بوجھ ۔۔۔ آفتاب اشرف
بوجھ
آفتاب اشرف
وہ دسمبر کی ایک یخ بستہ صبح تھی۔ شہر کے ایک نواحی دیہات میں کسانوں کی ٹولیاں چادریں لپیٹے اپنے کھیتوں کی طرف جا رہیں تھیں کہ انہیں دھند میں کچھ غیر مانوس سی آوازیں سنائی دیں۔ بڑی گاڑیوں کا شور، بوٹوں کی چاپ اور اونچے کرخت لہجے میں ہونے والی گفتگو۔ بیچارے دہقانوں کے دل دھک سے رہ گئے۔ وہ سب جانتے تھے کہ یہ دن آنے والا ہے لیکن انہوں نے شاید کسی غیبی امداد کی آس میں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھیں تھیں۔ لیکن اب آنکھیں کھولنے کا وقت آ چکا تھا۔ وہ سرپٹ گاؤں کی طرف واپس دوڑے۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر گاؤں کے ہر گھر میں پہنچ چکی تھی۔کچی گلیوں میں ایک شور سا برپا ہو گیا۔
’’وہ آ گئے ہیں۔۔بہت سارے آدمی ہیں،پولیس کی نفری بھی ہے ان کے ساتھ۔۔‘‘
’’تین بلڈوزر بھی لائے ہیں ۔۔‘‘
’’کلاشنیں ہیں ان کے پاس۔۔ کم سے کم تین سو مسلح بندے ہوں گے پولیس ڈال کے۔۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔۔‘‘
’’کسی کو شہر بھیجو۔۔ کوئی اخبار والوں کو جا کر بتائے۔کمشنر صاحب کو بھی درخواست دی تھی۔ پتہ نہیں اس کا کیا بنا۔ایسا ظلم تو کہیں نہیں دیکھا۔۔‘‘
’’ان سب باتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔کسی نے نہیں آنا ہماری مدد کو۔اپنے ڈھور ڈنگر پکڑو اور یہاں سے نکلو۔ کم سے کم جان تو بچ جائے گی۔‘‘
’’نہ آئے کوئی ہمارے لئے۔۔لیکن ہم اپنی زمینیں اور گھر بار نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارے پرکھوں کی قبریں ہیں ادھر۔ہم بھی ادھر ہی دفن ہوں گے۔۔‘‘
’’صحیح کہہ رہا ہے یہ۔۔‘‘
’’حق سچ کی بات ہے ۔۔‘‘
’’جو کچھ ہے گھروں میں ،لے آؤ۔۔ منٹ مارو۔ چھرا،ٹوکہ،ایک نالی،دو نالی سب۔۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ملک صاحب صبح کی نماز پڑھ چکے ہیں۔ بس تھوڑی ہی دیر میں واک کے لئے نکلیں گے۔آپ گارڈز کو خبر دار کر دیں۔‘‘ ملک اخترحسن کے ملازم خاص فضل دین نے ان کے پی اے کو سرگوشی میں اطلاع دی۔پی اے نے انٹرکام اٹھایا اور فوراً اختر منزل کے سکیورٹی انچارج کو مطلع کیا۔چند ہی منٹوں میں سیاہ وردیوں میں ملبوس درجنوں چاق وچوبند باڈی گارڈز نے محل نما رہائش گاہ سے ملحقہ ایکڑوں میں پھیلے باغ میں پوزیشن سنبھال لی۔ محل کا سونے کے کام سے مزین مرکزی دروازہ کھلا اور ملک صاحب کا ہشاش بشاش گول چہرہ لئے نمودار ہوا۔ وہ ساٹھ کے پیٹے میں تھے۔ قد درمیانہ،رنگت سرخی مائل گندمی،قدرے فربہ جسم اور بچوں کی طرح ملائم جلد۔ انہیں آتا دیکھ کر دروازے کے ساتھ ایستادہ کھڑے سکیورٹی انچارج اور پی اے کی کمریں تھوڑی اور سیدھی ہو گئیں۔
’’گڈ مارننگ سر۔۔‘‘پی اے اور انچارج نے یک آواز ہو کر کہا۔
’’وعلیکم السلام۔۔ٹھیک ٹھاک ہو تم سب۔‘‘ملک صاحب نے بارعب مشفقانہ لہجے میں پوچھا۔ اپنے خاندان کے علاوہ اس لہجے میں وہ صرف اپنے ذاتی ملازموں کو مخاطب کرتے تھے۔
