غریب آباد ۔۔۔ سید کامی شاہ

غریب آباد۔

سید کامی  شاہ

عمران۔۔۔عمران۔۔۔عمران۔۔۔۔۔۔ دادی نے کراہتے ہوئے پکارا، ہائے اللہ اب تُو اس دنیا سے اٹھا کیوں نہیں لیتا۔۔۔؟ عمران کو متوجہ نہ پاکر دادی شکوہ بھرے لہجے میں کراہتے ہوئےبڑبڑائی۔ پھر لمبی لمبی گاڑھی سانسوں کے گھونٹ بھرنے لگی۔ اس کے سینے میں آتی جاتی سانسوں کے درمیان خرخراہٹ تھی، جیسے حلق میں کوئی ٹوٹی ہوئی رسی پھنس گئی ہو یا کسی چھپکلی کی کٹی ہوئی دُم جو تیزی سے پھڑک رہی ہو۔دادی کی آنکھوں میں بڑا سا ہراس پھیلنے لگا اور اس کا لاچار بدن تشنج کی سی کیفیت میں اکڑنے لگا، گردن کے پٹھے کھنچنے لگے اور چھپکلی کی کٹی ہوئی دُم کے پھڑکنے میں تیزی آنے لگی۔

پتہ ہے تُو ناں مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔۔۔ اپنی اوڑھنی کا کونا انگلی پر لپیٹتے ہوئے اُس نے کہا۔اچھا۔۔۔۔۔۔ کتنا اچھا۔؟ وہ اُس کی انکھوں میں دیکھنے لگااِتنااااا۔۔۔۔ اُس نے دونوں بازو پھیلائے اور پھر ہنستے ہوئے چہرہ اوپر اٹھا لیا۔ اس کے چہرے پر سورج طلوع ہونے لگا۔اچھا۔۔۔،، کہہ کر اس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور پھر جلدی سے اِدھر اُدھر دیکھ کر چوم بھی لیا۔ ہائے اللہ، چھوڑو ناں کوئی دیکھ لے گا۔ وہ کسمسائی –تو کیا۔۔۔ دیکھا کرے۔۔۔۔،،تجھے تو کسی کی فکر نہیں۔۔۔۔ پر میرے باپ کو پتہ لگ گیا ناں تو مصیبت آجائے گی۔۔۔،، اس نے ہاتھ چھڑا لیا اور ذرا سا پیچھے ہٹ کر دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی۔تم اتنا ڈرتی کیوں ہو۔۔۔؟اس نے پوچھاتجھے تو کوئی روکنے ٹوکنے والا ہے نئیں۔۔۔ پر میرے باپ کا تجھے نئیں پتہ، بڑا کمینہ ہے وہ۔۔۔،،اس نے برا سا منہ بنا کر کہا۔تم فکر نہ کرو میں تمہیں اس سے آزاد کرالوں گا۔۔۔،،اس نے تسلی دی ۔کب کرائے گا۔۔۔۔؟وہ اس کی آنکھوں کے راستے اندر اترنے لگی۔بہت جلدی۔۔۔ تم فکر مت کرو۔۔۔۔،،پتہ ہے۔۔۔ مجھے ناں بڑا ڈر لگتا ہے۔۔۔ میرا باپ مجھے قادر خان کو بیچ دے گا۔ اس نے پیسے بھی لے لیے ہیں اس سے۔،،وہ افسردہ ہونے لگی۔کون ہے یہ قادر خان۔۔؟جوئے کا اڈا چلاتا ہے، ہیروئن اور اسلحہ بھی بیچتا ہے۔۔ میرا باپ جاتا ہے وہاں جوا کھیلنے۔۔۔،،ہوں۔۔۔۔،، وہ بس اتنا ہی کہہ سکابڑا خطر ناک ہے وہ۔۔۔ اس کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں۔۔۔۔بڑا پیسے والا ہے۔۔ سونے کی انگوٹھیاں پہنتا ہے۔۔۔ وہ نہیں چھوڑے گا مجھے۔۔۔۔ اس نے غنڈے پالے ہوئے ہیں لوگوں کو مارنے کے لیے۔۔۔،،وہ سسکنے لگی۔۔تم پریشان کیوں ہوتی ہو، میں بہت جلدی لے جائوں گا تمہیں یہاں سے، پھر ہم وہاں رہیں گے جہاں سب اچھا اچھا ہو۔،، اس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ اس کے سینے سے لگ کر ہچکیاں لینے لگی۔۔۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ یہ دیکھ میرا دل کیسے دھڑک رہا ہے۔۔۔۔،،اس نے عمران کا ہاتھ اپنے دل پر رکھ لیا۔ اسے جیسے کرنٹ لگ گیا اور اس نے جلدی سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔کیا ہُوا۔۔۔؟اس نے پوچھا، اس کی آنکھوں میں دھیمے دھیمے سے شعلے جل رہے تھے۔کچھ نہیں۔۔۔،،اس نے سینے میں بے ترتیب ہوتی سانسوں کو سنبھالتے ہوئے کہا۔میری ماں نے میرے باپ کی منت کرکے مجھے ایک سال کے لیے روکا ہے یہاں، وہ تو پہلے ہی لے جارہا تھا۔،،کب۔؟پچھلے سال۔۔ عید پہ جب میں تیرہ سال کی تھی۔۔۔۔،،اب تم کتنے کی ہو۔۔۔؟تین مہینے بعد چودہ کی ہوجائوں گی۔۔ پھر وہ لے جائے گا مجھے۔۔۔مجھے نہیں جانا اُس کے ساتھ۔۔،، وہ سختی سے اس کے ساتھ لپٹ گئی۔وہ اس کے سینے سے لپٹ کر روتی رہی اور اس کے ذہن میں خدشات منڈلاتے رہے۔۔۔۔قادر خان، لمبے ہاتھ، جوئے کا اڈا، کرائے کے غنڈے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا۔۔۔ اب میں چلتا ہوں۔۔۔،، اس نے آہستگی سے اسے خود سے الگ کیا۔کل ملیں گے۔۔۔،،پھر وہ اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر چلنے لگا۔ وہ پہلے تو حیرت سے اسے دیکھتی رہی ۔ پھر آوازیں دینے لگی۔۔۔عمران۔۔۔۔ عمران۔۔۔عمران۔۔۔۔،،

