ایک برہنہ نظم ۔۔۔ چراگ سحری
ایک برہنہ نظم چراگ سحری خیال برہنہ ہے ، کاغذ پر پڑے الفاظ، جنسی لحاظ
ایک برہنہ نظم چراگ سحری خیال برہنہ ہے ، کاغذ پر پڑے الفاظ، جنسی لحاظ
نظم سارااحمد دوپہر کے چہرے کی چِک وہ گھر ایک خواب کی مانند ان دِنوں
فساد فی الارض نودان ناصر میرے پاس کُچھ مزدور دن پڑے ہیں صُبح تکرارِ اجرت
ادھوری رات کی تعبیر رابعہ الربا سپنوں کی وہ باتیں تھیں سپنوں تک ہی رہ
شکستگی جویریہ احمد میری آنکھوں میں کاجل تھا جس کو میں خوبصورت اور نوکیلا بنانا
ہم کوئی ایسا جرم کریں خوش بخت بانو ہم کوئی ایسا جرم کریں کہ لوگ
غزل احمد مشتاق یہ ہم غزل میں جو حرف و بیاں بناتے ہیں ہوائے غم
دل چاہتا ہے نور الہدی شاہ دل چاہتا ہے غارِ اصحابِ کہف میں جا کر
غزل قائم نقوی تو وہی ہم بھی وہی قصہ پرانا ہو گیا ہم کو گھر
نظم سلمان حیدر میں تمہارے علاوہ کسی سے بے وفائی نہیں کر سکتا تھا میں