ملکیت کیا ہے ؟ ۔۔۔ ماریاسوواروفا
ملکیت کیا ہے ؟
ماریاسوواروفا
بورس رومانوف
مترجم۔ ڈاکٹر ظفر عارف
ملکیت سیاسی معیشت کے بنیادی عناصر میں سے ایک عنصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف پابندِ قانون مراحل کے دوران ملکیت کے ارتقاء کے بارے میں علمی نظریہ تاریخ کے مادی نظریے کا اہم ستون تسلیم کیا جاتا ہے۔
ماضی میں مختلف فلسفیوں، تاریخ دانوں اورمعاشیات کے علم کے ماہرین نے ملکیت کی ماہیت پر روشنی ڈالنے کی کوششیں کی ہیں اور آج بھی یہ کوشش جاری ہے۔ لیکن اشتراکیت (کمیونزم) کے بانی، کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز، ہی اس موضوع کا صحیح تجزیہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔
ان کے متعدد پیشرؤں کو اس امر کا احساس تھا کہ معاشرے کی صورتِ احوال کا انحصار ملکیت کی صورت احوال پر ہوتا ہے۔ ان میں خوابیدہ اشتراکیت (یوٹوپیائی سوشلزم) کے فرانسیسی ماہرین علوم ،ہنری سینٹ سائمن، چارلس فوریئر، کلاسیکی سرمایہ دار معیشت کے انگریز ماہرین ،آدم اسمتھ اور ڈیوڈ رکارڈو،اور جرمن کلاسیکی فلسفی جارج ولہیم فریڈرک ہیگل شامل ہیں ۔تاہم ان سب نے مادی اقدار کے اکتساب کے عمل اور قانون ملکیت کے آئینے کے عکس میں ظاہر ہونے والے ملکیتی رشتوں کو ایک جان لیا اور اس طرح ملکیت کی ماہیت کو حق ِملکیت میں تحلیل کر دیا ۔
مارکسی فکر کے مطابق لوگوں کے درمیان مادی اقدار (انسانی ضرورت کی چیزوں) کی پیداوار اور تقسیم کے حقیقی معاشی رشتے ہی ملکیت کی ماہیت کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملکیت لوگوں کے مابین ایک رشتہ قرار پاتی ہے، نہ کہ فرد کا کسی چیز کے ساتھ وہ رشتہ جس کا اظہار کسی چیز (معروض) پر کسی فرد (موضوع) کے اختیار کے ذریعے ہوتا ہے۔ نہ ہی ملکیت کی یہ تعریف ہوسکتی ہے کہ یہ انسان کی اس فطری صلاحیت کا نام ہے جس کے ذریعے انسان خارجی دنیا کی چیزوں کو اپنا بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دار ماہرینِ معاشیات کی وہ تمام کوششیں علمی اعتبار سے غلط ثابت ہوئیں جن کے تحت وہ ملکیت کو رابنسن کروسو کی (کسی فرد کی) معیشت اور چیزوں کے ساتھ اس کے رشتے سے اخذ کرتے ہیں۔ انسان ایک اجتماعی وجود ہے اور معاشرے سے ہی شکل پذیر ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ ہی اپنی معاشی سرگرمیاں کسی ایک یا دوسرے معاشرے کی حدود کے اندر ہی سرانجام دیتا ہے۔ چنانچہ، ملکیت کسی فرد کی ذاتی زندگی کے بجائے صرف کسی معاشرے کی مادی زندگی کے حالات سے ہی اخذ کی جا سکتی ہے۔
چنانچہ، اگر ہم ملکیت اور اس کی ماہیت کو سمجھنا چاہتے ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ اس نے کیوں جنم لیا اور وہ کیوں تبدیلیوں کے عمل سے گزری تو ہمیں مادی چیزوں کی اجتماعی پیداوار میں مصروف لوگوں کے مابین حقیقی رشتوں کا تجزیہ کرنا ہوگا، یعنی ان رشتوں کو سمجھنا ہوگا جو ان کے شعور اور ارادے کے پابند نہیں۔
یہ سب کچھ درست ہے مگر مارکسی نظریہ اس امر کا اعتراف بھی کرتا ہے کہ ملکیت کا مسئلہ پیچیدہ اور بسیار پہلو ہے۔ اجتماعی پیداوار میں ہی ملکیت کی معروضی بنیادیں قائم ہیں اور یہی اس کی ماہیت کی تفہیم کے لیے کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ تاہم ملکیت خارجی اور ظاہری شکلوں کی حامل بھی ہوتی ہے۔ ان شکلوں میں سے ایک شکل حقِ ملکیت ہے۔