قدرے نیچی چھت پر بالکل دادی کے چہرے کے عین اوپر ایک چھپکلی آکر ٹھہر گئی تھی اور اب اپنی ساکت آنکھوں سے دادی کو گھورے جارہی تھی۔ دادی کو اس سے ڈر لگ رہا تھا۔ اسی ڈر نے اسے اپنےواحد مددگار کو پکارنے پر مجبور کیا۔ عمران نے ان کی آواز پر کسی رد عمل کااظہار نہیں کیا۔ وہ دیوار کے اُس طرف کہیں تھا جو دادی کے سر کی پچھلی جانب تھی اور وہ پوری طرح گھوم کر ادھر دیکھ نہیں سکتی تھی۔ دادی کو نہیں معلوم تھا کہ عمران اُدھر کیا کررہا ہے، سو رہا ہے یا جاگ رہا ہے۔ اسے کچھ علم نہیں تھا۔ دادی آواز میں زور پیدا کرکے ایک بار پھر اسے پکارنے لگی۔عمران۔۔۔ ادھر آ بیٹا اور اس منحوس کو بھگا۔۔ ہائے۔۔۔۔۔ عمران تُو میری بات سن رہا ہے یا نہیں۔۔۔عمران۔۔۔۔ عمران۔۔۔ عمران۔۔۔۔۔،،گھٹنوں میں سر دے کر اونگھتے ہوئے عمران کو ایسا لگا جیسے وہ کسی صحرا میں چلا جارہا ہے اور کسی عورت کی آواز اس کی طرف تیزی سے بھاگتی آرہی ہے۔ پھر وہ آواز پھیلنے لگی اور سارے کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی۔ اس نے بڑی مشکل سے سر اٹھایا۔ وہ کولہے زمین پر ٹکا کر گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھا تھا، سر اٹھاتے ہوئے اسے لگا وہ کسی جھولے میں بیٹھا ہے جو سبک رفتاری سے آگے پیچھے جھول رہا ہے۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے سر کو تھام لیا۔ دادی کی آواز میں خوف کی شدت آگئی تھی۔ وہ بدقت تمام اٹھا اور دیوار کا سہارا لے کر باہر کی طرف چلنے لگا۔کیا ہے۔۔۔ کیوں چلا رہی ہو۔۔۔؟اس کے لہجے میں سخت بےزاری تھی۔ اس کی دادی اپاہج تھی اور چل پھر نہیں سکتی تھی۔ چند سال پہلے گھر کا سودا سلف لاتے ہوئے ایک موٹر سائیکل سوار نے اسے ٹکر دے ماری جس سے کولہے کی ہڈی چکنا چُور ہوگئی اور دادی عمر بھر کے لیے چلنے پھر سے معذور ہوگئی۔ اس دنیا میں دونوں تنہا تھے عمران کے ذہن میں اپنے ماں باپ کے مٹیالےسے نقش تھے، عمران کو دادی نے ہی پالا تھا۔ یہ گھر اس کے دادا نے خریدا تھا، وہ برسوں سے یہیں رہ رہے تھے۔ دادی کے اپاہج ہوجانے کے بعد عمران نہ یہاں سے کہیں جاسکتا تھا اور نہ دادی کو چھوڑ سکتا تھا۔دادی طویل عرصے سے چارپائی پر لیٹے لیٹے اسی کا حصہ لگنے لگی تھی۔ اس کے لیے وقت کسی گرہ میں بندھ گیا تھا۔۔۔ وہ سارا وقت ایسے ہی پڑی چھت کو گھورتی رہتی، کبھی کبھی عمران اس کی کمر کے نیچے دو ایک تکیے لگا کر اسے سہارے سے بٹھا دیتا اوروہ ٹیڑھے سے مضحکہ خیز انداز میں پڑی رہتی مگر تکلیف کے باعث وہ اس عالم میں بھی زیادہ دیر نہ رہ پاتی اور پھر سے لیٹ جاتی۔ وہاں چھپکلیوں اور لال بیگوں کی بہتات تھی فرش پر چلتےلال بیگ نظر آتے تو چھت اور دیواروں پر چھپکلیاں رینگتی رہتیں۔ عمران جو ساری دنیا پر لعنت بھیج کر اپنا کمرہ اوڑھے پڑا ہوتا دادی کی اذیت ناک آوازیں سن کر واپس آتا اور کسی نہ کسی طرح دادی کی تکلیف یا خوف رفع کرنے کی کوشش کرتا۔ کبھی تو چھت پر سچ مچ کوئی چھپکلی نظر آتی اور کبھی صرف دادی کی آنکھوں میں۔ہائے۔۔۔ بیٹا۔۔۔ اس کم بخت کو تو بھگا۔۔۔ اس نے تو میری جان ہی نکال دی ہے۔۔۔،،دادی نے چھت کی طرف دیکھنے سے گریز کرتے ہوئے کہا۔عمران نے چھت کی طرف دیکھا ایک موٹی سی زرد چھپکلی چھت سے چپکی ہوئی تھی اور اپنی ساکت آنکھوں سے اسے گھورے جارہی تھی۔ عمران کی رگوں میں خوف کی لہر سرایت کرنے لگی۔ اسے لگا یہ چھپکلی نہیں بلکہ کوئی بدروح ہے جس نے ان کی زندگی سے سارے رنگ نچوڑ کر پیلاہٹ بھردی ہے۔ وہ چپل اٹھانے کے لیے زمین پر جھکا، اس کی حرکات ایسے عمل میں آرہی تھیں جیسے سلوموشن میں کسی فلم کا منظر چل رہا ہو۔ وہ جتنی دیر میں چپل اٹھا کر سیدھا ہُوا چھپکلی تیزی سے بھاگتی ہوئی ایک نیم تاریک کونے کی طرف جاچکی تھی۔بھاگ گئی سالی۔۔۔۔،،اس نے کہا اور دادی کے پاس ہی چارپائی پر بیٹھ گیا۔چھپکلیاں چھت سے گرتی تھوڑی ہیں۔۔۔،،اس نے دادی کو تسلی دی۔تم خوامخواہ پریشان ہوجاتی ہو۔۔۔،،وہ منحوس ماری مجھے گھور رہی تھی، کسی بدروح کی طرح۔۔،،دادی کی آواز میں خوف تھا۔چلو اب تو بھاگ گئی ہے، اب آئی تو میں اسے جھاڑو سے ماروں گا۔ پھر یہ تمہیں تنگ نہیں کرے گی۔،،اس نے دادی کے چہرے پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔مجھے تھوڑا سا پانی پلادے۔۔۔،،دادی نے اس کا ہاتھ چوما۔ وہ سرہلاتے ہوئے اٹھا اور چارپائی کے نیچے پڑا گلاس اٹھایا۔۔۔ گلاس خالی تھا۔۔۔ وہ قریب پڑے مٹکے کی طرف بڑھ گیا۔ پانی بھرتے ہوئے اسے سامنے دیوار کے رخنے میں ویسی ہی پیلی سی لجلجی چھپکلی نظر آئی۔ وہ اپنی ساکت آنکھوں سے اسی کو گھور رہی تھی۔ اس نے زیر لب موٹی سی گالی دی اور قریب پڑا کسی شے کا ٹوٹا ہوا حصہ اٹھا کر دیوار پر دے مارا۔ چھپکلی اسی رخنے کے اندر کہیں واپس چلی گئی۔ رخنہ خاصا گہرا تھا۔ دیوار کے اُس طرف ایک گندی گلی تھی۔ لوگ اپنے گھروں کا کوڑا کرکٹ وہاں پھینک دیا کرتے، چونکہ وہاں کسی کا آنا جانا نہیں تھا تو کبھی کسی نے اس گلی کی صفائی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اس علاقے میں ہر گلی کے پیچھے ایسی ہی ایک گندی گلی تھی۔ جو زیادہ تر نشہ بازوں یا اہل محلہ سے چھپ چھپا کر ملنے والے جوڑوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھی۔یہ غریب آباد تھا۔ بڑے شہر کا ایک چھوٹا سا، پسماندہ علاقہ۔۔۔پانی کا گلاس لے کر وہ دادی کے پاس آیا اور اسے سہارا دے کر پانی پلانے لگا۔ دو ایک گھونٹ پلا کر اس نے گلاس زمین پر رکھا اور دوائیوں والی تھیلی میں کچھ ڈھونڈنے لگا۔ پھر اس نے ایک پیلی گولیوں کا پتا نکالا اور اس میں سے ایک چھوٹی سی گولی الگ کرلی۔تم فکر نہ کرو۔۔۔ یہ گولی کھالو۔۔۔ نیند آجائے گی۔۔۔ میں یہیں ہوں۔ کوئی بات ہو تو مجھے آواز دے لینا۔،،اس نے دادی کو نیند کی گولی کھلائی اور اٹھ کرکمرے کی طرف چل پڑا۔یااللہ۔۔۔ تیرا ہی آسرا ہے۔۔۔،،بڑھیا نے بڑبڑاتےہوئے انکھیں موند لیں۔عمران کمرے میں آگیا، دروازہ وہ کبھی بند نہیں کرتا تھا کہ دادی کسی وقت بھی اسے کسی ضرورت کے تحت بلالیتی تھی۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں چیزیں بے ترتیب بلکہ بکھری پڑی تھیں۔ لوہے کے دو،تین صندق، چند پرانے ادھڑے ہوئے ڈائجسٹ،جن کا نہ کوئی سرِ ورق تھا اور نہ ان کے سن اشاعت کا کچھ پتہ چلتا تھا۔ بس کچھ کہانیاں تھیں جو کٹے پھٹے اھدڑے ہوئے اوراق میں بندھی رہ گئی تھیں۔ پانی کی آدھی خالی بوتل، سگریٹوں کے ٹوٹے، جلی ہوئی تیلیاں، ایک گرد آلود سفری بیگ جس کے اصل رنگ کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ ایک طرف مسجد سے لائی ہوئی دری بچھی تھی جس پر میلا سا گدا ایک کمر ٹوٹا تکیہ اور میلی سی چادر پڑی تھی۔ یہاں ضرورت کی چیزیں بہت کم تھیں، دونوں کی ضرورتیں بھی کم ہی تھیں۔ عمران دن کے اوقات میں زیادہ تر باہر رہتا، رات کو آتا اور دادی کو کچھ کھلانے پلانے کے بعد درد کم کرنے کرنے کی دوا دے کر اپنے کمرے میں چلاجاتا۔ دادی وہیں پڑی کراہتی رہتی۔ کبھی چھت پر کوئی چھپکی آجاتی تو وہ عمران کو پکارنے لگتی۔۔۔عمران۔۔۔۔عمران۔۔۔عمران۔۔۔۔،،

