ایک عجیب عورت ۔۔۔ مریم ارشد

ایک عجیب عورت

مریم ارشد

فروری اور مارچ کے مہینے بہار کی آمد کی نوید دیتے ہوئے دروازوں پر میٹھی سی دستک دیتے ہیں۔ سردی سے ڈھکے بند دروازے کھلتے ہیں اور فن و ادب کے حوالے سے تقریبات بھی شروع ہونے لگتی ہیں۔ مارچ عورتوں کے عالمی دن کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ عورت پر لکھنے بیٹھی تو جذبات میں اک لہر سی اٹھی۔ دل سے آواز آئی بس! مریم اب اور عورت کی بیچارگی پر نہیں لکھنا۔ عورت کی جدوجہد اور روشن پہلوئوں کو اجاگر کرنا ہے۔ وہ تمام عورتیں جنہوں نے سماج میں اپنا مثبت حصہ ڈالا اور سماج کے ان حصوں کو فروغ دیا جو توجہ مانگتے رہے۔

باوجود کوشش کے جہاں عورتوں کے مثبت پہلوو


¿ں نظر آئے وہیں پر مردانہ اجارہ داری بھی مسلسل دکھائی دیتی رہی۔ اس کے لیے ذرا تھوڑا پیچھے چلتے ہیں۔ یہی کوئی ایک ڈیڑھ صدی پیچھے۔ 9 ستمبر 1828 میں روس کے صوبے Tula میں پاسنایہ پولیانہ میں پیدا ہونے والا ایک عظیم لکھاری لیوٹالسٹائی پیدا ہوا۔ دو سال کا تھا تو ماں دنیا چھوڑ کر چلی گئی ۔وہ نو سال کا ہوا تو باپ بھی دنیا کو خیر باد کہہ گیا۔ قانونی طور پر پھوپھی گارڈین ٹہری مگر موت اسے بھی چھین کر لے گئی۔ پھر سب بچوں کو خالہ اپنے ساتھ کا ز ان لے گئی۔ بچپن میں ہی رشتوں کی محرومیوں کو سہتے سہتے اسے کہیں روزنامچہ لکھنے کی عادت پڑی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر جرمن اور فرنچ استادوں سے حاصل کی۔ سکول میں پتہ چلا کہ وہ اچھا طالب علم نہیں، بس معمولی سے نمبر لیتا رہا۔ کوئی ڈگری یا ڈپلومہ بھی حاصل نہیں کر سکا۔ روزنامچہ لکھنے کی عادت نے اسے ناول نگاری کی طرف متحرک کیا۔ وار اینڈ پیس، اینا کارینینا اور بے شمار مشہور ناول لکھے۔

اب آتے ہیں اس پیٹرز برگ کے ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کرنے والے مصنف کی بیوی صوفیہ ٹالسٹائی کی طرف۔ اس کی ڈائری کے چند ورق بھی پلٹتے ہیں۔ سنیے کیا کہتی ہیں: میں اپنے شوہر کے ادبی کاموں میں اس کی کتنی مدد کرتی تھی وہ شاید جانتا ہی نہیں تھا۔ صوفیہ لکھتی ہے کہ وار اینڈ پیس ناول کو میں نے شروع سے آخر تک سات بار لکھا۔ کیونکہ لیو کی لکھائی بہت گندی تھی ۔صوفیہ لکھتی ہے جس میں اس کا کرب واضح نظر آتا ہے: ”میں ہر وقت حاملہ ہی رہتی تھی۔ زندگی مجھے ناقابلِ برداشت لگنے لگی تھی۔ میں اپنے دل سے پوچھتی میں کیا چاہتی ہوں میرا اندر خوشیوں اور رنگینیوں سے بھری زندگی مانگتا ہے۔ میں سمارٹ بن کر لوگوں سے سننا چاہتی تم کتنی خوب صورت ہو۔“ اپنی ڈائری کے ایک اور صفحے پر صوفیہ یوں اظہار کرتی ہے: ”جس طرح ٹالسٹائی اینا کرینینا میں چونتیس سالہ ہیرو Constantin اپنی انیس سالہ منگیتر کیٹی کو ڈائریاں دیتے ہوئے کہتا ہے یہ پڑھ لینا میری مرضی جان جائوگی۔“ اسی طرح صوفیہ کے ساتھ ہوا۔ اس کی شادی کے فوراً بعد لیو نے اسے اپنی ڈائری دی جس میں اس کے عشق اور جسنی تعلقات کی تفصیلات درج تھیں۔ یہ تو سراسر نوخیز دلہن کے جذبات کو توڑنے کا سفاکانہ عمل تھا۔ شادی کے صرف چند دن ہی محبت بھرے رومانس کے تھے۔ جلد ہی جھگڑے شروع ہو گئے تھے۔ صوفیہ کی ڈائری کے ایک اور صفحے پر لکھا ہے: ”دنیا میں محبت نام کی کوئی چیز نہیں۔ یہ صرف اور صرف جسمانی ضرورت ہے جس میں جنسی تعلقات قائم کرنے کے لیے ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔“ اسی ڈائری کاایک اور صفحہ پلٹیں تو پڑھنے کو ملتا ہے۔ ”وہ اپنی سفاکیوں میں مجھے مجبور کرتا کہ میں ہر بچے کو اپنا دودھ پلاو