یہ ظاہر ی طور پر حقِ ملکیت کی حقیقی معاشی ماہیت کا عکس ہوتی ہے، یعنی یہ ثانوی ہے اور اس ملکیت سے ماخوذ ہے جو فی الحقیقت ایک سماجی رشتے کے سوا کچھ نہیں۔ علاوہ ازیں، چونکہ ظاہری شکل انسانی شعور میں لوگوں کے درمیان حقیقی معاشی رشتوں کا رسمی اسمی عکس ہوتی ہے اسی لیے یہ حقِ ملکیت بیک وقت ملکیت کی معاشی ماہیت کا اظہار بھی کرتا ہے اور اسے مسخ بھی کرتا ہے۔
مثلا سرمایہ دارقانون یہ فرض کرتا ہے کہ سرمایہ دار معاشرے کے تمام اراکین سرمایہ دار، اجرتی مزدور، اور کسان، سبھی ملکیتوں کے مالک ہیں اور اس طرح وہ عظیم الجثہ کارخانوں اور ہزاروں اجرتی مزدوروں، اور مزدوروں کے مالک سرمایہ داروں اور ان محنت کش افراد کے درمیان کیفیتی فرق کو ابہام کا شکار کر دیتے ہیں جن کے پاس اپنی قوت محنت کے علاوہ کچھ نہیں۔
نیز، ان کسانوں، زمینداروں کو بھی ان سے خلط ملط کر دیتے ہیں جو ایک ایسے چھوٹے سے قطعہِ زمین کے مالک ہیں جن پر وہ خود اور ان کے اہل ِخاندان کاشت کرتے ہیں۔ سرمایہ دار معاشرے کا معاشی لباب اس بات سے متعین ہوتا ہے کہ سرمایہ دار زرائع پیداوار کا مالک ہوتا ہے جبکہ محنت کش کے پاس یہ ذرائع پیداوار بالکل بھی نہیں ہوتے ۔چنانچہ، اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ اجرت کے عوض کام کے لیے خود کو پیش کرے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں وہ اس سرمایہ دار کو اپنی قوتِ محنت فروخت کرے جو اسے بیدردی سے استحصال کا نشانہ بناتا ہے۔
چنانچہ، ملکیت انسانی شعور اور ارادے سے آزاد ایک معروضی مظہر بھی ہے اور ایک ایسا موضوعی سطحی مظہر بھی ہے جس کا اظہار قانونِ ملکیت میں ہوتا ہے۔
سیاسی معیشت ملکیت کا مطالعہ ان معروضی رشتوں کے حوالے سے کرتی ہے جو اجتماعی پیداوار میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اجتماعی پیداوار کے دوران افراد کے درمیان رشتے جنم لیتے ہیں اور انہی پیداواری رشتوں کے حوالے سے ملکیت کی ماہیت کا علمی مطالعہ ممکن ہے چونکہ خود پیداواری رشتوں کا انحصار و تعین پیداواری قوتوں کی ترقی اور ارتقا پر ہوتا ہے۔
اس لئے یہ نتیجہ بھی ناگزیر ہو جاتا ہے کہ معاشرے کی ترقی کے نتیجے میں ملکیت کی ایک شکل پابندِ ضابطہ عمل کے ذریعے ملکیت کی دوسری شکل کے قیام کے لیے جگہ خالی کر دیتی ہے۔ قدیم اشتمالی برادری میں ملکیت کی اشکال غلام دارانہ ملکیت کے لیے، پھر غلام دارانہ ملکیت جاگیر دارانہ ملکیت کے لیے، بعد ازاں جاگیردارانہ ملکیت سرمایہ دارانہ ملکیت کے لئے اور سرمایہ دارانہ ملکیت اشتراکی اجتماعی ملکیت کے لیے راستہ چھوڑ کر غائب ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملکیت کا علمی نظریہ اس تصور سے متصادم ہے کہ نجی ملکیت ایک ایسا فطری وصف ہے جو انسان کی ناقابل تغیر فطرت سے مطابقت رکھنے کی وجہ سےخود بھی اتنا ہی ناقابل تغیر اور ازلی و ابدی ہے۔ یہی وہ غلط تصور ہے جو ملکیت کے بارے میں تمام سرمایہ دار نظریوں میں سمایا ہوا ہے اور جس کا طبقاتی مقصد یہ بات ثابت کرنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نجی ملکیت کا ‘مقدس’ اصول، فطرت کے عین مطابق ہونے کے باعث، ہمیشہ سے قائم ہے اور آخر تک قائم رہے گا۔
