بھوک کی کوکھ سے ۔۔۔ ٹیبی شاھدہ


بھوک
کی کوکھ سے

ٹیبی شاہدہ

وہ صرف چند ماہ کے لیے ہمارے آفس اپنے کسی پروجیکٹ کے سلسلے میں آئی تھی ۔ وہ آئی اور چلی گئی لیکن میرے دل سے اس کی یاد نہیں گئی ۔ وہ ہمیشہ سر سبز ہی رہی ، بہار کے موسموں میں بھی اور خزاں کی رتوں میں بھی ۔ وہ تھی ہی ایسی ۔ ہری بھری ڈالی جیسی ، خوش رو کونپلوں سے لدی ہوئی ۔ تتلیوں جیسی چہکتی مہکتی ہوئی ۔ وہ جب آفس میں داخل ہوتی تو سارا منظر یک لخت بدل جاتا ۔ ہر سو  مسکراہٹ پھیل جاتی ۔ جگنو سے اڑنے لگ جاتے ۔ پر اس سے بات کرنے کی ہمت کسی میں نہ ہوتی ۔ اس کی بارعب اور پر اعتماد شخصیت ہر کسی کو فاصلہ رکھنے پر مجبور کر دیتی ۔ اس کے ذاتی حالات کسی کو معلوم نہ تھے پر تجسس سب کو تھا ۔ میں ہمہ وقت اس سے بات کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتا اور وہ بنا کچھ بولے ، بنا کچھ سنے خاموشی سے فاصلہ کچھ مزید بڑھا دیتی ۔ ہمیں بس اتنا معلوم تھا کہ وہ شادی شدہ ہے اور ایک بچے  کی ماں ہے ۔ ہم مشتاق لوگوں کو اس سے زیادہ جاننے کا اذن نہ تھا ۔ ان دنوں پرویز مشرف کے خلاف دھڑا دھڑ جلوس نکل رہے تھے ۔چوہدری افتخار اور دیگر ججوں کی بحالی کے لئے سیاسی جماعتوں کے کارکن ہر روز سڑکوں پر نکلے ہوتے ۔ سیاسی ماحول سوا نیزے پر تھا ۔ اور عوام  اس سوا نیزے کی تپش سے جھلس سی گئی تھی۔  وہ یعنی نگین ہر جمعہ کو داتا صاحب ضرور جاتی تھی ۔ وہ جمعہ بے حد کٹھن جمعہ تھا ۔ لاہور کی مرکزی سڑک مال روڈ احتجاجیوں سے لبا لب بھری ہوئی تھی ۔ اسکا داتا صاحب پہنچنا قریباً نا ممکن نظر آ رہا تھا ۔ میں ان مظاہروں کے حق میں حسبِ توفیق جوش کے ساتھ اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کر کے فارغ ہوا ہی تھا کہ نگین نے شاباش کے انداز میں مجھے مخاطب کیا ” یہ لوگ تمہیں تو راستہ دے ہی دیں گے ، ہے نا !! تو چلو میرے ساتھ مجھے داتا صاحب پہنچا دو ۔” ۔ جملے کے آخری حصہ میں جو یقین تھا اس سے میری انانیت بھر پور انگڑائی لے کے بیدار ہو گئی ۔ اور مجھ ناچیز نے اک لمحہ ضائع کئے بنا اپنی خدمات اس کو پیش کر دیں ۔ کچھ ہی دیر بعد ہم مال روڈ پر تھے ۔ کئی کلو میٹر طویل جلوس چیف تیرے جانثار بےشمار بےشمار کے نعرے لگاتا پولیس پر پتھر برساتا  رواں دواں تھا ۔ جلوس کے جان نثاروں کے ابلتے جوش کو دیکھ کے میرے جذبات نے بھی حدت پکڑ لی ۔ دل  چاہا میں بھی اس عظیم مقصد کی حمایت میں چھوٹی موٹی تقریر کر ڈالوں ۔  میں نے کار کی رفتار بے حد مدھم کر دی ۔ میرا ارادہ بھانپ کے اور مجھے مائل بہ تقریر دیکھ کے نگین نے جلوس میں شامل ایک شخص کو اشارے سے اپنے قریب بلایا ۔ اور کمال معصومیت سے پوچھا ۔ ” آپ چیف کی بحالی کیوں چاہتے ہو ۔؟ آپ کو کیا فائدہ ؟؟ ”

