دوہے ۔۔۔ کبیر داس
دوہے کبیر داس جاکو راکھے سائیاں مار سکے نہ کوئی بال نہ بانکا کر سکے
دوہے کبیر داس جاکو راکھے سائیاں مار سکے نہ کوئی بال نہ بانکا کر سکے
دوسرا آدمی خالدہ حسین یہ سیٹ بھی مجھے چانس پر ملی تھی۔ ۲۳-A میں نے
کوزہ گر فارحہ ارشد اماں کہتی تھیں “بیٹیاں گیلی مٹی کی مانند ہوتی ہیں جدھر
غزل سبط علی صبا زرد چہروں سے نکلتی روشنی اچھی نہیں شہر کی گلیوں میں
کھونٹی پر لٹکا ہوا بدن جاوید شاھین شام ہوتے ہی میں پسینے میں بھیگا ہوا
آخری ملاقات نیئر مصطفی سرمئی بادلوں کے گالے سیف الملوک کے نیلگوں پانی میں اپنا
نظم شاہین کاظمی داستان ، شامِ ابد کے بپاہونے سے پہلے کئی بار نقرئی پانیوں
روٹی ٹیپو سلمان مخدوم لوکی کہندے نیں روٹی ہُن مسئلا نہیں ریہا۔ روٹی داتا صاب
میوٹیشن ڈاکٹر بلند اقبال کوئی کچھ بھی کہے مگر سچ تو یہی تھا کہ
کُدال مطربہ شیخ ساجد اپنی ایک کمرے پر مشتمل چھوٹی سی رہائش گاہ سے باہر