فریدہ مر گئی ۔۔۔ شہناز پروین سحر
فریدہ مر گئی ۔
شہناز پروین سحر
کیسی قہقہے لگاتی ہوئی , حاضر جواب ، اور شرارتی تھی لیکن کیسی خاموش موت مر گئی فریدہ مری کانونٹ کی پڑھی ہوئی سمارٹ اور خوبصورت فریدہ اپنے مرحوم فلائینگ آفیسر باپ کی لاڈلی بیٹی فریدہ ایک ہسپتال کے اعلٰی عہدے پر فائز ڈاکٹر کی مطلقہ فریدہ جس نے فریدہ کو محض اس لیئے طلاق دی کی وہ اپنی تازہ ترین محبوبہ سے شادی رچا لے اسنے نہ صرف طلاق دی بلکہ اتنا مارا کہ فریدہ کو کافی عرصہ ہسپتال میں رہنا پڑا اپنے مرے ہوئے اکلوتے بیٹے کی ماں فریدہ فراٹے سے انگریزی بولتی ہوئی فریدہ افسران کی ایکسپلینشنز اور چارج شیٹس میں سے غلطیاں اور سپیلنگ درست کرتی ہوئی فریدہ اپنی تنخواہ کی بنیاد پر مستقل قرض لے لیکر بہن بھایئوں کی فرمائشیں پوری کرنے والی فریدہ فریدہ اتنی بھولی بھالی تھی کہ ایک دفعہ یو سی ایچ میں اسکی بہن بیمار تھی اسکی تیمار داری کرنے گئ۔. رات بھر بنچ پر پر بیٹھے بیٹھے تھک گئ جونہی بیمار بہن باتھ روم گئ تو فریدہ نے سوچا گھڑی پل کو بہن کے بستر پر کمر سیدھی کر لے. ابھی بہن کے بستر پر تھوڑی سی اونگھ لی تھی کہ نرس آئ اس نے فریدہ کی شلوار کولھے سے نیچے کھسکائ فریدہ دم سادھے لیٹی رہی اور نرس مریضہ بہن کے حصے کا انجکشن فریدہ کو لگا گئی ۔بات بے بات پر بھائی کے ہاتھوں چمڑے کی بیلٹ سے پٹتی ہوئی فریدہ اپنی کولیگز کی خواہش پر ان کو پسندیدہ کھانے کھلاتی ہوئی فریدہ محلے کی بیکری پر ماہانہ ہزاروں روپے کی ادائیگی کرتی ہوئی فریدہ تاکہ پورا مہینہ اس کی بہن کے بچے اس بیکری سے جو ان کا دل چاہے اپنی خالہ کے حساب میں سے خرید کر پورا مہینہ کھاتے رہیں ، بوتلیں جوسز آئس کریمز کیک پیسٹریاں چپس اور چاکلیٹس ۔ خود کھائیں اور دوستوں کو بھی کھلائیں ۔۔۔ ہاں وہی فریدہ نڈر اور کھری فریدہ جب آپ بکھر رہے ہوں تو کبھی زور سے اور کبھی زاری سے آپ کو جوڑتی ہوئی فریدہ ، لیکن خود اندر سے ٹوٹی ہوئی ۔ انتہائی پڑھی لکھی فریدہ آخری عمر میں ایک ان پڑھ بوڑھے درزی سے شادی کر لینے والی فریدہ اس کے ڈاکٹر خاوند نے رابطہ کیا معاف کر دو فریدہ صرف ایک بار مجھے مل لو میں تم پر کی ہوئی اپنی ہر زیادتی کا ازالہ کر دوں گا ۔ میں اب کسی اور کی بیوی ہوں ، مجھ سے ملنے کے لیئے تمہیں میرے خاوند کی اجازت لینی ہو گی۔ میرے پاس جائیداد ہے پیسہ ہے کوٹھی گاڑی سب آرام دوں گا ایک بار لوٹ آوْ فریدہ ، اس درزی سے طلاق حاصل کرو سب دکھ دور کر دوں گا۔ خبر دار ۔۔۔ خبردار جو میرے خاوند کے خلاف کوئی ایک بھی بات کی تو ۔۔۔ وہ تم سے تو بہت اچھا ہے ، کیا ہوا جو درزی ہے ۔ وہ تم سے بہت بہتر انسان ہے ، چلے جاوْ واپس ، اور دوبارہ مجھ سے کبھی رابطہ نہ کرنا میں نے اپنے آفس کے ریسیپشن پر کہہ دیا ہے یہ شخص مجھ سے ملنے اب کبھی نہ آنے پائے۔ میں اپنے ان پڑھ درزی شوہر کے ساتھ بہت خوش ہوں ہاں اسی درزی کی توجہ اور محبت آمیز رویئے سے جی اُٹھنے والی فریدہ ۔پھر اس درزی کی بیماری میں دن رات اس کی خدمت کرتی ہوئی فریدہ اس کی موت پر قُل دسویں چالیسویں برسیاں کرتی ہوئی فریدہ ۔اکلاپے سے اور دنیا کی بے مروتی سے ادھ مری حیران پریشان اور بدزبان ، مینٹل ہسپتال پہنچ جانے والی فریدہ کچھ دن پہلے اس نے فون کیا تھا ۔میں اس سے بات ہی نہیں کر سکی جانے کہاں سے کیا تھا کیسے کیا تھا بس گم ہوتی ہوئی آواز رہ گئی ہیلو شہناز ہیلو ہیلو ہیلو ۔۔۔ جانے کس مشکل سے فون کیا ہو گا اس نے ۔۔ وہ اولڈ ایج ہوم میں تھی ۔ اس کی آواز ہمیشہ کے لیئے ڈوب گئی ۔ایدھی سینٹر میں زندگی کے دن پورے کرتی ہوئی لاوارث فریدہ آج مر گئی ۔ اچھا ہوا مر گئی ایسا بے ضمیر معاشرہ ، یہاں زندگی سے زیادہ مر جانے میں سکون ہے اور اسے سکون کی اشد ضرورت تھی۔