’’آج صرف دس منٹ ہیں میرے پاس۔۔ کیوں مشتاق؟‘‘انہوں نے اپنے پی اے سے پوچھا۔
’’جی سر۔پھر آپ نے فریش ہو کر ناشتہ کرنا ہے۔ میری سب کے سیکریٹریز سے بات ہو چکی۔ تقریباً ایک گھنٹے میں سب یہاں پہنچ جائیں گے۔‘‘
’’چلو،ٹھیک ہے۔۔اللہ بہتر کرے گا۔‘‘ملک صاحب نے کہا اور جاگنگ ٹریک کی طرف چل دیے۔
ملک اختر حسن ملک کے سب سے بڑے پراپرٹی ڈویلیپر اور چوٹی کے امیر ترین آدمیوں میں سے ایک تھے۔ کاروباری حلقوں میں انہیں رئیل اسٹیٹ کا کنگ کہا جاتا تھا۔ لیکن ان کی شہرت کا باعث صرف ان کی بے تحاشہ دولت اور پورے ملک میں پھیلی پوش ہاؤسنگ سوسائیٹیاں ہی نہیں تھیں۔ وہ اپنی مذہبی طبیعت اور دریا دلی کے لئے بھی مشہور تھے۔ان کا ماننا تھا کہ جن لوگوں پر خدا کا کرم ہو،ان پر لازم ہے کہ وہ خلق خدا کا بھی خیال رکھیں۔ کئی لوگوں کے مطابق ملک صاحب کی خدا ترسی کی وجہ ان کی اپنی داستان حیات تھی۔وہ ایک سفید پوش گھر سے تعلق رکھتے تھے۔گھریلو حالات کی وجہ سے انٹر کے بعد ہی تعلیم ادھوری چھوڑ کر چھوٹی موٹی ٹھیکیداری کرنا شروع کر دی ۔لیکن اس سے آگے کی کہانی بڑی پر اسرار ہے۔کسی کو ٹھیک سے نہیں پتا کہ وہ ایک معمولی ٹھیکیدار سے رئیل اسٹیٹ کے بے تاج بادشاہ کیسے بنے۔ ملک صاحب کا خود کا کہنا یہ ہے کہ یہ سب ان کی محنت،ماں کی دعاؤں اور خدا کی کرم نوازی کا نتیجہ ہے۔بہت سے لوگ تو ملک صاحب کی باتوں پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ان کے نزدیک تو ملک صاحب ’’جسے اللہ عزت دے۔۔‘‘کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ لیکن کچھ تشکیک پسند ایسے بھی ہیں جو دبے الفاظ میں کچھ اور ہی کہانی بتاتے ہیں۔ ان کے مطابق ملک صاحب کی ترقی کا سفرملک کے طاقتور اداروں کے اعلیٰ افسران کے کالے دھن کوپراپرٹی کے کاروبار میں لگا کر سفید کرنے سے شروع ہوا۔ دوسرے الفاظ میں ملک صاحب ان کرپٹ افسران کے فرنٹ مین تھے۔ لیکن کہنے والوں کا کیا ہے جی۔ جتنے منہ، اتنی ہی باتیں۔ لوگ تو ویسے بھی پیسے والوں سے جلتے ہیں۔ اورحقیقت کا حال تو صرف اللہ ہی جانتا ہے نا۔ ہم کیوں کسی پر بلا وجہ شک کریں۔ہم تو صرف اسے ہی حقیقت مانیں گے جو صاف دکھتی ہے۔ ویسے بھی اتنی باریکیوں میں جانے کی فرصت کہاں ہے کسی کے پاس۔ خیر ہم ملک صاحب کی سوانح عمری کو یہیں پر چھوڑتے ہیں اور چلتے ہیں اختر منزل کی طرف جہاں پر ابھی کچھ ہی دیر میں چند اہم شخصیات آنے والی ہیں۔ لگتا ہے آج کا دن ملک صاحب کے لئے بہت اہم ہے۔ شاید اسی لئے انہوں نے پچھلی شام گھر پر خصوصی دعا کا اہتمام بھی کرایا تھا۔
’’سر۔۔سب لوگ پہنچ گئے ہیں۔آپ کا انتظار ہو رہا ہے۔‘‘مشتاق نے گردن کو ہلکا سا خم دیتے ہوئے ملک صاحب سے کہا۔