عمران نام ہے ناں تمہارا۔؟اس کالے بھجنگ آدمی نے پوچھا تھا جس کی انکھیں بہت لال تھیں اور دانت بہت پیلے۔ اس کے بال کسی شکاری پرندے کے گھونسلے جیسے چھدرے تھے اور کنپٹیوں پر آکر خاکستری ہوجاتے تھے۔ اس کے ماتھے کی شکنیں اس کے جہاں دیدہ ہونے کا پتہ دیتی تھیں۔ہاں۔۔۔،، اس نے آہستگی سے کہااپن نارائن ہے۔ نارائن داس چپڑاسی۔۔۔ آج سے تم ہمارے ساتھ کام کرے گا۔ آصف ساب نے بتایا تمہارے بارے میں۔۔۔،،نارائن نے کہااچھا۔۔۔،،وہ بس اتنا ہی کہہ سکا۔کتنے پیسوں پر آئے ہو۔۔۔،،نارائن نے پوچھاچار ہزار۔۔۔،،اس نے کہا اور نظریں نیچی کرکے فرش کو دیکھنے لگا۔دوپہر کو باتھ روم جاتے ہوئے اس نے نارائن داس کو اندر سے برآمد ہوتے دیکھا، اس کے پیچھے پیچھے چرس کے دھویں کا ایک مرغولہ بھی باہر آیا۔ اس نے حیرت سے نارائن کو دیکھا۔اپنا تو یہ چلتا ہی رہتا ہے۔۔۔ہی ہی ہی ہی۔۔،،نارائن نے کھسیانی سی ہنسی فضا میں اچھالی اور اسے حیرت زدہ چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔کچن میں صاحب کے لیے چائے بناتے ہوئے نارائن آگیا۔ اسے یہ آدمی بڑا عجیب سا لگا تھا۔ یوں دن دیہاڑے باتھ روم میں چرس نوشی اس کے لیے حیرت انگیز تھی۔ وہ تھوڑی دیر نارائن کی طرف دیکھتا رہاکیا بات ہے، کیا دیکھ رئے ہو۔؟ نارائن نے پوچھا۔تم چرس پیتے ہو۔؟ اس نے براہ راست سوال کیاہاں۔۔ تم بھی پیو گے کیا۔؟نارائن نے نہ صرف برملا اعتراف کیا بلکہ اسے بھی ایک طرح سے دعوت دے ڈالی۔کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا۔۔،،اس کی آواز میں تجسس تھا۔کاہے کا مسلا۔؟نارائن نے پوچھا اور خود ہی کہنے لگا۔اپن میں بس یہی ایک خرابی ہے۔ یہ ظالم جان نہیں چھوڑتی۔ ہم رہ نہیں سکتا اس کے بغیر۔۔۔ ساب لوگ کو بھی پتہ ہے۔۔۔،،تو صاحب نے پھر کیا کہا۔؟عمران نے پوچھاکچھ نہیں کہتا ساب۔۔۔۔ بولتا ہے بس احتیاط کرو۔ چھوڑ دو تو اچھا ہے۔ پر اپن سے چھوٹتی نہیں یہ ماں۔۔۔۔۔،،وہ پتیلی میں کھولتی چائے میں پوّا چلانے لگا۔عمران نے ایک اسٹول کھینچا اور ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ویسے اپن ہر طرح سے اچھا آدمی ہے۔ روپے پیسے میں ڈنڈی نہیں مارتا، ٹائم پہ آتا ہے، فالتو میں چھٹی نہیں کرتا، ساب لوگ کا خدمت کرتا ہے۔ شکایت نہیں کسی کو ہم سے۔،،وہ جیسے خود کو یقین دہانی کروارہا تھا۔کب سے ہو یہاں پہ۔؟ اس نے پوچھاجب سے یہ فیکٹری بنا ہے۔ ہاہاہاہا، بہت سال ہوگئے۔۔۔ ہم شروع سے ادھر ہی رہتا ہے، ادھر پیچھے نشاط آباد میں۔۔۔ ہمارا باپ داد بھی ادھر ہی رہتا تھا۔،، وہ کپوں میں چائے نکالنے لگا۔ عمران چائے سے اٹھتی بھاپ کو دیکھنے لگا۔ تم جائو ساب کو چائے دے آئو ہم تمہارے لیے بناتا ہے سگریٹ۔ تم بھی کیا یاد کرے گا۔،،اس نے چائے کے کپ ٹرے میں رکھے اور جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال لیا۔عمران چائے دے کر واپس آیا تو نارائن ایک سگریٹ خالی کرچکا تھا اور دوسری اس کی انگلیوں میں ناچ رہی تھی۔ عمران اسی اسٹول پر اس کے مزید قریب ہوکر بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ بڑی مہارت سے چل رہے تھے، سگریٹ اس کی انگلیوں اور انگوٹھے کے بیچ رقص کررہی تھی اور اس کی ہتھیلی پر تمباکو کی بارش ہورہی تھی۔بڑے ماہر ہاتھ ہیں تمہارے استاد۔،،عمران نے کچھ کہنے کی غرض سے کہاہاہاہاہاہا۔۔۔،، نارائن ہنسا اور جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ ٹٹولنے لگا۔پتہ ہے آدمی نے سارا ترقی اپنے ہاتھوں کی مہارت سے کیا ہے۔ بڑی فنکاری ہوتی ہے ان ہاتھوں میں، یہ ہاتھ چاہیں تو کچھ بنالیں، چاہیں تو بگاڑ دیں سارا کھیل ان ہاتھوں کا ہے۔۔،،وہ اپنی دھن میں بولتا رہا۔ ساتھ ساتھ اس کے ہاتھ بھی اپنی مہارت دِکھاتے رہے۔ وہ اپنے پسندیدہ کام میں اتنا منہمک تھا کہ اس نے ایک بار بھی آنکھ اٹھا کر اس کی طرف نہیں دیکھا۔فیکٹری سے نکلتے وقت اس کے ذہن میں نارائن کی باتیں گونجتی رہیں۔۔۔مگر میرے ہاتھوں میں تو کوئی ہنر نہیں۔۔۔۔،،اس نے سوچا اور چلتے چلتے اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی اور اس پر پھیلے لکیروں کے جال کو دیکھنے لگا۔

