یہاں شہنایئاں کیسی ۔۔۔ گلناز فیروز خان
یہاں شہنائیاں کیسی ( گلناز فیروز خان ) یہاں شہنائیاں کیسی؟ یہاں تو خون بہتا
یہاں شہنائیاں کیسی ( گلناز فیروز خان ) یہاں شہنائیاں کیسی؟ یہاں تو خون بہتا
فرض ( حرا ایمن ) گڑیا چھوڑو، اے بی سی یاد کرو، پھر، پھر کیا
منگتا ( انتون چیخوف ) ‘‘سر، مینوں بھکھ لگی ہے۔ ربّ دی سونہہ میں تنّ
سرخ بھڑیں ( پیٹر ہانڈکے) ایک عورت اچانک بولنا شروع کردیتی ہے۔ بچو! وہ سورہا
شب سے ڈرتا ہوں میں ( اختر حسین جعفری ) رات کے فرش پر موت
غزل ( گلزار ) پیڑ کے پتوں میں ہلچل ہے، خبردار سے ہیں شام سے
غزل ( ذوالفقار تابش ) دوست اک راز دان مل جائے میری چپ کو زبان
درد کہانی میرے سفر کی گواہی تو ہے یا پھر ٹھہرے رہنے کا اِشارہ مُجھے
پیٹ کی لے پہ ناچتی عورت ( صفیہ حیات ) بچی نے ابھی ایک پستان
لحد کھلی ہے ( غلام دستگیر ربانی ) اپنے ہونے کے شعور سے نا آشنا،