ان دیکھے ہی رہ گئے ۔ ہم نے ایک دوسرے کا مرجھانا نہیں دیکھا ۔۔۔۔ اور اس سے بھی بڑھ کر کچھ اور آگے ۔۔۔۔ مرجھا کر بکھرنے کا عمل بھی نہیں دیکھیں گے ۔
یہ بات اب سمجھ میں آئی کہ کچھ باتوں کے نہ کہنے نہ سننے اور نہ دیکھنے میں ہی سُکھ ہے ۔۔۔ کیونکہ ہم انسانوں کے لیئے ، سبھی کچھ کہنے سننے اور دیکھنے کے لیئے نہیں ہوا کرتا ۔۔۔۔۔۔