” میڈم چیف اس ملک کا سرمایہ ہیں ۔ وہ مہنگائی کو ختم کر دیں گے ، کھانے پینے کی اشیاء سستی ہو جائیں گی ، وہ بے روزگاروں کو روزگار فراہم کریں گے ،انصاف کا بول بالا ہو گا،  اس ملک کے سارے مسائل ختم ہو جائیں گے اس لئے  چیف کی بحالی ہمارا مشن ہے ، ہم تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک چیف اور دیگر جج بحال نہیں ہوتے ۔ ” وہ گلے کی تنی ہوئی رگوں کے ساتھ پورے جوش و ولولہ کے ساتھ بول رہا تھا ۔

” بیٹا تم نے کتنی تعلیم حاصل کی ہے ؟ ” نگین نے شاباش کے سے انداز میں کہا ۔

”  میں ایم اے سماجیات ہوں  ”  وہ فخر سے بولا اور چل دیا ۔ نگین اپنے منہ زور قہقہے کو دبا کر دوسری طرف دیکھنے لگی ۔ میں نے بھی مارے شرمندگی کے اپنا رخ پھیر لیا ۔ پر میں اس کے چہرے پر پھیلی دبی دبی ہنسی کی پھوار کو محسوس کر سکتا تھا ۔

” جھوٹ بولتا ہے اس نے کوئی  ایم اے ویم اے نہیں کیا ہوا ” میں نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ کہا ۔ ” اَن پڑھ لگتا ہے بے وقوف کہیں کا ”

” اچھا ” اس نے گویا مجھ سے کلی اتفاق کر لیا اور بولی ” چلو اس سچ مچ کی ان پڑھ عورت  سے پوچھ لیتے ہیں کہ یہ گلا پھاڑ پھاڑ کے اپنی طاقت ججوں کی بحالی کے لیے کیوں صرف کر رہی ہے ۔ ” یہ کہتے ہوئے نگین نے ایک مفلوک الحال میلی کچیلی عورت سے پوچھا ” اماں تمھارا کیا مطالبہ ہے ؟ جلوس میں کیوں شامل ہو ؟ ”

” باجی سانوں کیہہ پتا ایناں گلاں دا ، ” وہ تھکی ماندی آواز میں بولی ۔” اسی دیہاڑی دے سو روپے کما لینے آں ۔ پر اینان نے سن تین سو دیہاڑی دین دا وعدہ کیتا اے ، ایہہ ساڈی دیہاڑی اے جی ۔ باقی سن کجھ پتا نہیں ” وہ جلدی سے اپنی بات ختم کر کے تیز تیز قدم اٹھاتی جلوس میں گم ہو گئی ۔ شائد اسے دیہاڑی میں کمی کا اندیشہ تھا ۔ اب کی بار نگین کھلکھلا کے ہنس دی اور اپنی استفہامیہ نگاہیں مجھ پر گاڑ دیں ۔

” ارے اس جاہل عورت کو کیا پتہ  ” مجھے اس کے علاوہ اور کچھ نہ سوجھا ۔

” مان گئے بھائی تم کو ۔ ویسے لگتا ہے تمہارے سیاسی بخار کو اماں سے دوا مل گئی ہے ، ہےنا !! ۔ اب اس جلوس کی پر خلوص ہمراہی ترک کرو اور مجھے شام سے پہلے پہلے داتا صاحب پہنچا دو ” نگین نے کھڑکی کے شیشے اوپر چڑھاتے ہوئے کہا ۔ میں نے کار کو بغلی سڑک پر ڈال دیا۔ اندرونی چھوٹی سڑکوں سے گزرتے ہوئے ہم شام سے پہلے ہی داتا صاحب پہنچ گئے ۔