ادھر ڈرائنگ روم میں بیٹھے لوگ کن اکھیوں سے اپنے ارد گرد رکھی بیش قیمت اشیا کو دیکھ رہے تھے۔ان کی پوری کوشش تھی کہ وہ مرعوب نظر نہ آئیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کے دلی تاثرات ان کے چہروں سے عیاں تھے۔اس امر کی شاید انہیں خفت بھی تھی۔ آخر وہ بھی تو کوئی چھوٹے لوگ نہیں تھے۔ ایک صوبے کا اٹارنی جنرل تھا تو دوسرا فوج کا ایک ریٹائرڈ میجر جنرل جو اب شہر میں ملک صاحب کے ہاؤسنگ پراجیکٹس کا سیکورٹی انچارج تھا۔ پولیس کا ڈی آئی جی آپریشنز، شہر کا کمشنر،چیف منسٹر صاحب کا پرسنل سیکرٹری اور میڈیا ہاؤسز کی نمائندہ تنظیم کا ایک اعلیٰ عہدیدار بھی مہمانوں میں شامل تھے۔ نہ جانے ملک صاحب کے پاس ایسی کیا گیدڑ سنگھی تھی کہ ایسے بڑے بڑے لوگ ان کے ایک اشارے پر دوڑے چلے آتے تھے۔
’’اسلام علیکم جنٹلمین۔۔‘‘ ملک صاحب نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔سب ان کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔’’پلیز بی سیٹڈ۔۔‘‘انہوں نے اطالوی صوفوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’میرا خیال ہے سب نے چائے پی لی ہے۔ وی ہیو ویری لٹل ٹائم۔۔ سولیٹس گیٹ ڈاؤن ٹو بزنس۔۔‘‘
’’سر،ساری تیاریاں مکمل ہیں۔ابھی کچھ ہی دیر میں آپریشن شروع ہو جائے گا۔ہوپ ایوری تھنگ ول گو سموتھلی۔۔‘‘ڈی آئی جی نے ادب سے کہا۔
’’یس سر ڈونٹ یو وری۔۔سیچوویشن ہمارے کنٹرول میں رہے گی۔‘‘کمشنر بولا۔
’’ہماری سکیورٹی کے آدمی بھی گورنمنٹ آفیشلز کے ساتھ ہیں۔ ضرورت پڑی تو مزید لوگ بھی سٹینڈ بائی پر ہیں۔‘‘ریٹائرڈ جنرل صاحب نے سینہ پھلا کر کہا۔
’’دیٹس گڈ۔۔‘‘ملک صاحب سر ہلا یا اور پھر کچھ توقف کے بعد بولے۔
’’میری خواہش نہیں تھی کہ یہ سب ایسے ہو۔ ہم نے تو ان لوگوں کے ساتھ ہر طرح سے ڈیل بنانے کی کوشش کی۔‘‘
’’بالکل ایسا ہی ہے سر۔۔قانونی طور پر دیکھا جائے تو ان لوگوں کا اس زمین پر کوئی حق نہیں بنتا۔ ان کے پاس اپنی ملکیت کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔ نہ ہی لینڈ ڈیپارٹمنٹ کے ریکارڈ میں کوئی ایسی چیز ہے۔ ان کی واحد دلیل یہ ہے کہ وہ اس زمین پر نسلوں سے آباد ہیں۔ واٹ نان سینس۔۔ یہ بھی کوئی قانونی دلیل ہے بھلا۔قانون کو تو ٹھوس ثبوت چاہئے۔وہ سرکاری زمین ہے اور حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسے جسے چاہے بیچے۔‘‘ اٹارنی جنرل نے اپنی لمبی تقریر کے بعد ملک صاحب کی طرف یوں دیکھا جیسے کلاس میں بچے دو کا پہاڑا سنانے کے بعدشاباش لینے کے لیے استاد کی طرف دیکھتے ہیں۔
’’میں نے تو سی ایم صاحب کو کہا تھاکہ یہ ہاؤسنگ پراجیکٹ میرے لئے بہت اہم ہے۔ اس لئے اگر وہ لوگ راضی ہوں تو میں ان کی قانونی ملکیت نہ ہونے کے باوجود انہیں زمین کا سرکاری ریٹ دینے کو تیار ہوں۔ مگر کتنی لالچی ہے یہ قوم۔۔ کہنے لگے کہ ہم دس ہزار فی ایکڑ لے کر کیا کریں گے۔ اگر دینا ہے تو مارکیٹ ریٹ دو۔ سینہ زوری دیکھو ذرا ان کی۔ ایک تو زمین کی ملکیت نہیں ہے،اوپر سے پچیس لاکھ روپیہ فی ایکڑ مانگ رہے ہیں۔ خوف خدا ختم ہو گیا ہے لوگوں میں۔ نہ اخلاقیات کا پتا ہے نہ قانون کی پاسداری کا خیال۔‘‘ملک صاحب نے برہمی سے کہا۔
