غزل ۔۔۔ سلیم شاہد
غزل
( سلیم شاہد )
چراغ ِ خانہ کہیں خال خال دیکھتے ہیں
ہم اس نگر کا مقدر زوال دیکھتے ہیں
ہمیں ہدف ہیں کہ کشتی میں آن بیٹھے ہیں
بس اب کے پار اترنا محال دیکھتے ہیں
کہیں سے ابر کوئی اس طرف بھی آ نکلے
شجر کی شاخوں سے دست ِ سوال دیکھتے ہیں
بس ایک خواب کا در رہ گیا ہے دستک کو
اس آیئنے میں ترے خد و خال دیکھتے ہیں
سحر نمائی کی خواہش نے ہم کو خوار کیا
اس آرزو کو بھی جی سے نکال دیکھتے ہیں
Facebook Comments Box