نظم۔ عارفہ شہزاد
نظم (عارفہ شہزاد) مجھے لفظوں میں حنوط کر دیا گیا اور میرے تابوت میں بوسوں
نظم (عارفہ شہزاد) مجھے لفظوں میں حنوط کر دیا گیا اور میرے تابوت میں بوسوں
کُنواں اور کُتۤا (تنویر قاضی) فساد کی جَڑ اور گہری چلی گئی کہ اُسی کُنویں
پشتو نظم رحمان بابا رات کو مظلوموں کا لہو پیتا ہے پہ شپہ وینے د مظلوم
شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر
سیڑھیوں میں بیٹھی ھوئی نظم تنویر قاضی وہ کروشیا کام میں مصروف تھی اُس نے
غزل شہناز پروین سحر جو تیری قید سے نکلوں تو کس قفس میں رہوں میرا
سنسان گلی راشد جاوید احمد سنسان گلی بے خواب دریچے خاموش پیڑ اندر شور آسمان
کچا رشتہ احسن سلیم ماں جی بارش کے آنے سے پہلے ہی ہم، چاروں پانچوں