’’بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ۔ اگر نظام قانون نہ ہوں تویہ لوگ تو ہر چیز پر ناجائز قبضہ جما کر بیٹھ جائیں۔‘‘ڈی آئی جی بولا۔ریٹائرڈ جنرل صاحب نے بھی فوراً اپنے پیٹی بھائی کی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’بہرحال ہم تو لا آف دی لینڈ کو فالو کرنے والے لوگ ہیں۔ اسی لیے میری خواہش ہے کہ سب کچھ قانون کے مطابق ہو۔ لیکن اگر کچھ لوگ قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں تو پھر ظاہر ہے کہ گورنمنٹ کو اپنی رٹ تو قائم کرنی ہی پڑتی ہے ۔‘‘ سب مہمانوں نے اثبات میں سر ہلایا۔’’مگر پھر بھی آپ کی کوشش ہونی چاہئے کہ نوبت یہاں تک نہ پہنچے۔ ویسے بھی میرے کاروباری مخالفین ہر وقت کسی موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں۔۔‘‘ ملک صاحب کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ مشتاق نے ان کے کان میں کوئی سرگوشی کی۔
’’اوکے جنٹلمین۔۔ میرے خیال میں اور کچھ ڈسکس کرنے کے لئے نہیں ہے۔ میں نے آج مینجمنٹ بورڈ کی میٹنگ بلائی ہوئی ہے۔ مجھے اس کے لئے جانا ہے۔کسی بھی اپ ڈیٹ کے لئے میرا پی اے آپ کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے گا۔خدا ہم سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔۔‘‘ملک صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا ۔
رہائش گاہ کے عقب میں بنے ہوئے ہیلی پیڈ کی طرف آتے ہوئے ملک صاحب کی نظر باغ میں گورنس کے ساتھ کھیلتے اپنے سات سالہ پوتے پر پڑی۔بچہ بھی اپنے دادا کو دیکھ کر بھاگتا ہوا ان کے پاس آ گیا۔ملک صاحب نے شفقت سے پوتے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھرگورنس سے اس کی بیمار والدہ کے متعلق پوچھنے لگے۔ گورنس نے انہیں بتایا کہ وہ اب پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ ملک صاحب نے سر ہلاتے ہوئے مشتاق کو بزرگ خاتون کے علاج معالجے میں کوئی کمی نہ آنے کی ہدایت کی۔
’’سر، آپ کی انہی نیکیوں کی وجہ سے خدا نے آپ کو یہ بلند مقام عطا کیا ہے‘‘گورنس نے سر جھکا کر عاجزی سے کہا۔
’’بے شک۔۔بے شک،ایسا ہی ہے۔‘‘ملک صاحب نے طمانیت سے کہا اور آگے چل دیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایمبولینس کے جھٹکوں سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔جب ہلنے کی کوشش کی تو بائیں ٹانگ میں اٹھنے والی دردکی تیز لہر سے وہ کراہ کر رہ گیا۔ چند لمحوں کے لیے تو اسے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے اور کیوں ہے۔ بڑی مشکل سے گردن موڑ کر اس نے سائیڈ پر دیکھا۔ اس کے ساتھ دو انسانی جسم پڑے تھے۔ ایک کا چہرہ تو اتنا خون آلود تھا کہ پہچانا نہیں جا رہا تھا۔ دوسرا اس کی گلی میں رہنے والے ایک لڑکے کا تھا۔ مانوس چہرہ دیکھ کر اس کی یادداشت بھی کام کرنے لگی۔ آنسو گیس کا دھواں، گولیوں کی تڑتڑاہٹ، بارود کی بو، کھیتوں میں بکھری لاشیں، بچوں کی چیخیں، عورتوں کے بین۔۔ اسے سب یاد آ نے لگا۔ کتنے جوش سے نکلے تھے وہ اپنے گھروں،اپنے کھیتوں کا دفاع کرنے۔ انہیں یقین تھا کہ وہ حق پر ہیں۔ انہیں امید تھی کہ خدابھی ان کی مدد کرے گا۔ لیکن دنیا کے تو اپنے اصول ہیں نا۔ زنگ آلود بندوقیں سرکاری رائفلوں کا مقابلہ کیسے کر سکتی تھیں۔ سیدھے سادھے کسان پیشہ ور قاتلوں کو کیسے شکست دے سکتے تھے۔ سو وہی ہوا جو آج تک ہوتا آیا ہے۔ طاقتور جھوٹ جیت گیا اور کمزور سچ ہار گیا۔ لیکن اسے اپنے کیے پر کوئی ندامت،کوئی پشیمانی نہیں تھی۔ اس نے جو کیا ،ٹھیک کیا تھا۔ اس کا ضمیر مطمئن تھا۔
ایمبولنس اچانک رک گئی۔ ہسپتال آ گیا تھا۔ گاڑی کا دروازہ کھلا۔دو آدمیوں نے اسے گھسیٹ کر نیچے اتارا اور سٹریچر پر ڈال دیا۔ پاس ہی ایک مسلح پولیس اہلکار ہاتھوں میں ہتھکڑی لیے کھڑا تھا۔ وہ قریب آ کر اسے ہتھکڑی لگانے لگا۔ زخمی کے حلق سے ایک غراہٹ بلند ہوئی۔ پولیس والے نے چونک کر اسے دیکھا اور خوف سے ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔
’’لے جاؤ او اینو۔۔‘‘
’’اینی مار کھا کے وی حرامد ے نے سبق نیں سکھیا۔‘‘ پولیس والا پنجابی میں بڑبڑایا۔
اس دن شام کی خبروں میں کرمانوالہ گاؤں کا نام غالباً پہلی دفعہ میڈیا پر آیا۔ رپورٹ کے مطابق آج کرمانوالہ میں جرائم پیشہ افراد کی پولیس پارٹی کے ساتھ جھڑپ میں ایک درجن سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ ہلاک اور زخمی ہونے والے تمام افراد کا تعلق ایک گینگ سے تھا اور وہ زمینوں پر ناجائز قبضے سمیت متعدد مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ ڈی آئی جی آپریشنز نے پولیس اہلکاروں کی جرات وہمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس کامیابی کو شہر میں جرائم کے خاتمے کی سمت ایک اہم قدم قرار دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک صاحب شب خوابی کا لباس پہنے اپنے بیڈ روم میں ٹہل رہے تھے۔ رات کے دس بج چکے تھے۔عام طور پر ملک صاحب اس وقت تک سو جاتے تھے لیکن آج انہیں نیند نہیں آ رہی تھی۔ ایک عجیب سی بے چینی تھی جو انہیں بستر پر لیٹنے نہیں دے رہی تھی۔ بلاشبہ آج کا دن بھی تناؤ سے بھر پور تھا۔ خاصی بھاگ دوڑ لگی رہی تھی۔ لیکن اب تو سب معاملات قابو میں آ چکے تھے۔ بظاہر کوئی پریشانی والی بات نہیں تھی اور وہ خاصے تھکے ہوئے بھی تھے۔ لیکن پھر یہ بے چینی کیوں تھی۔ آج جو کچھ بھی ہوا تھا، اس میں کچھ بھی ملک صاحب کے لیے نیا تو نہیں تھا۔ جوانی میں تو اس طرح کے معاملات چند گھنٹوں میں ان کے ذہن سے محو ہو جاتے تھے۔ لیکن اب وہ باسٹھ سال کے ہو چکے تھے اور شاید یہ سب بڑھاپے کا اثر تھا۔ بڑی دیر تک وہ اپنے ذہنی خلفشار پر قابو پانے کی کوشش کرتے رہے۔کبھی ٹہلنے لگتے،کبھی صوفے پر بیٹھ کر سگار سلگا لیتے تو کبھی اپنے پوتے پوتیوں کی تصویریں دیکھنے لگتے۔ لیکن سب بیکار گیا۔ ایک خلش تھی جو ختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہی تھی۔یوں لگتا تھا جیسے کوئی کانٹا چبھ گیا ہے اور اب نکل نہیں رہا۔ آخر ہمت ہار کر انہوں نے انٹر کام کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