اس کے برعکس، مارکسی فکر ملکیت کے تصور کو معروضی پیداواری رشتوں کے حلقے میں منتقل کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحیح سوال یہ ہے کہ ملکیت کس قسم کا معاشی مظہر ہے؟
تمام دیگر علوم کی مانند سیاسی معیشت بھی اپنی تعلیمات اور نتائج کو ایسے تصورات اور ان کی تعریفوں کے ذریعے بیان کرتی ہے جو اس کی مخصوص زبان و اصطلاحات کو ترتیب دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملکیتی رشتوں کی ماہیت کی واضح تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ قارئین اپنے مصنفین کی اصطلاحات اور تصورات کے مفہوم کے بارے میں ان سے ذہنی ہم آہنگی پیدا کریں اور یہ جانیں کہ مصنف اصطلاحات کو کن معنی میں استعمال کر رہا ہے۔ اس ضمن میں اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ کئی صدیوں پر مبنی کاوشوں کے باوجود سیاسی معیشت کے متعدد مکاتبِ فکر اور فکری رجحانات اس موضوع پر کوئی ایسی علمی زبان مرتب کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کے مختلف تصورات ہم آہنگ ہو ں۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ سرمایہ دار ماہرینِ معاشیات ایک جیسے تصورات سے مختلف معنی نکالتے ہیں۔
صرف مارکسی-لیننی سیاسی معیشت نے ہی ہم آہنگ اصطلاحاتی محاورات پر مبنی ایک ایسی زبان کی ترویج کی ہے جس کے تصورات اور تعریفیں معاشرے کی معاشی
پیداوار کا طریقہ (پروڈکشن سسٹم)اور اس کے دو عناصر: پیداواری قوتیں اور پیداواری رشتے
: مادی پیداوار اجتماعی زندگی کی بنیاد ہے
انسانی شعور اور ارادے کی توجیہہ میں انسان کے اجتماعی وجود کی بنیادی حیثیت اور فیصلہ کن کردار کا اعتراف ہی اجتماعی زندگی کے مطالعے کے لیے مادی روش کا لب لباب ہے ۔اجتماعی وجود سے مراد وہ حقیقی انسانی سرگرمیاں ہیں جو کسی مخصوص ،تاریخی طور پر موجود، اجتماعی تانے بانے کے تناظر میں کی جاتی ہیں۔
تاریخ ہمیشہ ہی انسانوں نے بنائی ہے اور چونکہ لوگ اپنے معاشی طرز عمل کو اپنی خواہشات، جذبات اور موضوعی اہداف سے منسوب کرتے ہیں، اسی لیے تاریخ کے مادی نظریے کی فہم اور قبولیت مشکل ہوتی ہے۔سرمایہ دار محققین کہتے ہیں کہ سیاسی معیشت (جسے وہ معاشیات (اکنامکس) کہتے ہیں) اس کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ انسانی معاشی عمل کے موضوعی محرکات کا مطالعہ کرے۔ لیکن وہ یہ وضاحت نہیں کرتے کہ آخر لوگ کیوں کر ان تحریکات اور اہداف کے حامل ہو گئے اور ان محرکات کا سرچشمہ کہاں ہے؟
سرمایہ دارانہ معاشیات اس لیے بے ہنگم نہیں کہ وہ انسانی سرگرمیوں کو تصوراتی محرکات سے منسوب کرکے ان کا مطالعہ ضروری گردانتی ہے بلکہ اس لیے بے آہنگ ہے کہ یہ اس نکتے پر قیام کر جاتی ہے اور اس معاشی سرگرمی کے زیریں معروضی اسباب کی تحقیق کرنے میں ناکام رہتی ہے ۔
مارکسی فکر انسانی شعور اور تصوراتی محرکات سے تجاہل نہیں برتتی۔ تاہم وہ انہیں تاریخی مظاہر کا سببِ اول بھی نہیں سمجھتی۔ تاریخ کی صحیح محرکاتی قوتیں ان ترغیبات میں مضمر ہیں جو لوگوں کے بے پناہ اژدہاموں، پورے کے پورے طبقات اور قوموں کو حرکت میں لائیں ، نہ کہ ان ترغیبات میں جنہوں نے افراد( چاہے وہ کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں) کو حرکت دی۔
ان اجتماعی ترغیبات کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ چونکہ یہ خود انسانی زندگی کی مادی شرائط اور ان کے اجتماعی وجود میں مضمر ہوتی ہیں اس لیے یہ مستقل اور مسلسل اثرانداز ہوتی رہتی ہیں۔
