پندرہ نمبر کے دس روپے

    ‘پندرہ نمبر کے دس روپے’

زیب اذکار حسین

سچ تو یہ ہے کہ یہ اصحاب_کہف کے کتے کا قصہ تو تھا نہیں کہ کئی زمانوں پر محیط ہو جاتا۔ اس کی طوالت تو دس روپے کی دستیابی تک تھی۔

ابراہیم ایک دن خاموشی سے آیا تھا، اس ہوٹل کے کاؤنٹر تک۔ اس نے تیز نظروں سے  مینیجر کو گھورا تھا۔ مینجر نے ابراہیم کو پہچانتے ہوۓ اصرار کیا تھا کہ وہ ریسپشن کے سیدھے ہاتھ پر رکھی بہت ہی بوسیدہ مگر بظاہر أرام دہ کرسی پر تشریف رکھیں۔

 اس نے شاید یہ تک کہہ دیا تھا کہ آپ اتنے بڑے رایٔٹر ہیں، اتنے بڑے جرنلسٹ ہیں، أپ نے کیوں زحمت کی یہاں تک آنے کی، مجھے روم میں بلوا لیا ہوتا

ابراہیم نے جیسے مینیجر کی بات نظر انداز کر دی تھی اور قدرے تیز لہجے میں کہا تھا، “میں وہ نہیں ہوں جو أپ سمجھ رہے ہیں، خیر

جانے دیجے جناب مجھے اس حلال زادے سے ملوا دیجے جو اوروں کو حرام موت مرنے پر مجبور کرتا رہتا ہے”

اس سے پہلے کہ مینجر کچھ سمجھتا اور اس کی أنکھیں حیرت سے قدرے پھیلتیں، ابراہیم کی اپنی آواز جیسے رندھ سی گیئ تھی اور وہ ہکلاتے ہوۓ کچھ بے معنی سے الفاظ ادا کرنے لگا تھا۔

  مینیجر اس نئی افتاد کے لیۓ تیار نہیں تھا۔ وہ اچھل پڑا

“کیا ہوا ابراہیم صاحب”

 حیرت ہے اس مینیجر کی آواز قدرے خوشگوار حیرت کیوں لیۓ ہوۓ تھی؟

ابراہیم نے اپنی گفتگو سے خبیث اور واہیات جیسے الفاظ منہا کرتے ہوےجیسے کہا تھا

“نہ تو خبیث، نہ واہیات، پھر خبطی کہہ کر دل کا بہلانا چہ معنی دارد”

پھر گویا وہ یوں گویا ہوا

“میں نے خود سنا تھا جب  وہ مجھے چالاک قرار دے رہا تھا محض دس روپے کی عدمدستیابی کی بدولت۔۔۔، تو یہ دولت ہے کیا؟ میرا ایک واقف کار جسے میں دوست بھی کہنے سے ہچکچاتا ہوں، جب میرے کہنے پر متعلقہ مستحقین کے لیۓ مکان بنوا کر دینے کا وعدہ کر سکتا ہے اور قرضہحسنہ بانٹنے کی بشارتیں کھلے دل سے دے سکتا ہے تو وہ میرے لیےکیا کچھ نہیں کر سکتا ہے؟

مینجر اثبات میں سر ہلاتا ہے مگر اس کے چہرے پر جیسے ایک تمسخر کا رنگ سا نمایاں ہے۔

ابراہیم ابھی تک جیسے کچھ کہہ رہا ہے۔ شاید وہ کہہ رہا ہے

“میں ہیبت اور ہیت کذائ جیسے الفاظ استعمال کرنا چاہوں تو بھی نہیں کر سکتا۔۔”

مینجر کچھ سمجھا ہے اور کچھ  نہیں سمجھ پایا ہے

ابراہیم کے بار بار اس سیٹھ کے بارے میں پوچھنے پر کہ جو کسی بے گناہ کی موت کا سبب بنا تھا، مینیجر نے کہا تھا وہ نہیں آئیں گے آج۔۔ مگر ابراہیم اس کی بات پر توجہ ہی نہیں دے رہا تھا

وہ بلا وجہ ٹہلنے لگتا تھا۔ وہ بار بار کاؤنٹر پر آتا اور اس سیٹھ کا پوچھتا، جس نے ایک خودکشی کے سزاوار کو محض دس روپے کی عدم ادائیگی کے سبب اس شہر، جسے کراچی کہتے ہیں، دھول چاٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔

 ابراہیم پر جیسے کوئ بھوت سوار تھا، وہ جیب سے دس، دس کے پانچ نوٹ نکال کر مینیجر کی آنکھوں کی سامنے  نچانے لگتا۔ یہ حرکت اس نے شاید چار مرتبہ کی تھی۔

