تماشائے ہستی ۔۔۔ آیئنہ مثال
تماشائے ہستی ( آیئنہ مثال ) فسوں خیزرات دھیرے دھیرے اپنے پر پھیلا رہی تھی
تماشائے ہستی ( آیئنہ مثال ) فسوں خیزرات دھیرے دھیرے اپنے پر پھیلا رہی تھی
چور فیودور دوستو وسکی دو سال کی بات ہے۔ اس وقت میں ایک نواب کے
“زمانہ بھی انسان کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے۔” ( فہمیدہ ریاض )
ساڑھے تین آنے ( سعادت حسن منٹو ) ”شکریہ۔ منٹو صاحب، معاف کیجیے گا، میں
خواہش کا مقتول ( نجیب محفوظ ) گاڑی کی آمد کا وقت قریب آیا تو
بے گانگی ( ممتاز مفتی ) رشید نے اٹھ کر آنکھیں کھولیں۔ دو ایک انگڑائیاں
بلی مار ( حرا ایمن ) میاؤں, میاؤں، میاؤں۔۔۔۔ آ جا آ جا میری جان
ایک عمومی الجھن ( فرانز کافکا ) ایک عمومی واقعہ: اس کا نتیجہ ایک عمومی
فرانسیسی قیدی ( صادق ہدایت) میرا قیام بیزانسن میں تھا۔ ایک دن میں اپنے کمرے
دیوار ( ژاں پال سارتر ) انہوں نے ہمیں چونے سے پتے ایک سفید ہال