ملال کی ایک رات ۔۔۔ ایوب خاور
ملال کی ایک رات
ایوب خاور
کچھ نہیں ہے
میرے آیئنہ و مہتاب و سبو خالی ہیں
صٖفحہ ء دل کسی معتوب شہنشاہ کی مسند کی طرح
حرمت لفظ و معانی بھی گنوا بیٹھا ہے
خطہ ء عمر نعطل ہے وجود
عالم ہجر میں زنجیر ہے یہ خلوت ذات
آیئنہ باب ندامت ے اور اس باب ندامت سے
عرصہ ء وقت کے دامن میں
کوئی شاخ سحر ہے نہ کوئی شام جمال
مگر اک رنگ ملال
اے دیار رخ آیندہ مجذوب ہوا
لوح مہتاب سے اترے کوئی صبح تحریر
مگر اس وقت شب رزم کے سناٹے میں
وہ اندھیرا ہے کہ ان ہاتھوں سے گرتے ہوئے لمحے
نہیں دیکھے جاتے
چشم حیراں پہ برستے ہوئے نیزے نہیں روکے جاتے
ایک اندوہ مسلسل کے سوا
برزخ جاں میں کوئی سنگ سزا ہے نہ کوئی ساعت اجر
سفر ِ آئندہ ! تجھے حرف ملامت سے کیا ہے آغاز
Facebook Comments Box