 وہ شاید تہیہ کیے ہوۓ تھا کہ وہ اپنے دوست کا قرض اس سیٹھ کے سامنے ہی ادا کرے گا، جس نے مینیجر کو کوسا تھا اور اس کے معصوم دوست نے سن لیا تھا اور پھر اتنا دل برداشتہ ہوا کہ خودکشی ہی کر لی۔

یہ مینیجر ہی تھا جس نے سیٹھ کو اس کے دوست کے خلاف  اکسایا تھا کہ سیٹھ نے اسے ہدایت کر دی کہ وہ أیندہ اس کا بلکل لحاظ نہیں کرے گا اور اگر اس نے دس روپے وصول نہ کیۓ تو اس (مینیجر) کی خیر نہیں ہے

گویا اب اس ادایئگی کے بغیر اسے ہوٹل میں سر چھپانے اور کچھ بھی کھانے، پینے کی سہولت حاصل نہیں رہے گی۔

اسے اس روز کا واقعہ یاد آگیا تھا شاید جب وہ اپنے أپ کے ساتھ گھنٹوں مٹر گشت رہا تھا۔ اس کا یہ دوسرا أپنا أپ اسے کسی.  کل چین نہیں لینے دیتا تھا۔ وہ اسی بے سہارا پہلو کے ساتھ پیر الہئ بخش کالونی تک آ گیا تھا۔

جپ وہ  ابنے ایک دوست کے گھر تک پہنچ گیا تھا، تو اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا، تاکہ اس کی پریشانی بیان کر سکے، مگر وہ وہاں تھا ہی کب؟

۔ اپنے ساتھ وہ دوسرا خود ہی نکلا۔ اب اس کا سارا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ وہ اپنی بارے میں بات کرنے سے ویسے بھی ہچکچاتا تھا۔

اس کا یہ عجیب پہلو تھا کہ ذرا میں یہ دوست بن کر سامنے آ جاتا اور اسی پر طنز کے نشتر چلانے لگتا اور دوسرے لمحے جب کوئ روبرو ہوتا تو چھلاوے کی طرح غأٔیٔب ہو جاتا۔ گویا لوگوں سے مکالمے کے لیۓ ابراہیم اکیلا ہی رہ جاتا۔ اور ابراہیم۔۔۔ وہ تو اپنے بارے میں سنجیدہ بات کرنے کا کبھی روادار ہی نہ ہوا تھا۔ وہ بس خود پر ہی ہنس سکتا تھا۔۔۔

کراچی پریس کلب اب تو اس کا اکلوتا ٹھکانہ رہ گیا تھا۔ یہاں پر ایک ریٹایٔرنگ روم کیا تعمیر ہوا، ابراہیم اور اس کے ہمنوا دوستوں کی تو جیسے عید ہو گئ تھی۔ وہیں سے کبھی کبھی تو خبریں اور اپنے تازہ وارد کالم بھی کسی ساتھی کے ہاتھ اس اخبار کو روانہ کر دیۓ جاتے، جس اخبار سے ابراہیم کی ان دنوں وابستگی تھی۔

۔ اب وہ اکثر اپنی شامیں وہیں گزارنے لگا تھا۔ اسے نہ جانے کیوں اپنے بہت قریبی دوستوں سے اپنے دل کی بات کہتے ہوۓ جھجک محسوس ہوتی تھی۔ دوست، احباب گھنٹوں اس کے ساتھ رہتے، مگر کسی کو رہایٔش اور خوراک کی دفعتأ کمیابی کے بارے میں کپھی بتا نہ پایا تھا۔

 وہ تو خود قریبی دوستوں کے معاملات درست کرنے کرانے میں پیس پیش رہتا تھا، تو اتنی چھوٹی بات کیسے کسی سے شیئر کر سکتا تھا۔ ایسی ہی کمزوریوں پر تو اس کا وہ پہلوٹی کا دوست خودکشی کرنے کا مرتکب ہوا تھا۔

اسے غالبأ اپنے اس پہلوٹی کے جہنمی دوست کا وہ جملہ کچوکے لگاتا رہتا تھا، جو اس نے بوقت_ رخصت ادا کیا تھا۔

” تو ضرورت کے وقت کسی کے کام نہیں آسکتا ہے، اپنے بھی نہیں۔۔۔”

 اس نے برے حالات میں زندہ رہنے کے بجاۓ موت کو ترجیح دی تھی۔

وہ خود سے بڑبڑاتا

” تو کبھی خوشی سے نہیں مرے گا۔۔۔

” میں اپنی دوزخ ساتھ لیۓ پھرتا ہوں، جب چاہتا ہوں، اپنے سیدھے سادے خود کشی کے مرتکب ساتھی کو دیکھ تو لیتا ہوں”

سیٹھ اس روز غائب تھا۔ مینیجر نے بتایا کہ وہ اپنے نیے کاروبار کی وسعت کی خاطر دس دنوں کے لیے