’’میری حضرت سے بات کراؤ۔ اگر وہ آرام کر رہے ہوں تب بھی۔ کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔‘‘انہوں نے اپنے پی اے کو ہدایت کی۔
حضرت مولانا صاحب ملک کی مشہور مذہبی اور روحانی ہستی تھے۔ ان کے زہد وتقویٰ کا ایک زمانہ معترف تھا۔ ملک کا شاید ہی کوئی بڑا نام ایسا ہو گا جو ان سے فیض نہ حاصل کرتا ہو۔ ملک صاحب بھی ان کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ کوئی روحانی مشکل ایسی نہ تھی جس کا حضرت کے پاس حل نہ ہو۔ اور اس عظیم خدمت کے بدلے میں حضرت نے کبھی بھی کسی سے کچھ نہیں مانگا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بڑے بڑے پیسے والے لوگ ان کے مشوروں سے ملنے والے ذہنی سکون کی وجہ سے انہیں سونے میں تول کر رکھتے تھے۔ ملک صاحب کے بہت سے خیراتی کاموں کے پیچھے بھی حضرت کے مشوروں کا ہی عمل دخل تھا۔
ٹرن ٹرن۔۔ فون کی گھنٹی بجی۔ ملک صاحب نے بیتابی سے ریسیور اٹھایا ۔
’’آپ کے آرام میں خلل ڈالنے کی معذرت چاہتا ہوں حضرت لیکن بات ہی کچھ ایسی ہے۔۔‘‘ ملک صاحب بولے اور پھر انہیںآج کے دن کی روئیداد سنانا شروع ہو گئے۔
کافی دیر تک دونوں میں باتیں ہوتی رہیں۔ جیسے جیسے گفتگو آگے بڑھی ملک صاحب کے چہرے کے تنے ہوئے عضلات ڈھیلے پڑنے لگے۔ آخر تک تو وہ ہنسنا مسکرانا بھی شروع ہو گئے۔ حضرت کے پاس کچھ کمال ہی ایسا تھا۔ بات چیت کے اختتام پر ملک صاحب نے مسرت آمیز عاجزی سے حضرت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’حضرت۔۔آپ سوچ نہیں سکتے کہ میں آپ کا کتنا شکر گزار ہوں۔ آپ نے تو میرا بوجھ ہلکا کر دیاہے۔اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر دے۔ بس میں ویسا ہی کرتا ہوں جیسا آپ نے فرمایا ہے۔ لیکن ایک شرط ہے میری۔۔ کہ افتتاح آپ ہی کے مبارک ہاتھوں سے ہو گا۔۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فائیو سٹار ہوٹل کا ہال بار بار تالیوں سے گونج رہا تھا۔آج وہاں ملک اختر حسن کے نئے ہاؤسنگ پراجیکٹ کی افتتاحی تقریب تھی۔ شہر کے تمام معززین وہاں موجود تھے۔ سٹیج پر بیٹھے ملک صاحب کا چہرہ اپنے پراجیکٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے خوشی سے دمک رہا تھا۔
’’میرے پاس آپ کے لیے ایک اور خوشخبری بھی ہے۔‘‘ملک صاحب نے ایک لمحے کو رک کر حاضرین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔’’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس ہاؤسنگ پراجیکٹ میں ایک بہت بڑی مسجد بھی تعمیر کی جائے گی۔ ایک لاکھ سے زائد نمازیوں کی گنجائش کے ساتھ یہ ایشیا کی سب سے بڑی مسجد ہو گی۔۔‘‘ ملک صاحب کی آواز تالیوں کے شور میں دب کر رہ گئی۔
عین اس وقت شہر ایک دوسرے کونے میں واقع سرکاری ہسپتال میں کرمانوالہ پولیس مقابلے کے ایک اور زخمی نے دم توڑ دیا۔