پیاسا سمندر ۔۔ صفیہ حیات
پیاسا سمندر
( صفیہ حیات )
سمندر
مجھ میں رھتا ھے۔
برسہابرس
ساتھ ساتھ رھنے سے
میں
اور سمندر ایک سے ہیں۔
میں
کاغذ پہ کچھ لکھنے لگوں
سمندر
کاغذ پہ بہنے لگتا ھے۔
میں
صحرا میں جاوں
تو
ساتھ چلتے
ساری
ریت
سمیٹ
لاتا ھے۔
میں
جنگل میں پندرہ سال سے
لکڑی
کاٹ رہی تھی۔
اس
نے کشتیاں بنا ڈالیں۔
وصل
و فراق
دن
رات اس میں سفر کرتے ہیں۔
مجھے
کوئی کشتی نہیں ملتی۔
لکڑیاں
کاٹتے
میں
تھکن زدہ جو رونے بیٹھوں
یہ
سارے آنسو پی جاتا ھے۔
دور
نمکین پانی کی لہروں پہ بیٹھا
مجھے
دیکھتا رہتا ھے۔
اور
میری
آنکھوں
سے نکلتے آنسووءں کا منتظر رھتا ھے
میری
ساری آنکھیں پی کر بھی
Facebook Comments Box