مسجد کی صف پر ایک سستے سگریٹ کا پیکٹ پڑا تھا، پیکٹ کے ساتھ ہی ایک مکمل اور ایک آدھی بجھی ہوئی سگریٹ تھی اور ماچس کی جلی اور ان جلی تیلیاں اور ماچس کی ڈبیا پر ایک چمکدار پنی میں لپٹی ہوئی کوئی چیز۔۔۔عمران نے ادھ جلا ٹوٹا اٹھایا  اور سلگانے لگا۔ سگریٹ جلا کر اس نے زور سے کش لیا اور دو ایک لمحے دھویں کو حلق میں رکھنے کے بعد سگریٹ کے جل اٹھنے والے سرے پر دھویں کی پھونک ماری۔ وہ سرا دہکنے لگا۔ اس نے اوپر تلے دو تین کش لگائے اور دیوار سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ اس کے دماغ میں نشے کا ٹوٹا ہوا سلسلہ پھر سے جُڑنے لگا۔غریب آباد اور نشاط آباد کو علیحدہ کرنےوالی سڑک کے پار جہاں سے نشاط آباد شروع ہوتا تھا ایک زیرِ تعمیرعمارت تھی، یہ کسی شاپنگ پلازہ کا ادھورا ڈھانچہ تھا۔ سنا تھا ملکیت کے کسی تنازع کے باعث عدالت نے اس کی تعمیر رکوادی تھی اور کئی برس سے وہ ایسے ہی آدھا ادھورا سا، بے رنگ، بے ڈھب سا ڈھانچہ وہاں کھڑا رہ گیا تھا۔ اس کے پارکنگ ایریا میں برسوں سے ہیروئنچیوں کا قبضہ تھا جن کی محفل رات کو جمتی اور دیر گئے تک شور شرابے اور گالم گلوچ کی گونج رہتی۔ کبھی کوئی ٹھیکیدار نما آدمی چند مزدور نما لوگوں کے ساتھ آتا اور ان ہیروئنچیوں کو دھکے اور گالیاں دے کر وہاں سے بھگادیا جاتا۔ وہ بھی جواباً گالیاں دیتے ہوئے تھوڑی دیر کے لئے اِدھر اُدھر ہوجاتے اور رات ہوتے ہی پھر وہاں آن ٹپکتے۔۔ وہ ٹوٹا ہوا سلسلہ پھر وہیں سے چل پڑتا۔اس پلاٹ پر جو حصہ تعمیرات کی زد سے بچا ہوا تھا وہاں کئی روز سے بھکاریوں کا ایک گروہ آ کر بس گیا تھا۔ وہ وہیں کھاتے پکاتے اور دیگر امور زندگی سرانجام دیتے۔ ان کی تعداد خاصی تھی، ان میں عورتیں بچے جوان بوڑھے ہر طرح کے لوگ تھے۔ صبح ہوتے ہی ان کے مرد اور لڑکے کام دھندے کی غرض سے اِدھر اُدھر نکل جاتے، پیچھےچھوٹی چھوٹی عارضی جھونپڑیوں میں اِکا دُکا عورتیں بچے سنبھالتی رہ جاتیں۔ انہی میں ایک وہ تھی۔۔۔ جو اسے صبح صبح کام پر جاتے ہوئے نظرآئی تھی۔ قدرے صاف ستھری، گڑیا سی، جس کی ٹھوڑی پر تین ہرے ستارے گدے ہوئے تھے۔ وہ کسی بھی طرح اس بھکاری قبیلے کا حصہ نہیں لگتی تھی۔پھر وہ دانستہ اسے دیکھنے لگا، روز صبح کام پر جاتے ہوئے وہ اسے کوئی نہ کوئی کام کرتے یا چھوٹی عمر کے ایک لنگڑے بچے کے پاس بیٹھی دکھائی دیتی جو ممکنہ طور پر اس کا بھائی تھا۔ وہ بانسری بجاتا اور وہ اس کے پاس بیٹھی نجانے کن خیالوں میں کھوئی رہتی۔ اسے حیرت ہوتی کہ سچ مچ کا لنگڑا سارا دن یہاں بیٹھ کر بانسری بجاتا ہے اور اچھے خاصے ہٹے کٹے لوگ مصنوعی زخم یا معذوریاں پیدا کرکے بھیک مانگتے۔ بات اس کی سمجھ میں نہ آتی مگر وہ بانسری بہت اچھی بجاتا تھا۔ وہ صبح صبح تین ستاروں والی اس گڑیا سی لڑکی کو دیکھتے ہوئے گزرتا اور جان بوجھ کر اپنی رفتار کم کرلیتا کہ تادیراسے دیکھ سکے۔ اس پلاٹ کے آگے جہاں سے گلی شروع ہوتی تھی اس کے سرے پر پان سگریٹ کا ایک کیبن تھا وہ وہاں رک کر سگریٹ خریدتا اور سگریٹ جلا کر وہیں دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوجاتا، فاصلہ کم ہونے کے باعث وہ نہ صرف اسے دیکھ سکتا تھا بلکہ بانسری کی مدھر آواز بھی سن سکتا تھا۔ وہ لنگڑا بچہ اپنی دھن میں بجاتا رہتا اور سارا دن فیکٹری میں اس کے ہونٹوں پر وہ دُھن چڑھی رہتی  ۔۔۔۔چار دِناں دا پیار او ربّا ۔۔۔۔ بڑی لمبی جدائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لمبی جدائی۔۔۔۔اسے وہ پہلی ہی نظر میں اچھی لگی تھی۔ توجہ کی پہلی وجہ تو اس کا اس بھکاری قبیلے سے یکسر مختلف ہونا تھا اور دوسری وجہ اس کا بھی اسے خود کو دیکھتے ہوئے دیکھنا تھا۔ اسے پوری طرح احساس تھا کہ وہ جان بوجھ کر اسے دیکھنے کے لیے کیبن کے پاس رُکتا تھا۔ کبھی وہ براہ راست اسے دیکھ لیتی اور کبھی ایسا ظاہر کرتی جیسے اس کے وجود سے بے خبر ہو۔ایک دن ایسے ہی کام پر جاتے ہوئے جب وہ کیبن کے پاس رک کر سگریٹ جلا رہا تھا تو اسے احساس ہوا کہ وہ دیکھ رہی ہے۔ اس نے دیکھا اور اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا۔ وہ مسکرائی اور چہرہ دوسری طرف کرلیا۔ وہ اس کی دوسری نظر کا منتظر رہا۔ اس نے چہرہ گھمایا اور مسلسل اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر اٹھی اوراسی کی طرف چل پڑی۔ اس کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں۔ وہ اسے دیکھتے ہوئے قریب سے گزر کر کیبن کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ کیبن والے سے اس نے کچھ لیا اور پیسے دے کر ایسے ہی مٹھی بند کئے اس کی طرف بڑھنے لگی۔ وہ مزیدپیچھے ہٹ کر بالکل دیوار سے چپک گیا۔ وہ اس کے بالکل سامنے آ کر کھڑی ہوگئی۔کیا دیکھتے ہو۔؟اس نے آتے ہی سوال داغاوہ۔۔ مممم۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔،،وہ گڑبڑا گیا۔۔۔وہ ہنسنے لگی، اور اس کے گالوں میں چھوٹے چھوٹے بھنور کھِلنے لگے۔ اس نے پہلی بار اسے اتنا قریب سے دیکھا۔ تم ادھر رہتے ہو نا۔ وہ سامنے اس گلی میں۔۔،،اس نے سڑک کے پار اس کے گھر کی گلی کی طرف اشارہ کیا۔ہاں۔۔۔۔اُدھرغریب آباد میں ۔۔۔،،اسے کچھ سوجھ نہیں رہا تھا۔ہی ہی ہی ہی ہی۔۔۔ غریب آباد۔۔۔،،وہ کھلکھلائی۔کیسا عجیب سا نام ہے ناں۔۔۔ بھلا غریب بھی کبھی آباد ہوتا ہے۔؟اس نے ہنستے ہنستے کہا اور اپنی مٹھی اس کے سامنے کھول دی۔چھالیہ کھائو گے۔؟