
غزل ۔۔۔ شکیب جلالی
غزل
( شکیب جلالی )
موج غم اس لیے شاید نہیں گزری سر سے
میں جو ڈوبا تو نہ ابھروں گا کبھی ساگر سے
اور دنیا سے بھلائی کا صلہ کیا ملتا
آیئنہ میں نے دکھایا تھا کہ پتھر برسے
کتنی گم سم میرے آنگن سے صبا گزری ہے
اک شرر بھی نہ اڑا روح کی خاکستر سے
پیار کی جوت سے گھر گھر ہے چراغاں ورنہ
ایک شمع بھی نہ روشن ہو ہوا کے ڈر سے
اڑتے بادل کے تعاقب میں پھرو گے کب تک
Popular Stories Right now
درد کی دھوپ میں نکلا نہیں کرتے گھر سے
طعنے اغیار سنیں آپ خموشی سے شکیب
خود پلٹ جاتی ہے ٹکرا کے صدا پتھر سے
Facebook Comments Box