غزل ۔۔۔ تنویر قاضی
غزل
تنویر قاضی
ہونٹوں پر اخروٹ مَلے وہ
پوروں پوروں دیا جلے وہ
باغ اور بارہ دری الگ ہیں
مل جائیں گے رات گلے وہ
بے سمتی کے زرد سفینے
سُرخ وریدوں اور چلے وہ
سانپ اُدھر ہے بُھول نہ جانا
رات کی رانی اوٹ پلے وہ
پاؤں دھوئے جھرنا جھرنا
دل میں بن کر چاند ڈھلے وہ
اپنی اپنی پینگیں جُھولتے
آ جائیں اُس شجر تلے وہ
ایک جہاز جو ڈُوب گیا تھا
لہو سرنگ میں روز چلے وہ
دیواروں پر لکھتا ہے کچھ
لوگوں کو اب شخص کَھلے وہ
صدقہ دیں کالے ہرنوں کا
ایک بلا ہے سَر سے ٹلے وہ
کشتی اور کبوتر دیکھے
اپنی آنکھیں کبھی مَلے وہ
Facebook Comments Box