تسلیم فاضلی ۔۔۔ شہناز پروین سحر
تسلیم فاضلی ۔۔۔ ایک تیز رفتار شاعر
( تالیف و تحقیق :: شہناز پروین سحر )
پاکستان کی فلم انڈسٹری میں مسرور انور اور تسلیم فاضلی کا شمار کامیاب ترین خالص فلمی شاعروں میں ہوتا ہے اور ان شاعروں میں ایک بات قدرِ مشترک تھی کہ یہ انتہائی آسان زبان میں گیت لکھتے تھے اور ان گیتوں کو بڑی شہرت حاصل ہوتی تھی ۔۔ اےدل تجھے اب ان سے یہ کیسی شکایت ہے
وہ سامنے بیٹھے ہیں کافی یہ عنایت ہے
اسی طرح تسلیم فاضلی کا فلم ’’پھر صبح ہوگی‘‘ میں لکھا ہوا یہ گیت جس کے موسیقار ناشاد تھے اور گیت کے بول تھے:
دیا رے دیا رے کانٹا چبھا، پاؤں میں
کانٹا نکال بلم پیپل کی چھاؤں میں
یا پھر سنگیتا کی فلم ’’سوسائٹی گرل‘‘ کے لیے لکھا ہوا ایک گیت۔
تسلیم فاضلی نے کبھی ادبی شاعر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا مگر اس نے عام فہم انداز کے گیتوں کے ساتھ کچھ ادبی انداز کے بھی فلمی گیت لکھے، جنھیں بڑی شہرت حاصل ہوئی، جیسے کہ تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا یہ گیت جو غزل کے انداز میں لکھا تھا فلم زینت کے لیے:
رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں ہوگئے
تسلیم فاضلی کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ بہت ہی تیز رفتار لکھنے والا نغمہ نگار تھے، وہ ایک سگریٹ پینے کے دوران گیت کا مکھڑا سوچ لیا کرتے تھا اور دوسرا سگریٹ ختم ہونے تک وہ گیت مکمل کرکے موسیقار کے ہاتھ میں تھما دیتا تھے ۔ یہ خوبی تسلیم فاضلی سے پہلے ہندوستان کے نغمہ نگار حسرت جے پوری میں بدرجہ اتم موجود تھی اور وہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں تیز رفتار گیت نگار مشہور تھے۔
لاہور میں موسیقار ناشاد اور تسلیم فاضلی کی جوڑی مشہور تھی اور کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ پھر تسلیم فاضلی شباب کیرانوی کی پروڈکشن سے بھی وابستہ ہوگئے تھے اور شباب صاحب کی فلم انسان اور آدمی میں تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے ایک گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی جس کے بول تھے:
سو برس کی زندگی میں ایک پل
تو اگر کرلے کوئی اچھا عمل
اس فلم کے بعد تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا ایک گیت ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیںگے سانوریا‘ کی شہرت نے تسلیم فاضلی پر فلموں کی بارش کردی تھی اور لاہور فلم انڈسٹری میں تسلیم فاضلی کا طوطی بولنے لگا تھا۔ شباب پروڈکشن کی فلموں ’’شمع شبانہ‘‘ دامن اور چنگاری اور فلم ’میرا نام ہے محبت‘ کے گیتوں نے تسلیم فاضلی کو صفِ اول کے نغمہ نگاروں میں شامل کردیا تھا، ہر فلم میں تسلیم فاضلی کے گیتوں کی دھوم مچ جاتی تھی، چند گیت تو کلاسک ہٹ کا درجہ رکھتے ہیں، جیسے کہ یہ چند گیت ۔
یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم (فلم میرا نام ہے محبت)
قدموں میں ترے جینا مرنا (فلم طلوع)
ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے (فلم میرے حضور)
ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا (فلم دامن اور چنگاری)
بہت خوبصورت ہے میرا صنم
مجھے دل سے نہ بھلانا (فلم آئینہ)
تجھے دل میں بسالوں (فلم بندش)
جو درد ملا اپنوں سے ملا (فلم شبانہ)
آپ کو بھول جائیں ہم اتنے تو بے وفا نہیں (فلم تم ملے پیار ملا)
خدا کرے کہ محبت میں وہ مقام آئے (فلم افشاں)
وعدے کرکے صنم کیوں نہ آئے (فلم اک سپیرا)
کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجادی (فلم شمع)
دل نہیں تو کوئی شیشہ کوئی پتھر ہی ملے (فلم اک نگینہ)
اوربھی بہت سے سپرہٹ گیت تسلیم فاضلی کے کریڈٹ پر ہیں۔ تسلیم کا ایک وہ دور تھا کہ ایک دن میں تین تین فلموں کے گیت دن میں، شام اور رات میں ، چٹکی بجاکر گیت لکھنے کا محاورہ تسلیم فاضلی پر صادق آتا تھا۔
تسلیم فاضلی کو فلم آئینہ، انسان اور آدمی اور تم ملے پیار ملا کے گیتوں پر نگار فلم ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ تسلیم فاضلی کو اداکارہ نشو کے ساتھ شادی ہوئی ۔
نشو سے علیحدگی کے بعد تسلیم فاضلی بیمار ہوگئے اور کراچی میں بیماری ہی کی حالت میں دل کا جان لیوا دورہ پڑا اور صرف 32 سال کی عمر میں خوبصورت گیتوں کا خالق تسلیم فاضلی اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
ایک عظیم نغمہ نگار بہت ہی کم عمری میں بڑی خاموشی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوگیا مگر ان کے دلکش گیتوں کی بازگشت آج بھی موجود ہے ۔