ہم دو تھے ۔۔۔ وجاہت مسعود
ہم دو تھے
وجاہت مسعود
اور ہمارے بہت سے خواب تھے
سچ پوچھو تو
ہم بہت سے لوگ تھے
اور ہم جینا چاہتے تھے
ہم شراب پینے کی تہذیب نہیں جانتے تھے
ہم محبت کی ابجد سے ناآشنا تھے
ہم نے بدن کی اٹلس نہیں خریدی
ہمارا لینڈ سکیپ ادھورا تھا
پہاڑوں میں رنگ بھرنے والی پنسل
معلوم نہیں ہمارے بستے سے کب گری
اور ندی نالوں سے پانی نکالنے کا برش
پڑے پڑے سوکھ گیا
ہم روایت کی ٹکٹکی پر بندھے
بالشتیے
کمیونسٹ منشور ہمارے ہاتھوں پہ
ایگزیما کی طرح دکھ دیتا تھا
ہمیں نیکی کا مالیخولیا تھا
گناہ ہمارے ساتھ چلتا تھا
سوزاک کے خوف کی طرح
ہم متوسط طبقے کی ذہنیت کے ساتھ
بڑے پن کا جھنڈا اٹھائے تھے
وقت کا تھوک
ہمارے پرچم پر ٹک گیا ہے
ہم ہنسنا نہیں جانتے تھے
ہم نے کبھی پورے وجود سے
ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
کسی کو نہیں چوما
ہمیں خود سے محبت کرنے والوں کے پسینے سے
گھن آتی تھی
ہم نے پورے سورج کی دھوپ نہیں دیکھی
بارش میں نہانا اور
ساحل پہ پرندوں کی طرح اڑنا
لہروں کے سنگ
دوسروں کے ننگے پنڈوں سے بے نیاز
محبت کی قربت سے
زیر جلد تھرتھراہٹ محسوس کرنا
ہمیں اس کی اجازت نہیں مل سکی
اور ہم اجازت کے بغیر
جینے کے ڈھنگ سے ناآشنا رہے
ہم بلب بجھا کے
ننگے ہوتے تھے
اور عجلت میں بچے پیدا کرنا چاہتے تھے
بغیر یہ جانے کہ نیکی کیا ہے
ہم دن بھر اپنے بدن سے
وہ گناہ دھوتے تھے
جو ہم نے کبھی نہیں کیے
پارسائی اور دانش کی چیٹک میں
ہم ان کتابوں کے نام
اور صفحے دہراتے تھے
جو ہم نے کبھی نہیں پڑھیں
ہمیں لذت سے جھجھک تھی
ہمیں ایک دوسرے میں سمو جانے کی کپکپاہٹ سے
خوف آتا تھا
ہم عورت ہونے پر شرمندہ
اور نامرد ہونے سے ڈرتے تھے
مڑ کر دیکھنے میں
اب کوئی حیرت نہیں ہوتی
کہ ہماری شاعری میں بہت سی تلچھٹ
ہماری سیاست میں بہت الجھاﺅ
اور ہماری زندگیوں میں بہت سا دکھ تھا