اس کے فقرے پردھیان کرتے ہوئے اس نے ہتھیلی پر پڑی رنگ برنگی پڑیوں میں سے ایک پڑیا اٹھالی۔اور تم جو یہاں رہتی ہو، اس کا نام پتہ ہے۔؟کک۔۔۔،،اس نے سر ہلایا اور دلچسپی سے اسے دیکھتی رہی۔ وہ خاصی بے فکر دکھائی دیتی تھی۔۔یہ نشاط آباد ہے۔۔۔،،نشاط آباد کا مطلب پتہ ہے۔؟اس نے دانتوں سے چھالیہ کی پڑیا کا کنارہ کاٹا اور اپنے ہاتھ پر چھالیہ انڈیلنے لگا۔کک۔۔۔۔ مجھے کیا پتہ۔۔،،اس نے بے نیازی دکھائی۔۔۔لو۔۔۔،،اس نے ہتھیلی اس کی طرف بڑھائی جس پر چھالیہ کے رسیلے دانے پڑے تھے۔اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کی ہتھیلی سے چند دانے اٹھائے اور اس کی انگلیوں کا لمس اس کی ہتھیلی سے ہوتا ہوا پورے بدن میں پھیلنے لگا۔ عجیب سی سرسراہٹ تھی جو ہاتھوں اور بازوئوں سے ہوتی ہوئی پاوں کے تلووں تک پہنچ گئی۔ اس کی سانسیں پہلے ہی بے ترتیب تھیں۔ صبح کا وقت تھا۔ سڑک سے تھوڑی تھوڑی دیر بعد اکا دکا گاڑیاں گزرتی تھیں۔ اور پھر وہ کیبن والا تھا۔ اسے پتہ تھا پان سگریٹ کے کیبن والے اردگرد کی پوری خبر رکھتے ہیں۔ اگر کسی نے ٹوک دیا۔۔ کچھ گڑ بڑ ہوگئی تو۔۔۔۔،، اس کے دل میں اندیشے پھیلنے لگے مگر وہ اس کی صحبت سے محروم بھی نہیں ہونا چاہتا تھا۔کیا مطلب ہے، بتا ناں۔۔۔،،وہ اٹھلائی ۔ہاں ۔۔ وہ نشاط آباد کا مطلب ہے خوشی آباد۔۔۔ جو جگہ خوشی سے آباد ہو۔۔۔،،ہی ہی ہی ہی ہی ہی ہی۔۔۔،،وہ ایک بار پھر زور سے ہنس پڑی۔۔۔یہ نام رکھنے والے بھی کیسے عجیب لوگ ہوتے ہیں ناں۔۔۔،،وہ ہنستی رہی اور اس کے وجود سے پھوٹنے والی مسرت سارے میں پھیلنے لگی۔۔ اس کے گالوں کے بھنور نیلے پانیوں سے بھرنے لگے۔وہ۔۔ ادھر۔۔ غریب آباد ہے۔۔ جہاں تم رہتے ہو۔۔۔ اور یہ۔۔۔ نشاط آباد۔۔ خوشی آباد۔۔ہاہاہا۔۔۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔،،وہ ہنستی رہی اور اس کی ٹھوڑی پر گُدے تین ہرے ستارے مسرت کی کرنیں بکھیرتے رہے۔۔ یہ۔۔ یہ۔۔ تمہارا بھائی بہت اچھی بانسری بجاتا ہے۔،،اس نے کہاہاں۔۔۔۔،،اس نے جواباً اتنا ہی کہا اور دانتوں سے چھالیہ کی پڑیا کا کنارا کاٹنے لگی۔بھائی ہے ناں تمہارا۔؟اس نے تصدیق چاہی ۔۔۔ہاں۔۔ دینو۔۔ دینو نام ہے اس کا۔۔۔ دس سال کا ہے ابھی۔،،اس نے کہا اور چھالیہ کے دانے ہتھیلی پر لگا۔ اور تمہارا۔۔۔ ممم ۔۔۔۔ مطلب نام۔۔۔؟اس نے پوچھا ۔زینت۔۔۔۔۔ زینو کہتے ہیں پیار سے۔۔،،اس نے کہا اور ہتھیلی اس کے سامنے کردی۔۔تمہارا نام تو بالکل ٹھیک رکھا ہے جس نے بھی رکھا ہے۔،،ہی ہی ہی ہی ہی، میری ماں نے رکھا ہے۔۔۔ کیا مطلب ہے اس کا۔؟اس کا مطلب ہے سجاوٹ، خوبصورتی۔۔۔،،تو کیا میں خوبصورت ہوں۔؟وہ کوئی چھوٹی لڑکی نہیں لگ رہی تھی پوری عورت دکھائی دیتی تھی۔۔۔ہاں۔۔۔ بہت خوبصورت۔۔۔۔،،اس نے اس کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہاہی ہی ہی ہی ہی ہی۔۔۔ وہ ہنستی رہی اور اس کی آنکھوں سے نکلتی روشنیاں اس کے دل میں اجالے بکھیرتی رہیں۔تیرا کیا نام ہے۔۔؟میرا نام عمران ہے۔۔۔اور پیار سے بھی عمران ہی کہتے ہیں۔،،اس کا اعتماد بحال ہورہا تھااس نے چند دانے اٹھائے اور دوبارہ وہی لمس کی سرسراہٹ اس کی انگلیوں کی پوروں سے ہوتی ہوئی پاوں کے تلووں تک پھیل گئی۔۔اچھا اب میں چلتا ہوں کام سے دیر ہورہی ہے۔۔۔،،باتیں بڑی مزیدار کرتا ہے تُو۔۔۔،،زینت کی دلچسپی بڑھ رہی تھی۔تُو بھی۔۔۔،،اس نے اتنا ہی کہا اور مزید کسی سوال جواب کے بغیر وہاں سےچل پڑا۔ وہ وہیں کھڑی اسے جاتے ہوئے دیکھتی اور دھیمے دھیمے مسکراتی رہی۔ اس کے گالوں کے گڑھے نیلے پانیوں سے بھر چکے تھے۔ اور ٹھوڑی کے تین ہرے ستارے مسرت سے دمک رہے تھے۔سارا دن بانسری کی دھن اس کے اندر گونجتی رہی اور اس کا لمس اس کے وجود میں رقص کرتا رہا۔عورت جو ہوتی ہے ناں اسے زندگی کانوں سے اچھی لگتی ہے۔،،نارائن داس نے ایسے ہی ایک دن کسی کیفیت میں جھومتے ہوئےکہا تھا۔کانوں سے۔۔۔ مطلب۔۔؟عورت کو اچھی باتیں سننا اچھا لگتا ہے، اس سے اچھی اچھی باتیں کرو تو بہت خوش رہتی ہے۔ تم اسے اچھا کہو گے تو وہ اچھی ہوجائے گی، برا کہو گے تو بری ہوجائے گی۔۔۔،،اور مردوں کو۔۔ مردوں کو کیا اچھا لگتا ہے۔؟اس نے پوچھاہوہوہوہوہوہوہو۔۔،، اس نے لمبا کش کھینچا اور اس کی ہنسی اور کھانسی آپس میں خلط ملط ہوگئیں، کھانسی نما ہنسی اور ہنسی نما کھانسی کے بیچ میں اس نے کہا۔۔مرد کی آنکھ بڑی کافر ہوتی ہے۔۔۔۔ کہیں ٹکتی نہیں حرامزادی۔۔ ہر نئی چیز۔۔۔ ہر نئے رنگ ، ہر نئی صورت کے پیچھے بھاگتی ہے۔۔۔،،تو کیا مرد ساری زندگی بھاگتا ہی رہتا ہے۔ نئے رنگوں اور نئے چہروں کی تلاش میں۔؟ہاں۔۔۔ مرد بڑے ظالم ہوتے ہیں۔۔۔ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے۔۔۔،،آکھوں۔۔ آکھوں۔۔۔ آکھوں۔۔۔۔۔،،نارائن نے کھانسی کو گالی دی اور بولتا رہا۔میرا باپ سمندر میں جاتا تو مہینوں گھر نہ آتا۔۔ جب آتا تو بڑی بڑی مچھلیاں دکھاتا جو اس نے ماری ہوتیں۔۔ اور سمندروں کے قصے سناتا جس میں میری ماں کی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی، اس کے لیے وہ مچھلیاں تمغے تھے اسے کوئی فکر نہ ہوتی کہ میری ماں اور ہم بچوں نے یہ سارے مہینے کیسے گزارے۔۔۔ وہ بس اپنی دھن میں رہتا، میرا داد بھی ایسا ای تھا۔۔ نئے پانیوں اور نئی مچھلیوں کی تلاش میں رہتا تھا ہمیشہ۔۔،،تم تو ایسے نہیں ہو۔۔؟اپن اس لیے ایسا نہیں ہے کہ وہ لوگ ایسا تھا ان کو دیکھ کے ہی تو ہم یہ سب سیکھا ہوں۔۔۔ہو ہو ہو ہو ہو ہوہو ۔۔۔ کھوں کھوں کھوں کھوں کھوں کھوں کھوں۔۔۔۔۔،،

