جسم سے آگے ۔۔ شمائلہ نورین
جسم سے آگے شمائلہ نورین بہت آگے جہاں میری سوچ تمہا ری سوچ سے ملتی
جسم سے آگے شمائلہ نورین بہت آگے جہاں میری سوچ تمہا ری سوچ سے ملتی
مجھے سنورنا ہے ابصار فاطمہ لگادو آئینے ہر سو مجھے سنورنا ہے نہ چھیڑو فکر
نظم نودان ناصر بیوہ سڑکیں انتظار کرتی ہیں قرنوں سے قائم کُشادہ سڑکیں کل کی
نظم ڈاکٹر ابرار احمد بے فیض ساعتوں میں منہ زور موسموں میں خود سے کلام
خدائے محبت مجھے پرسکون موت دو خوش بخت بانو خدائے محبت مجھے پر سکون موت
اے خدا چراگ سحری میں بنت ِحوا، نشے میں چور ہوں پر، تجھے اب بھی
من کا پانچواں موسم جویریہ ارشد وِش خوشگوار ، تازگی میں لپٹے بادِ نسیم کے
غزل ذوالفقار تابش سفر حیات کا اک احتمال جیسا تھا گمان گزراں تھا خواب و
اس کھڑکی میں مت جھانکو! وجیہ وارثی اس کھڑکی میں مت جھانکو دوشیزہ دردِ زہ
مثال سارا احمد کسی آواز کے سائے میں دُھوپ کنارے چلتے چلتے مَیں موتی چُنتی