 کراچی سے باہر گیا ہوا ہے۔

ابراہیم نوٹ واپس جیب میں رکھنے ہی والا تھا کہ اسے لگا ایک نوٹ اس کے ہاتھوں سے پھسل کر کاننٹر پر بیٹھے مینجر کے پاس پہنچ گیا ہے۔ ابراہیم  نے بھی مزاحمت کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ یوں لگا وہ پھر بڑبڑایا ہے

 “خس کم، جہاں پاک”

میں جب اس ہوٹل میں ٹہرنے کو آیا تو وجہ شہر کے بگڑے حالات تھے۔

ہوٹل میٹروپول تو کب کا بند ہو چکا تھا۔ کہا جاتا ہے، ایک غیر ملکی صحافی ڈینٔیل پرل اسی ہوٹل سے اغوا ہوا تھا، جسے بعد میں مبینہ طور پر کچھ انتہا پسندوں نے مذہب کے نام پر قتل کر دیا تھا۔ 

اس روز میں اس سیٹھ کو اور اس کے مینیجر کو پہچاننے کی ناکام سعی کرتا رہا تھا۔ ظاہر ہے نتیجہ وہی تھا، وہ وہاں تھے ہی کب؟

میں نہیں پہچان سکا تھا!!!!

شاید اب اس ہوٹل کا مالک ہی تبدیل ہو چکا تھا۔ اب مینیجر کوئ اور تھا۔۔

مہنگائ نے تو خیر، بقول شخصے، لوگوں کی کمرتوڑ ہی دی تھی، البتہ یہ جو أۓ روز، ٹاگٹڈ کلنگز اور اس پر مستزاد ہوائ فائرنگ.

 ان واقعات میں کتنے معصوم اور بے گناہ لوگ قتل ہو رہے تھے، اس کا تو کوئ حساب ہی نہیں رکھتا تھا اور نہ کہیں کوئ جواب دہ دکھائ دیتا تھا۔

کاروبار زندگی پھر بھی چل رہا تھا۔ خبریں بن رہی تھیں، کالم لکھے جا رہے تھے، شام کے اخبارات اور صبح کے اخبارات معمول کے مطابق اپنے اپنے اوقات کے اعتبار سے شہریوں تک پہنچاۓ بھی جا رہے تھے۔

ورکنگ جرنلسٹس یعنی عامل صحافی، خواہ انگریزی اخبارات کا حصہ تھے، یا اردو اخبارات کے ساتھ وابسطہ تھے، معمول کے مطابق اپنے دفاتر میں پہنچ کر اپنی اپنی ذمہ داریوں کی”ڈیڈلائن” کو ملحوظ_خاطر رکھ کر کام میں جٹے رہتے تھے۔

ان دنوں کسی نہ کسی سیاسی مسٔلے پر اچانک “مکمل ہڑتال”  کا اعلان کر دیا جاتا۔

ان حالات میں بعض اخبارات کی انتظامیہ اپنے ادارے کے صحافیوں اور کارکنوں کے ٹہرنے کا انتظام مقامی ہوٹلوں میں کرنے پر مجبور ہو جاتی تھی

 کبھی کبھی ان ہوٹلوں، جیسے ‘ساراوان’ اور ‘کراؤن پلازہ’ وغیرہ، میں اگر کوئ کمرہ خالی نہ ملتا، تو بعضے صحافی کراچی پریس کلب چل دیتے تھے۔ وہ وہاں پر خبریں (ٹی۔وی’ پر) دیکھتے اور ایک دوسرے سے خبروں پر تبادلہ_ خیال بھی کرتے رہتے۔

ایسی ہی ایک رات مجھے پھی کراچی پریس کلب کے ابراہیم جلیس ہال میں گزارنا پڑی تھی۔ اس ہال میں ابراہیم جلیس کا ایک پورٹریٹ أویزاں ہے۔ ابراہیم جلیس کا مسکراتا ہوا یہ پورٹریٹ، میدان_ صحافت کے نو واردان کو خاصا متاثر کرتا ہے، اور وہ سینٔیر صحافیوں سے ابراہیم حلیس کی ادبی اور  صحافتی خدمات کے بارے میں۔دریافت کرتے دکھائ دیتے ہیں۔ کوئ انہیں چالیس کروڑ بھکاری کے بارے میں بتاتا ہے، تو کوئ ‘جیل کے دن، جیل کی راتیں’ کا حوالہ دیتا ہے اور کوئ ان کے جاندار کالموں  پر بات کرتا ہے۔

اس رات مجھے یوں لگا جیسے ابراہیم جلیس کا یہ پورٹریٹ اپنے چہرے پر مخصوص مسکراہٹ سجاۓ مجھی سے مخاطب ہے

“ہاں بھئی کچھ پتہ چلا تھا اس خودکشی کرنے والے میرے واقف کار کا”۔۔۔۔

(زیب اذکار حسین)

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930