غزل ۔۔۔ شہرت بخاری
غزل
شہرت بخاری
جب گھر سے نکل آئے پھر کس کا پتہ رکھنا
یہ شوق کی بازی ہے کیا کھونا ہے کیا رکھنا
جز موج ہوا اس تک کوئی نہ پہنچ پائے
زینے میں دھواں بھرنا کوٹھے پہ دیا رکھنا
سناٹے کی چھاوں میں، مایوسی کے برقعے میں
شاید کوئی آ جائے، دروازہ کھلا رکھنا
ہیں ہاتھ تو اپنے ہی پر تیغ ہے اوروں کی
تسلیم و رضا والو گردن نہ جھکا رکھنا
صیاد کا سایہ بھی جب تک ہے گلستاں پر
طوفان شہادت کا سینوں میں چھپا رکھنا
ہلکان ہوئے شہرت، سن سن ترا افسانہ
باقی جو رہا اس کو کل شب پہ اٹھا رکھنا
Facebook Comments Box