اندراج ۔۔۔ محمد حامد سراج
اندراج
محمد حامد سراج
ریلوے اسٹیشن پر وہ اسے لینے آئی -ریلوے اسٹیشن کی پرشکوہ عمارت کے سامنے مڑتی تارکول کی سڑک پر جب اس نے کار بر گد کے گھنے درخت کے پاس سے دائرے میں کاٹی تو موچی پر اس کی نظر پڑی ۔ یہ کوئی اہم بات نہیں تھی ۔ ریلوے کا قلی ‘اس کی سرخ قمیض‘ پانی بھرنے والے ماشکی کی چمڑے کی مشک‘بھکاری ‘کچھ بھی اہم نہیں تھا اور اس لمحے جب وہ اپنی رو میں ریلوے اسٹیشن کے سوا ارد گرد کی ہر چیز سے بے گانہ تھی مکمل بے گانہ ‘ ٹرین آنے میں دیر تھی وہ بنچ پر بیٹھ کر اس کا انتظار کھینچنے لگی ۔ پھر بے چینی میں اٹھ کر ریلوے کے ایک سرے سے دوسرے تک ٹہلنے لگی ۔اسے ٹرین پر ضرور آنا تھا ‘ بائی روڈ آ جاتا ‘ ایک سے ایک سروس ہے جو بر وقت پہنچاتی ہے ۔ کنجوس کہیں کا ‘ کرایہ مجھ سے لے لیتا ۔ آنے دو ۔ خبر لیتی ہوں ۔ اوہو ۔۔ وہ تو ’’چھب‘‘ سے آ رہا ہے ۔ ’’ انجرا‘‘ بھی ٹرین رکی ہو گی ۔ پہاڑوں کے درمیان ایستادہ انگریزی عہد کے پرشکوہ ریلوے اسٹیشن ‘ اوہ ۔۔۔ وہاں سے تو واقعی کوئی بس سروس نہیں چلتی۔ اس کی نظر سگنل پر پڑی ۔ سگنل ڈاؤن تھا اور دور سامنے ریل دکھائی پڑتی تھی ۔عادل اس کی سگی پھوپی کا بیٹا تھا ۔ پچھلی بار جب وہ انجرہ ‘‘ سے آیا تو وہ دل میں ایک فیصلہ کر چکی تھی۔ عادل میں ایسی کوئی بات نہ تھی جو اس ایسی لڑکی کو اپنی جانب کھینچ لیتی اس سے ایک دو ایسی باتیں سرزد ہو گٗیں کہ وہ خود حیرت زدہ رہ گئی کہ یہ کیا ہوا ۔ اس دوپہر اس نے جینز کی پینٹ پر سبز کرتا پہنا ہوا تھا اور بستر پر دراز تھی۔ کمرے میں اور کوئی نہیں تھا۔عادل کنگھی کی تلاش میں ڈریسنگ ٹیبل تک آیا اور آہستہ خرامی سے کہ ثوبیہ کی آنکھ نہ کھل جائے لیکن اس وقت وہ بھونچکا رہ گیا جب وہ سرعت سے اٹھی اور اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر اس کے ہونٹ چوم لئے اور اسی سرعت کے ساتھ بستر پر لیٹ گئی ۔ وہ ایک لمس اسے بہا لے گیا ۔ اسے کنگھی تو کیا اپنے بال سنوارنا بھی یاد نہ رہے ۔ بس دل تھا کہ قابو سے باہر ۔ دھک دھک دھک ۔۔۔ عجیب لڑکی ہے ۔ کوئی دیکھ لیتا تو قیامت آ جاتی۔ ساری زندگی کی عزت مٹی میں مل جاتی ۔ ماموں دیکھ لیتے ممانی ‘ اف ۔۔ میرے خدا ‘یہ جینز پہننے والی لڑکیاں اتنی بے باک ۔ ۔۔! لیکن اس بے باک ابھرتی ‘کناروں تک اچھلتی جوانی نے اسے اندر باہر سے ہلا کر رکھ دیا ۔ ذائقہ اپنے نقوش چھوڑ گیا ۔ وہ رات میں اپنے بستر پر لیٹی تو اس کے بدن میں درد کروٹیں لے رہا تھا ۔ میٹھا میٹھا سا ‘ اس نے موبائل آن کیا ۔ نیوڈویب سائٹ کھولی اور لطف اندوز ہونے لگی ۔ اور خود کلامی میں کھو گئی ۔ یہ جو میرا کزن ’’انجرہ‘‘ سے آیا ہے ۔ پینڈو سا ہے ۔ اس کے ساتھ سیکس انجوائے کیا جا سکتا ہے ۔ کیا یاد کرے گا ۔ ایک زمانہ تھا لڑکے لڑکیوں کے پیچھے پھرا کرتے تھے اب ہمارا دور ہے ۔ واؤ۔ محبت وحبت کا کیا روگ پالنا ۔ انجوائے کیا اور آگے چل دیے ۔ اور اسی رات اس نے’’ موقع‘‘ پکڑا اور اس کے کونے میں عادل کو باندھ کر اسے اپنے بدن کے نشیب وفراز کی قوسیں شمار کرنے دیں ۔ اور آج وہ پھر اس کا انتظار کر رہی تھی ۔ کیوں کہ پچھلے برس کی ملاقات میں قوس ٹوٹنے سے بچ گئی ۔ اس نے اسے اپنی محبت کا مکمل یقین دلایا ۔ عادل حیران اور خوش تھا کہ کیا اسے بھی اتنا ٹوٹ کے چاہا جا سکتا ہےوہ ٹرین سے اترا تو وہ سرشار ہو گئی ۔ اسے اپنی چھوٹی سی کار میں بٹھا یا ۔ گیئر لگاتے ہوئے اس کی ٹانگ پر چٹکی لی ۔۔۔پھپھو کو بھی ساتھ لے آتے نا ۔۔۔۔ان کے گٹھنوں میں درد رہنے لگا ہے اب وہ سفر سے گھبراتی ہیں اور تم مجھ سے کیوں گھبراتے ہو ۔۔۔ کھا جاؤں گی کیا ۔ محبت کی ہے تم سے عادل صاحب ۔۔۔ آئی سمجھ ۔۔۔ !ہاں۔۔ کچھ کچھ آ رہی ہے ۔۔۔ بس یار ہم ایک شہر میں ہوتے تو مزہ آ جاتا ۔۔۔!تو آ جاؤ ۔۔۔ نا ۔۔ روکا کس نے ہے۔۔۔؟ممکن نہیں نا ۔۔۔ ثوبیہ بی بی ۔۔۔ بابا کے بعد گھر کا بوجھ میرے کندھوں پر ہے ۔۔۔ اچھا چھوڑو ۔۔۔ دیکھنا کوئی موچی نظر آئے تو گاڑی روکنا ۔کیوں ۔۔ خیریت۔۔۔؟میری جوتی ٹوٹ گئی ہے ۔ مرمت کرا لوں ۔۔۔اف خدایا ۔۔۔ اتنے غریب تو نہیں ہو ۔لیکن اتنا امیر بھی نہیں ہوں ۔۔۔’’میں تمہیں نئی جوتی لے دیتی ہوں ۔ اعلی برانڈ کی ۔۔‘‘’’مجھے فضول خرچی پسند نہیں‘‘’’اب کی بار تو ضرور لے کے دوں گی ۔ آخر تم میری پھوپی کے بیٹے ہو اور غلطی سے میں تمہاری محبت میں بھی مبتلا ہو گئی ہوں ۔‘‘’’وہ بعد کی بات ہے ابھی موچی ضروری ہے‘‘’’برگدکے نیچے ایک موچی نظر پڑا ہے مجھے ۔۔۔ اس نے بریک پر پاوں رکھا ۔ وہ سامنے ۔۔۔‘‘’’تم بیٹھو میں جوتی مرمت کرا کے آیا‘‘’’مہمان ہو میرے ۔۔۔ میں مرمت کرا لاتی ہوں نا ۔۔۔‘‘’’ہم پینڈو لوگ ہیں ۔ عورتوں سے جوتی مرمت کرانا معیوب سمجھتے ہیں ‘‘’’لیکن عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں‘‘’’یہ ۔۔۔ یہ ۔۔ کیا بات ہوئی ۔۔۔؟‘‘’’مذاق کر رہی ہوں ۔۔ نا ۔۔ جنرل بات کی ہے تمہاری نہیں‘‘گھر داخل ہونے پر سب اسے پرتپاک انداز میں ملے اس نے سامان کھولا اس میں سے گاؤں سے لائے گئے تحائف نکالے ۔ نفیسہ کے لئے رنگین پراندہ‘ گھر والوں کے لئے میٹھی پنجیری کے سموسے ‘ ماموں کے لئے ململ کا کرتہ اور لٹھے کی شلوار ۔۔۔۔!بابا ۔۔۔ ابھی ہمارے گاؤں زندہ ہیں ۔ شہروں میں تو انسان معدوم ہو گئے ہیں ۔ ثوبیہ کے بھائی نے کہا ’’زیادہ فلاسفر بننے کی ضرورت نہیں ہے ‘‘ ثوبیہ بولی رات کے کھانے کے بعد وہ عادل کو گھمانے پھرانے کے لئے نکلی ۔ تیز روشنیوں کے درمیان اس نے ایک مارکیٹ کی پارکنگ میں کار پارک کی ۔ اورا سے ساتھ لے کر ایک ’’شوسٹور‘‘ میں داخل ہوئی ۔’’سنو ۔۔۔ اتنی سمجھ مجھے بھی ہے ۔ اس برانڈ کے جوتے بہت مہنگے ہیں ۔ چھوڑو ‘یہ اسراف ہے۔‘‘’’ یہ کوئی اسراف نہیں ۔ بس میں اپنی پسند کی جوتی لے کر دے رہی ہوں اور تم نے پہننا ہے‘‘’’ظاہر ہے جوتا پہنا ہی جاتا ہے ‘‘رات گئے تک گھومنے کے بعد وہ واپس لوٹ رہے تھے تو ثوپیہ نے کہا ۔’’رات میں ہمت کر کے تمہارے بستر تک آ جاوں گی ۔ ڈر کے چیخ نہ پڑنا ‘‘’’اتنا بزدل بھی نہیں ہوں لیکن ۔۔۔۔‘‘’’یہ ’’لیکن‘‘ ہی تو بزدلی کی علامت ہے اور عورت کبھی بزدل مرد کو پسند نہیں کرتی ‘‘’’یار ۔۔۔ تیری میری شادی نہیں ہو سکتی ۔۔۔؟ سارے دھڑکے ختم ‘‘’’اب بھی کون سا دھڑکا ہے ۔۔۔ مجھے بیوی سمجھ لینا ‘‘’’ہونے اور سمجھنے میں بڑا فرق ہے ‘‘رات سرک رہی تھی ۔ وہ بھی سرکتے سرکتے عادل کے پہلو سے جا لگی ‘مکمل قدرتی لباس میں ۔قوس دائرے ‘ زاویے‘ نشیب وفراز کا نرم لمس ۔۔ابھی قوس ٹوٹی نہیں تھی کہ گھنٹی بجنے پر وہ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اپنے کمرے کے باتھ روم میں تھی ۔ جانے کوئی جاں بلب مریض تھا یا کون تھا کیوں کہ اس کا باپ ڈاکٹر تھا لیکن اس کی رات کا حسن غارت کر گیا ۔ موبائل سکرین کے سارے رنگین منظر ٹوٹ گئے ۔ وہ بھوکی شیرنی کی طرح ایک بار پھر اٹھی لیکن خوف نے اسے جکڑ لیا ۔ باپ کی عزت اور اس کے اندر کا حیوان دست وگریباں ہو گئے ۔ حیوان دانت نکوستا عادل کے دروازے تک آیا لیکن اندر سے کنڈی تھی ۔ پلٹ کر وہ باتھ روم میں آئی اور فل شاور کھول دیا ۔ اپنے ہی حیوان کے ہاتھوں پٹتی رہی اپنا بدن ادھیڑتی رہی ۔ تیز گرم سانسوں کے درمیان وہ آہستہ آہستہ سرد پڑ گئی ۔ صبح ناشتے کے بعد عادل نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا ۔ اس کی اچانک واپسی پر اس کے ماموں نے حیران ہو کر پوچھا ’’خیریت ۔۔۔ بیٹا ۔۔۔؟‘‘جی ماموں ۔۔۔ کئی کام ادھورے چھوڑ آیا ہوں ۔ اس کے اندر ایک جنگ جاری تھی ۔ وہ ہار جیت کے فیصلے کا انتظار نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ اسے ’’انجرہ‘‘ کھینچ رہا تھا ۔ کیوں ۔۔۔۔۔؟اسے خود معلوم نہیں تھا ۔ وہ اڑ کر اپنے گاؤں پہنچنا چاہتا تھا ۔ اپنے گاؤں ‘اپنی پناہ گاہ‘اپنے گھر‘وہ سچ مچ ڈرگیا تھا ۔ اس نے ٹرین پکڑی اور گھر کی راہ لی ۔ دریائے سواں سے جب ٹرین گزری تو اس نے قیمتی برانڈ کا جوتا دریا میں پھینک دیاوہ انجرہ اسٹیشن پر اترا تو شام اتر رہی تھی ۔ وہ پہاڑی پگڈنڈی پر خراماں خراماں ٹہلتا گھر پہچا ۔ رات میں مکمل اور بھر پور نیند لی ۔ دیواروں پر دھوپ نکھری تھی ۔ وہ گھر سے نکلنے لگا تو اس کی ماں نے اسے پکارا ’’بیٹا ۔۔۔ میری بات سنتے جاؤ‘‘’’جی ۔۔۔ماں‘‘’’میں نے تمہارے ماموں سے بات کی تھی رشتے کی نفیسہ کے لئے ۔۔۔‘‘’’جی …….‘‘’’میں سوچ رہی ہوں …… ہمت کر کے خود جاؤں اور رشتہ طے کر آوں‘‘’’لیکن ماں……؟‘‘’’لیکن کیا ‘ بس میرا فیصلہ ہے ….‘‘’’ماں …….. میں آپ کے سامنے سر اٹھا سکتا ہوں اور نہ بے ادبی کا سوچا ہے کبھی لیکن میں نفیسہ سے شادی نہیں کر سکتا‘‘’’ کیا کمی ہے اس میں ……؟خوبصورت ہے ‘ یہ لمبا قد‘ تعلیم یافتہ‘ نیک ‘ سلجھی ہوئی‘اس کے ماں باپ نے کون سی کمی چھوڑی ہے اس کی تربیت میں ۔۔۔!‘‘’’ماں ……نہیں نا ………!‘‘آپ مجھے سمجھنے کی کوشش کریں ’’بس بس ۔۔۔ زیادہ باتیں نہ بنا …….‘‘’’میں دریائے سواں میں ڈوب مروں گا جو آپ نے مجبور کیا‘‘’’ہائے ہائے ……. اللہ نہ کرے … ایسی باتیں تو نہ کر میرا بیٹا ۔۔۔۔چل وجہ ہی بتا دے ‘‘’’ بس کہہ دیا ناں ماں ۔۔۔ مجھے شادی نہیں کرنی ‘‘وہ چپ چاپ گھر سے نکلا ‘ پہاڑی پگڈنڈیاں ماپتے ایک ویران سی پہاڑی پر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا ۔ اس نے اپنے سامنے پھیلے ان گنت سوالوں کے گنجل کھولنے کی کوشش کی لیکن تھک ہار کے بیٹھ رہا ۔ نفیسہ کے ساتھ سارے منظر اسے عذاب دینے لگے ۔ وہ ماں سے بھی کچھ کہنے کی حالت میں نہیں تھا ۔ اس کے اندر ایک ہی وقت میں کئی بے لباس عذاب گھوم رہے تھے۔ شہر سے واپسی پر اس کا موبائل غلطی سے نفیسہ کے موبائل کے ساتھ تبدیل ہو گیا ۔ماڈل اور برانڈ ایک ہونے کی وجہ سے ….. ! اس نے ویڈیو کلپ کھولے تو اس کا سر چکرانے لگا نفیسہ کے نیوڈ کلپ دیکھ کر ‘ جو مختلف لڑکوں کے ساتھ تھے ….؟؟؟اس کے بعد قصہ گو کا کہنا ہے نہیں معلوم انجرا ‘‘ میں وہ درخت ہے کہ نہیں ۔ وہ نوجوان کہاں چلا گیا ۔۔۔۔؟ کیا وہ گھر واپس لوٹا ۔۔۔؟ ’’ اس کے بعدتاریخ میں’’ تہذیب ‘‘کے نام ونشان کاکہیں اندراج نہیں ملتا ‘‘