انسانی زندگی کی مادی شرائط میں اول تو وہ فطری ماحول شامل ہے جس میں زمین ،پانی اور اس کی نباتاتی اور حیوانی سلطنتیں، معدنیاتی ذخائر اور آب و ہوا آتے ہیں۔دوئم، آبادیاں اور ان کی وسعت اور ساخت آتی ہے، سوئم، مادی چیزوں کی پیداوار کا طریقہ آتا ہے۔بعد الذکر(پیداوار کا طریقہ) معاشرے کے سماجی معاشی ارتقاء کی مادی بنیاد ہے اور سیاسی معیشت اسی سے بحث کرتی ہے۔
انسانی معاشرہ دو قسموں کے مادی حالات سے دوچار رہا اور انہی میں ارتقا پذیر ہوا۔ ایک جانب تو وہ فطری ماحول ہے جو اپنے اندرونی قوانین کے مطابق ترقی پاتا ہے اور جو آج بھی بڑی حد تک انسان کے شعوری اختیار اور غلبے سےآزاد ہے۔دوسری جانب فطرت کے معلوم قوانین کو شعوری طور پر استعمال میں لاتے ہوئے انسان فطرت پر مستعدانہ اثر انداز ہوتے ہوئے اپنی زندگی کے خصوصی حالات کی تخلیق بھی کرتا ہے۔ وسیع تر معنوں میں انسان مادی پیداوار اور مادی ثقافت کے حلقے کی تخلیق کرتا ہے۔ صدیوں پر محیط اس عمل کے نتیجے میں انسان نے ایک معنی میں اپنے اطراف کی مادی دنیا کو دو گنا کر لیا ہے۔ چناچہ انسانوں نے شہر اور گاؤں تعمیر کرلیے ہیں اور زمین کے وسیع علاقوں پر ریل پٹریوں، شاہراہوں، بجلی کے تاروں اور پائپ لائنوں کو پھیلا دیا ہے۔ کارخانے ،بجلی گھر، کا نیں، کھیت اور تعمیراتی جگہیں وغیرہ وغیرہ ۔ الغرض انسان کے گرد و پیش طرح طرح کی رنگا رنگ دنیا کی روز بروز زیادہ تیزی سے مسلسل افزائش ہو رہی ہے ۔
انسانی محنت کے ثمرات بھی اتنے ہی مادی ہیں جتنا کہ قدرت کے فطری ثمرات۔ زنبور سے لے کر محاسنِ فہیم( یعنی کمپیوٹروغیرہ) تک تمام کی تمام جدید ٹیکنالوجی اور استعمال کی تمام چیزیں (کپڑے جوتے ،گھریلو برتن، رسد و ر سائل کی سہولتیں وغیرہ )سب کی سب ایسی مادی اشیاء ہیں جنہیں انسان نے فطری قوانین کو ملحوظ ِخاطر رکھتے ہوئے فطری موادوں سے بنایا جبکہ انسان خود بھی فطرت کا ہی ایک حصہ ہے اور اس کے ارتقاء کا اعلی ترین ثمر بھی۔
انسانی زندگی کے مادی حالات کسی طور بھی ناقابل تغیر نہیں۔ وہ مسلسل ارتقا اور بہتری کی جانب بڑھتے ہیں۔ یہ تبدیلی لازمی طور پر محنت کی نوعیت اور شرائط میں تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے۔
: اجتماعی محنت
پہلے سے طے کردہ اہداف کی شعوری تحصیل کے پیش ِنظر فطرت کے خام مواد وں کے اکتساب کے لئے انسان کی بامقصد سرگرمی کو محنت کہتے ہیں۔ انسانی محنت کے دوران ہی محنت کے قدرتی اجزاء، ہاتھ اور سر ،ارتقاء پاتے ہوئے کامل تر ہوتے جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ان اعضائے محنت کی پہنچ بھی لمبی ہوتی جاتی ہے اور یہ قوی تر بھی ہوتے جاتے ہیں چونکہ انسان آلاتِ محنت کو تیار کرکے انہیں استعمال کرتا ہے۔
محنت ہی وہ سرگرمی ہے جو صرف انسان میں موجود ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو انسان کو دیگر حیوانات سے منفرد و ممیز کرتی ہے۔ یہ کہنا کہ جانور محنت کرتے ہیں، لفظ ‘محنت ‘کو تشبیہاتی اور استعاراتی معنی میں استعمال کرنے کے مترادف ہے چونکہ جانوروں کی محنت اس فطری جبلت پر قائم ہے جو ان کو موروثی طور پر ودیعت ہوتی ہے ۔مارکس کہتا ہے کہ بدترین ماہر تعمیرات اور شہد کی بہترین مکھی میں فرق یہی ہے کہ” ماہر ِتعمیرات عمارت کو فی الحقیقت کھڑا کرنے سے پہلے اسے اپنے تصور میں کھڑا کرتا ہے”۔ محنت کے عمل میں یہ اجزا شامل ہیں: (1)انسان کی بامقصد سرگرمی یا خود محنت؛(2) محنت کے معروض، یعنی وہ چیزیں جن پر انسان محنت کے عمل کے دوران کام کرتا ہے؛ اور(3) محنت کے آلات، یعنی وہ اوزار اورچیزیں جنہیں انسان محنت کے معروض پراستعمال کرتا ہے۔
