یہ جو تم مجھ سے گریزاں ہو ۔۔۔ زہرا نگاہ
نظم
زہرا نگاہ
یہ جو تم مجھ سے گریزاں ھو ، میری بات سنو
ھم اِسی چھوٹی سی دنیا کے ، کسی رَستے پر
اتفاقاً ، کبھی بُھولے سے ، کہیں مل جائیں
کیا ھی اچھا ھو کہ ، ھم دوسرے لوگوں کی طرح
کچھ تکلف سے سہی ، ٹہر کہ کچھ بات کریں
اور اِس عرصۂ اخلاق و مروت میں ، کبھی
ایک پل کے لیئے ، وہ ساعتِ نازک ، آ جائے
ناخنِ لفظ ، کسی یاد کے زخموں کو چُھوئے
ایک جھجھکتا ھُوا جملہ ، کوئی دُکھ دے جائے
کون جانے گا ؟ کہ ھم دونوں پہ ، کیا بیتی ھے ؟
یہ جو تم مجھ سے گریزاں ھو ، میری بات سنو
اِس خامشی کے اندھیروں سے ، نکل آئیں ، چلو
کسی سلگتے ھُوئے لہجے سے ، چراغاں کر لیں
چن لیں پھولوں کی طرح ، ھم بھی متاعِ الفاظ
اپنے اُجڑے ھُوئے دامن کو ، گلستاں کر لیں
یہ جو تم مجھ سے گریزاں ھو ، میری بات سنو
دولتِ درد بڑی چیز ھے ، اقرار کرو
نعمتِ غم ، بڑی نعمت ھے ، یہ اِظہار کرو
لفظ ، پیماں بھی ، اِقرار بھی ، اظہار بھی ھیں
طاقتِ صبر اگر ھو تو ، یہ غم خوار بھی ھیں
ھاتھ خالی ھوں تو ، یہ جنسِ گراں بار بھی ھیں
پاس کوئی بھی نہ ھو پھر تو ، یہ دلدار بھی ھیں
یہ جو تم مجھ سے گریزاں ھو ، میری بات سنو
”زھرہ نگاہ“