وہ داتا صاحب کے بغلی بازار میں داخل ہو گئی  ،بازار کے دونوں اطراف دیگر اشیاء کے علاؤہ  پکی ہوئی دیگوں کی بے شمار دوکانیں تھیں ۔ دال روٹی ، زردہ اور کابلی چنا پلاؤ کی تیار دیگیں دستیاب تھیں ۔ لوگ یہ دیگیں خرید کے وہیں مستحقین میں تقسیم کر دیتے تھے ۔ نگین بھی اسی نیت سے ایک دوکان میں داخل ہو گئی ۔ اس نے دوکاندار کو کہا دو سو لوگوں میں دال روٹی اور زردہ تقسیم کر دو ۔ دوکان کے کارندے نے اللہ جانے کیا اسم پھونکا کہ  آن کی آن میں مستحقین کی ایک لمبی لائن لگ گئی ۔ میں نے اس وضع قطع کے  انسان اس سے پہلے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھے تھے ۔ انسان نما مخلوق کا یہ ریوڑ جسے دوکاندار کا کارندہ جانوروں کی طرح ہانک رہا تھا جوتوں سے بے نیاز ،اور  میلے کچیلے اور کئی حصوں میں تقسیم چیتھڑوں میں ملبوس تھا  ،  مٹی سے اٹے ہوئے سر اور داڑھی کے بال  جنگلی پودوں کی طرح بے تحاشہ بڑھے ہوئے تھے اور چہرے کے نقوش ان بد رنگ بالوں کی لٹوں میں منہ چھپائے ہوئے تھے ۔ ہر جذبے سے عاری پتھرائی ہوئی آنکھوں میں صرف  اور صرف بھوک لرز رہی تھی ۔   پچکے گالوں ، جھکی ہوئی کمر اور قریباً  ایک  جیسے  چھوٹے قد کی وجہ سے سب ایک سے لگ رہے تھے ۔ وہ مارے نقاہت کے ہولے ہولے چل رہے تھے ۔ نجانے کب سے بھوکے تھے ؟ ۔  بھوک کی شدت بھوک کی تڑپ پر غالب تھی ۔ ان کا نہ کوئی نام تھا نہ پہچان ۔ زندگی اپنی بھرپور بدصورتی اور مکروہ پن کے ساتھ میرے سامنے کھڑی تھی ۔ مجھے جھر جھری سی آ گئی    ۔ میں نے بولنا چاہا لیکن خوف کی ٹھنڈی لہر نے میری قوت گویائی کو سرد کر دیا ۔ میں نے گھبرا کے دوسری طرف منہ پھیر لیا ۔  دوکاندار دو روٹیوں پر دال ڈال کے باری باری سب کو دے رہا تھا ۔ نگین پر سکوت طاری تھا کہ دوکاندار کی آواز نے اسے چونکا دیا ۔ ” میڈم دو سو لوگون کو کھانا دے چکا ہوں ۔ ” اس نے ہاتھ روکتے ہوئے اعلان کیا

” لیکن لائن تو ابھی بھی باقی ہے ، ”

” میڈم یہ لائن تو کبھی ختم نہ ہو گی آپ بتائیں کتنے اور لوگوں کو کھانا دے دوں ؟ ” اس نے کاروباری لہجے میں کہا۔

” تم بس ان کو کھانا دیتے جاؤ ، پیسوں کی فکر نہ کرو وہ سب تم کو مل جائیں گے ” نگین بھی فیصلہ کن انداز میں بولی ۔ دوکاندار نے قدرے حیرت سے اسے دیکھا اور اگلے ہی لمحے پھر سے کھانا تقسیم کرنے میں مشغول ہو گیا ۔ میں نے تعجب سے  نگین کو دیکھا اور سوچا اسے کیا ہو گیا ہے ۔ ۔” اب بس کریں ۔ کافی  کھانا  تقسیم ہو گیا ہے ۔ہمیں اب واپس چلنا چاہیے ” میں قدرے احتجاج سے بولا ۔ اس نے اک گہری اور چبھتی ہوئی نظر مجھ پر ڈالی۔ ” تمہیں پتہ ہے بھوک کیا ہوتی ہے ۔ ۔ ؟ ”  اس نے رسان سے کہا ۔

” ہاں مجھے پتہ ہے ” میں نے ترنت جواب دیا ۔ ” ہر سال  پورے تیس روزے رکھتا ہوں ۔ ” میں نے اطمینان سے کہا