تُو کرتا کیا ہے۔ میرا مطلب کام، دھندہ۔۔۔،،ایک دن ایسی ہی کسی مسرت خیز صبح میں اس نے پوچھا تھا۔وہ اُدھر۔۔۔۔،،اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ ایک فیکٹری میں چپڑاسی ہوں۔ اس نے انگلیاں چٹخائیں۔تُو مجھے اپنے گھر لے جائے گا۔؟ اس نے اچانک ایک غیر متوقع سوال داغ دیا۔وہ سٹپٹاگیا۔۔ ہیں۔۔۔۔۔ میں۔۔۔ میرے گھر۔۔۔؟اسے کچھ سمجھ نہیں آیا۔رات کو آجائوں۔۔ جب سب سو رہے ہوں۔۔۔۔،، اس نے پوچھانئیں۔۔۔ ممم میرا مطلب۔۔۔ گھر میں نہیں۔۔۔،،اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔اچھا میں تجھے اس گلی میں ملوں گی۔ جب تُو کام سے آجائے گا۔۔۔ شام کے بعد۔۔ جب اندھیرا ہوجائے گا۔۔۔،،اس نے اس کے گھر کے ساتھ والی گندی گلی کی طرف اشارہ کیا۔ اور مزید کچھ کہے بغیر جھونپڑیوں کی طرف چل دی۔ وہ عجیب سی کیفیت لیے وہیں کھڑا رہ گیا۔