¿ں۔ اس کے لیے سالن بھی خود بنائوں حتیٰ کہ کام کے بڑھتے ہوئے بوجھ نے مجھے بیمار کر ڈالا۔ میری کمر اور دانتوں میں مستقل درد رہنے لگا۔ مگر کتنی عجیب بات ہے جب میں اس کا لکھا ہوا پڑھتی اور اسے لکھتی تو میری تکلیفوں کی شدت کم ہو جاتی۔ الفاظ کھلونوں کی طرح اس کے ہاتھوں میں کھیلتے اور اس کے ذہین دماغ سے پھوار کی طرح خیالات برستے رہتے۔ ایک اور صفحے پر صوفیہ لکھتی ہے: ”میں سونے، کھانا کھانے اور چپ رہنے میں تو اپنی مرضی کی مالک تھی مگر کسی کو اپنی مرضی سے پیار کرنے کی آزادی نہیں تھی۔ میں بڑے بڑے لوگوں کی آرا پڑھتی ہوں کہ دوستو وسکی اور ولادی میرنیبو و کو ونے کہا کہ ٹالسٹائی جادو جیسا شاہکار کام کرتا ہے۔ ٹالسٹائی تمہارا شوہر جینئس ہے۔ تم کتنی خوش قسمت عورت ہو۔ مگر میں سوچتی ہوں کیا میں ناشکری ہوں۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ناشکری عورت لیو کی سیکرٹری، پروف ریڈر، ایڈیٹر، ہائوس کیپر، سٹیٹ ایجنٹ، اس کے تمام معاملات کی نگران اس کے تیرہ بچوں کو پیدا کرنے والی ماں اور لیو کی نرس تھی۔ میں نے اپنی بہت سی خواہشوں کا گلا گھونٹا تو اسے یہ مقام دلوایا۔“ معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا۔ عمر کے آخری حصے میں لیو ٹالسٹائی روحانیت کی طرف چلا گیا۔ اب اس کے عقیدت مندوں کا تانتا بندھ ہو گیا اس کا بوجھ بھی صوفیہ ہی کو ڈھونا پڑا۔ اپنے افسردہ دنوں میں صوفیہ اپنے آپ سے سوال کرتی ہے: ”کیا میں نے اپنے شوہر کو خوش نہیں رکھا؟ کیا میں نے اپنے جذبات اور خوابوں کا گلا اس لیے گھونٹا کہ وہ یوں راہ بدل لے؟“صوفیہ اپنے شوہر کی الجھی ہوئی لکھائی کو سلجھاتی مگر برسوں اداس رہتی۔ حتیٰ کہ اس نے اینا دوستو وسکی سے بھی رابطہ کیا۔ وہ بھی اپنے شوہر دوستو وسکی کی ادبی معاون تھی۔ لیو ٹالسٹائی کے سفاکانہ رویے کے باوجود ہمیں صوفیہ کا شکر گزار ہونا پڑتا ہے کہ لیو ٹالسٹائی کا سارا ادبی کام ہمیں آج بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ صوفیہ نے اپنی زندگی کے چالیس سال ایک جینیئس کی خدمت کی۔ اپنی ساری زندگی اسے سونپ دی۔ پر امن گھریلو زندگی کے لیے اپنی محبت اپنا سبھی کچھ اس کے قدموں میں نچھاور کر دیا۔ مگر بدلے میں کیا ملا؟۔ اذیتیں، سرد مہری اور ظلم و ستم! ہائے! صوفیہ کی ڈائری پڑھنے سے ایک اور بات بھی معلوم پڑتی ہے کہ Mediator Theچھپنے کے بعد ٹالسٹائی نے گروکی حیثیت اخیتار کر لی تو مہمان نوازی بھی صوفیہ غریبنی کو کرنا پڑی۔ کبھی کبھی صوفیہ کا دل چاہتا کہ اسے مار ڈالے یا خود کو مار لے۔ پھر جب انقلاب دروازوں پر دستک دینے لگا۔ قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم ہونے لگا۔ لگ رہا تھا تاریخ ہر چیز کو تباہ کرنے پر تل گئی تھی۔ وہ اس سوچ میں غرق رہتی کہ اس لوٹ مار سے خود کو کیسے بچانا ہے۔ ہر وہ چیز جس سے اسے پیار تھا لٹتی جا رہی تھی۔ 1910 کی سخت سردیوں کی آخری راتوں کو ٹالسٹائی نے بیوفائی کا آخری وار کیا۔ وہ عورت جو اس کے دکھ درد کی ساتھی تھی اسے بتائے بغیر گھر چھوڑ کر نکل گیا۔ کہیں راستے میں کسی اجنبی سٹیشن پر موت اس کے انتظار میں تھی بس اسے ساتھ لے گئی۔ کاش میں نے یہ ڈائری نہ پڑھی ہوتی تو میں یوں اداس نہ ہوتی۔ لیو ٹالسٹائی کی عظمت کا پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے نہ ہوتا۔ اس وقت میں خلائوں میں گھور رہی ہوں اور بس چپکے سے گالوں پر آنسو بہنے لگے ہیں۔کیا عجیب عورت تھی وہ۔

( سنگت گروپ کی وال سے)

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930