تھیٹر ۔۔۔ عارفہ شہزاد

تھیٹر

(عارفہ شہزاد)

رستخیز اورشعلہ بدن

گھنگرووں کی جنیں

یہ چھنکتی ہوئی پتلیاں

کھڑکیوں سے جو اپنی ہویدا ہوئیں

راہگیروں کی باچھیں کھلیں ،

طبلچی،فرحت انگیختہ

زور کی تھاپ دی

رات بھی کھل اٹھی

لو سرود شبانہ لگا گونجنے

نجم و ثاقب ہوئے اس گلی کے ندیم

اک ستاروں کا جھرمٹ۔۔۔سعود، آگیا

اور دلال، زینے اترنے لگے

تالیاں ،تالیاں۔۔۔۔

باعث رشک پروین،بادنسیم ، ایک طناز، گلناز

ڈھلتی ہوئی عمر کی دلربا

دعوت انگیز زلف و نین

دختر رز ہے شعلے اگلتی ہوئی

باکرہ،مومنہ ،صالحہ اور غنچہ دہن

شاہ کی اک رکھیل اور

لرزاں ہیں کوہ و دمن

تالیاں،تالیاں۔۔۔

ایک تمثیل،تمثال ،اک آئنہ

عکس کہتے ہیں

منظر گئے ہیں کہاں؟

خودکلامی ہے، کردار ہیں

بڑبڑاہٹ تماشائیوں کی ہے

پردہ گرا

تالیاں، تالیاں۔۔۔۔!

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031