فیکٹری میں سارا دن بہت مشکل سے گزرا اور سرِ شام جب ایک ایک کرکے سب کام ختم کرکے جانے لگے تو نارائن نے اسے اشارہ کیا اور کچن کی طرف چل پڑا۔۔۔وہ جب کچن میں داخل ہوا تو نارائن سگریٹ بھر چکا تھا اور اسی کی آمد کا منتظر تھا۔ اسے آتے دیکھ کر اس نے سگریٹ جلائی اور دو چار لمبے لمبے کش کھینچنے کے بعد سگریٹ اس کی طرف بڑھادی۔لو لگائو۔۔۔۔،، ”اس نے بغیر کچھ کہے سگریٹ پکڑی اور کش لگانے لگا۔۔۔جب وہ فیکٹری سے نکلا تو شام ہوچکی تھی اور قریبی مساجد میں مغرب کی اذان ہورہی تھی۔ اس کے قدم ڈگمگا رہے تھے اور ذہن میں زینت تھی۔اگر وہ سچ مچ آگئی تو۔۔۔۔؟ اس نے سوچا مگر کوئی جواب نہیں بن پا رہا تھا۔۔۔اس نے سن رکھا تھا کہ یہ بھکاریوں کے گروہ بہت خطرناک ہوتے ہیں خاص طور پر اپنی لڑکیوں کے بارے میں۔ اور پھر زینت اسے بتاچکی تھی کہ اس کا باپ کسی قادر خان سے اس کا سودا کرچکا تھا۔ جو منشیات اور اسلحہ بیچتا اورجوئے کا اڈا چلاتا تھا، اس کے ہاتھ بہت لمبے تھے اور وہ سونے کی انگوٹھیاں پہنتا تھا۔اگر کسی نے دیکھ لیا، اگر کچھ ہوگیا۔۔۔۔ دادی کا کیا ہوگا۔۔۔۔؟ بہت ساری باتیں اس کے دماغ میں کلبلا رہی تھیں اور وہ شام کے ملگجی اندھیرے میں اپنے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ فیکٹری سے اس کے گھر کا راستہ پندرہ بیس منٹ سے زیادہ نہیں تھا وہ پیدل ہی آتا جاتا۔۔ مگر آج وہ راستہ بہت طویل لگ رہا تھا۔خیالات اس کے دماغ میں منتشر تھے اور چلتے ہوئے قدم لڑکھڑاتے تھے۔وہ نشاط آباد میں تھا جہاں شاپنگ سینٹر بننے کی آرزو لیے وہ ادھورا ڈھانچہ کھڑا تھا۔ اسے سڑک پار کرکے غریب آباد جانا تھا جہاں اس کا گھر تھا اور دادی تھی جو اپاہج تھی، اسے دن رات چھپکلیاں ڈراتی تھیں اور اس کے گلے میں ٹوٹی ہوئی رسی خرخراتی تھی۔میرا باپ مجھے قادر خان کو دے دے گا۔ پھر بہت دیر ہوجائے گی۔۔ تُو مجھ سے بیاہ کرلے۔۔۔۔،،اس کی آواز میں اندیشے اور التجا تھی ۔۔۔ابھی نہیں کرسکتا۔۔۔،،اس نے انگلیاں چٹخایئں۔ابھی کچھ مسئلے ہیں۔۔۔۔،،کیا مسلے ہیں۔۔ مجھے بتا۔۔ پیسے چاہئیں۔؟نہیں۔۔۔ پھر بتائوں گا۔۔۔۔،،اس نے کہا اور جانے کے لیے قدم آگے بڑھادیئے۔۔۔وہ درد بھری نظروں سے اُسے دیکھتی رہی۔۔ جب ان کے درمیان فاصلہ بڑھ گیا تو وہ اسے پکارنے لگی۔۔۔عمران۔۔۔۔ عمران۔۔۔ عمران۔۔۔۔۔