” روزے۔ ۔ ؟ ” وہ طنزیہ انداز میں بولی ” یہ تمہارے روزے تو بھوک میلہ ہے جو ہر شام  افطاری کے وقت سجتا ہے۔  انواع و اقسام کے کھانوں سے ۔ تمہیں کیا پتہ بھوک کیا ہوتی ہے ۔؟ مجھے ۔۔ پتہ ہے بھوک کیا ہوتی ہے ؟ ۔ بھوک کی کوئی افطاری نہیں ہوتی کوئی سحری نہیں ہوتی ۔ کچھ پتہ نہیں ہوتا بھوک کا دورانیہ کتنا دراز ہو ۔ ” میں نے دیکھا اس کی آنکھ سے قطرہ قطرہ آنسو گر رہے تھے ۔ وہ جذبات کے پرتو سے مبرا آواز میں گویا ہوئی ۔” میں نے سہی ہے بھوک ۔ بھوک کتنی خوفناک ہوتی ہے اس کا پتہ مجھے اس دن چلا جب میں بچہ کی پیدائش کے سلسلہ میں ہسپتال میں تھی ۔ میرا شوہر میرے ساتھ تھا ۔ بچہ کے پیدائش کے بعد مجھے شدید بھوک کا احساس ہوا ۔ میں نے شوہر سے کھانا مانگا لیکن اس نے یہ کہ کے منہ موڑ لیا کہ اس حالت میں کھانا دینا میری نہیں بلکہ تمہارے ماں باپ کی ذمہ داری ہے ۔ ” یہ جواب سن کے میں ششدر رہ گئی ۔ اس شہر میں نہ میری ماں تھی نہ باپ نہ بہن ۔ میں نے بے بسی سے  اس کی منت کی کہ میں یہاں ماں باپ کہاں سے لاؤں ؟؟  آپ کھانا نہ سہی مجھے پھل ہی لا دیں ، کوئی سنیک  لا  دیں ۔ پر  وہ  پتھر کا بن گیا خاموشی سے اٹھا اور مجھے بھوک کے حوالے کر کے چلا گیا ۔ رات اتر آئی کھانا نہ آیا ۔ رات بیت گئی پر کھانا نہ آیا ۔ مجھے بہت اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ بھوک کس بلا کا نام ہے ۔  اس کی تڑپ کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے ، اس کا درد کتنا  بے درماں ہوتا ہے ، میں نقاہت کے مارے ہلنے کے قابل بھی نہ تھی اور وہاں تو کوئی پتھر بھی نہ تھے جن کو اپنے خالی  پیٹ پر باندھ لیتی۔ میرے سارے بدن میں صرف بھوک منہ کھولے سانس لے رہی تھی ۔ میری آواز بھوک بھوک پکار کے مرجھا گئی ۔ سر بھوک سوچ سوچ کے شل ہو گیا ۔ تب سے میرے اور بھوک کے بیچ گہری محبت کا رشتہ ہے ۔ ” وہ سانس لینے کو  اک لمحہ کے لئے رکی ۔ اس کے سپاٹ چہرے پر بدستور آنسو گر رہے تھے ۔ ” وہ جو سڑک پر تم جلوس میں شامل لوگوں کے نعرے سن رہے تھے نا ان کا جنم بھی بھوک کی کوکھ سے ہوا ہے ۔ اور انسانوں کا یہ ریوڑ جو تمہارے سامنے عاجزی سے امید سے  کھڑا ہےیہ بھوک کے قہر میں مبتلا ہے ۔ ” میں دم بخود اس کو دیکھ رہا تھا ۔ سر سبز و شاداب کونپلوں بھری ڈالی سر نگوں ہو گئی تھی ۔ تتلیوں ایسے خوش رنگ سارے کے سارے اڑ گئے تھے ۔ آنکھوں کی جوت جیسے درد کا نوالہ بن گئی تھی ۔ وہ چہکتی مہکتی نگین نہیں بلکہ غم و اندوہ کا کوئی پیکر تھی ۔ آفس والی نگین کا رنگین سراپا یک دم زمین بوس ہو گیا ۔ ایکبار پھر اک ٹھنڈی لہر نے مجھے یخ کر دیا ۔” میڈم میرے ہاتھ کھانا بانٹ بانٹ کے شل ہو گئے ہیں اور میری دیگیں بھی ختم ہو گئی ہیں لیکن ان بھوکوں کی لائن نہیں ختم ہوئی ۔ دوکاندار کی آواز نے مجھے چونکا دیا ۔ ” اور یہ کبھی ختم ہو گی بھی نہیں  ۔ یہ بے انت ہے میڈم ۔” اس نے اپنا سامان سمیٹتے ہوئے کہا ۔ میں نے دیکھا انسانوں کے ریوڑ پر ابھی تک بھوک کے سائے منڈلا رہے تھے ۔ پتھر آنکھیں اسی طرح لائن میں کھڑیں کھانے کی منتظر تھیں ۔ لائن ابھی ختم نہیں ہوئی تھی ۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031