غزل ۔۔۔ شہناز پروین سحر
سرخ گلابوں کے موسم میں
( شہناز پروین سحر )
میرے سپنوں میں بوئے تھے تم نے جو شرمیلے پھول
آج وہ چہرے پر کھل آئے بن سرسوں کے پیلے پھول
سرخ گلابوں کے موسم میں میری آنکھیں گم سم ہیں
میرے بالوں میں سجتے ہیں تنہائی کے پیلے پھول
تم نے سب کو چھوڑ کے مالا میرے گلے میں ڈالی تھی
مجھ سے کب چھپتے تھے ہنستے بولتے رنگ رنگیلے پھول
جانے دھیان میں کیا آیا گلدان چُھٹا ہے ہاتھوں سے
بکھر گئے سنگین زمیں پر کانچ کے سنگ سجیلے پھول
میرے من گلشن میں کوئل میٹھے گیت سناتی تھی
تیری آنکھوں میں کھلتے تھے کیسے کیسے نیلے پھول
سرما کی اس رات میں ہم کتنے خاموش رہے تھے جب
بات بِنا اچھے لگتے تھے ہونٹوں کے پتھریلے پھول
چاند تمہارا قاصد تھا ہر روز سندیسہ لاتا تھا
میں کرنوں کے ہاتھ تمہیں بجھواتی تھی چمکیلے پھول
میں نے پیار سے چوم لیا تو نیلے پڑ گئے ہونٹ مرے
تو نے خط میں رکھ کر بھیجے تھے کتنے زہریلے پھول
پورے چاند کی تنہائی پر رات بہائے نیر سحر
آج گلے سے لگ کر روئے یادوں کے کچھ گیلے پھول