محنت کے معروض اور آلات محنت مجموعی طور پر زرائع پیداوار کہلاتے ہیں اور خود محنت کا عمل پیداواری محنت کہلاتا ہے۔ پیداواری محنت کی یہ تعریف ہر سماجی نظام پر صادق آتی ہے ۔انسان کی بامقصد سرگرمی کے طور پر محنت کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ انسان سماجی اقدار (سماج کی ضرورت کی چیزیں) پیدا کریں یعنی ایسی چیزیں جو انسان کی مادی اور روحانی ضروریات کی تشفی کرتی ہوں ۔چونکہ محنت کرنے کے لئے انسان ضروری جسمانی و دماغی صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے اس لئے وہ ایک ایسی قوت محنت بھی ہے جو مادی اور روحانی پیداوار میں حقیقت پذیر ہوتی ہے۔
تاہم محنت متنوع انسانی ضروریات کی تکمیل کے لیے مادی چیزوں کی پیداوار کے ذریعے کے علاوہ کچھ اور بھی ہے ۔یہ وہ عمل بھی ہے جس کے ذریعے انسانی محنت کے اس جوہرکا اظہار ہوتا ہے جو انسان کو باقی حیوانی دنیا سے ممتاز کرتا ہے۔ محنت نے ہی خود انسان کی تخلیق کی ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ محنت نے ہی اسے وہ کچھ بنایا ہے جو وہ ہے اور صرف محنت کے عمل کے نتیجے میں ہی انسانی شخصیت پروان چڑھتی ہے اور کامل ہوتی ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے ماہر ِتاریخ اور فلسفی تھامس کارلائل نے اس بات پر زور دیا کہ محنت میں ہی انسان کی حقیقی زندگی مضمر ہے ۔جبکہ روسی مصنف لیو ٹالسٹائی کا خیال تھا کہ مسرت کوکاہلی کی زندگی تصور کرنا ایک انتہائی حیرت انگیز سراب ہے۔
کام کرنا کسی نہ کسی حد تک ہر صحت مند فرد کی داخلی ضرورت ہے اور محنت کے ذریعے ہی فرد اپنی ماہیت کو حقیقت پذیر کرتا ہے۔تاہم خود کام کی نوعیت اور کام کے بارے میں فرد کے ذہنی رویوں کا انحصار سماجی نظام پر ہوتا ہے۔ صدیوں سے جاری سنگدلانہ استحصال ،اور دوسروں کی غلامی اور بالادستی میں دوسروں کے لئے محنت کرنے نے محنت کو ایک بھاری بوجھ بنا دیا ہے اور محنت جیسی آفاقی اور لازمی انسانی سرگرمی کو بے بہا نقصانات پہنچائے گئے ہیں۔چونکہ غلام اورنیم غلام کو (غیر معاشی ذرائع سے) استحصال کرنےوالوں کے لیے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا اس لئے ان کی سب سے گہری آرزو یہی بن گئی کہ کسی طرح محنت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ اگرچہ سرمایہ دار معاشرے میں اجرتی مزدوروں کو ذاتی آزادی نصیب ہوتی ہے تاہم( معاشی طور پر) ان کو بھی سرمایہ داروں کے لیے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
چناچہ استحصالی طبقوں یعنی غلام داروں ،جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے عوام کی محنت کو کٹھن،کمر توڑ مشقت میں تبدیل کر کے ان میں محنت کے خلاف کراہت کو جنم دیا ہے۔ خود استحصالی طبقے بھی پیداواری محنت کو حقارت سے دیکھتے تھے۔چنانچہ سرمایہ دارسیاسی معیشت کے سب سے بڑے ماہر معاشیات اسکاٹ لینڈ کے آدم اسمتھ کے نزدیک محنت ایک لعنت ہے جبکہ آرام ،آزادی اور مسرت کا نام ہے۔