اپنے نام کی بازگشت نے اسے چونکادیا۔ اس نے سر جھٹک کر دیکھا وہ کسی ویرانے میں کھڑا تھا۔ہوا میں عجیب سی بساندھ بسی ہوئی تھی جیسے کہیں قریب میں کوئی مردہ جلایا جارہا ہو۔ اس نے اوپر دیکھا مگر اسے آسمان نظر نہ آیا، اوپر بہت سے کالے پرندے تھے جن کے پر بڑے تھے اور پنجوں کی انگلیاں لوہے سے بنی لگتی تھیں۔

اس کے اندر پیاسے اونٹ ہانپ رہے تھے، اس نے گلے پر ہاتھ پھیرا، پیاس کی شدت سے اس کا حلق چٹخ رہا تھا۔ وہ بغیر کسی سمت کا تعین کیے سامنے کی طرف دوڑنے لگا۔ اچانک اسے ٹھوکر لگی اور وہ زمین پر گر گیا۔ زمین پر موٹی موٹی زرد اور کالی چھپکلیاں رینگ رہی تھیں اور چھپکلیوں کی کٹی ہوئی دمیں پھڑکتی تھیں۔ ہوا کہیں چھپ گئی تھی اور سانس لینا محال تھا۔

وہ کوشش کرکے اٹھا اور پھر بھاگنے لگا۔۔ کوئی عورت تھی جس کی درد میں ڈوبی آواز مسلسل اسے پکار رہی تھی اور وہ بھاگتا چلا جارہا تھا۔ آواز کہیں قریب سے ہی آرہی تھی۔ اسے پھر ٹھوکر لگی اور اس نے گرنے سے بچنےکےلیے ہوا میں ہاتھ لہرایا، کوئی دیوار تھی جسے لاشعوری طور پر اس کے ہاتھ نے تھام لیا۔ اس کے گھٹنوں سے ٹکراتی لکڑی کی چارپائی تھی اور اندھیرا شدید ہورہا تھا۔ وہ دادی کی چارپائی کے قریب کھڑا تھا۔ شاید لائٹ چلی گئی تھی۔ اس نے ٹٹول کر جیب سے ماچس نکالی، تیلی جلا کر اس نے دیکھا دادی کی آنکھیں بند تھیں اور منہ سے عجیب سا مادہ بہہ رہا تھا۔ ہوا میں ایسی بساندھ تھی جیسے کہیں قریب ہی کوئی مردہ جلایا جارہاہو۔۔ اس نے دادی کے بدن پر لپٹی چادر ہٹائی تو ٹپ ٹپ کرکے بہت سے چھپکلیاں زمین پر گرنے لگیں، تیلی آخر تک جل چکی تھی اور اب آگ کی حدت اس کی انگلیوں کو جلاتی تھی۔ اس نے ہاتھ جھٹک کی تیلی کا بچا ہوا حصہ نیچے پھینکا اور دوسری تیلی جلائی۔ اس کے پیروں میں چھپکلیاں رینگ رہی تھیں۔ اور دادی کی چارپائی پر بھی چھپکلیوں کی بہتات تھی۔۔ اس نے دادی کے بے جان چہرے کی طرف دیکھا، اس کا دل حلق میں آگیا اور آنکھیں دھندلی ہونے لگیں۔ اس نے تیلی زمین پر پهینکی اور دروازہ کھول کر باہر نکل آیا، باہر حبس تھا۔۔۔۔اور خاموشی، ایک عجیب سی گھنی اور موت زدہ خاموشی۔۔۔۔۔ وہ گلی میں بھاگتا گیا۔ سامنے غریب آباد اور نشاط آباد کو علیحدہ کرنے والی سڑک کے اس پار جہاں سے نشاط آباد شروع ہوتا تھا شاپنگ پلازہ نہ بن سکنے والی عمارت کا ٹیڑھا سا افسردہ ڈھانچہ کھڑا تھا۔ اور زمین پر بکھرے عارضی چولہوں سے دھیما دھیما دھواں اٹھ رہا تھا۔

 

Facebook Comments Box

1 thought on “غریب آباد ۔۔۔ سید کامی شاہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031