غزل ۔۔۔ تنویر قاضی
غزل
تنویر قاضی
دھمال میں خُمار سا بنا لیا
سو ہجر خوش گوار سا بنا لیا
چلی تھی گھنٹیاں بجاتی اونٹنی
نظر نے اک سوار سا بنا لیا
سمٹ رہی تھی دوریوں میں نغمگی
بد ن ترا سِتار سا بنا لیا
تیرے بغیر ایک بھیڑ لگ گئی
کہ شہر بے مہار سا بنا لیا
بنی رہی کہیں کوئی شکستگی
دماغ پر اُدھار سا بنا لیا
نہیں تھا وہ مگر رہا مکالمہ
شجر کو ہم نے یار سا بنا لیا
لِئے ہوئے تھا بھید رقصِ پینگوِن
پرند نے غُبار سا بنا لیا
سیہ غزال آتے جاتے تھے وہاں
گلی کو سوگوار سا بنا لیا
کسی کی یاد کے بنیرے چُھوٹتا
خیال نے انار سا بنا لیا
محبتوں کا کھیل اور سیڑھیاں
چڑھاؤ بھی اُتار سا بنا لیا
بنا نہ پائے لوگ کوئی راستہ
دلوں میں اک حصار سا بنا لیا
Facebook Comments Box