غزل ۔۔۔ علی زریون
غزل
( علی زریون )
جو اسم و جسم کو باہم نبھانے والا نہیں
میں ایسے عشق پہ ، ایمان لانے والا نہیں
میں
پاؤں دھو کے پیوں ، یار بن کے جو آئے
منافقوں کو تو ، میں منہ لگانے والا نہیں
نزول کر میرے سینے پہ ، اے
جمالِ شدید
تیری
قسم ، میں تیرا ، خوف کھانے والا نہیں
بس اتنا جان لے ، کہ اے
پرکشش ، کہ دل تجھ سے
بہل
تو سکتا ہے ، پر تجھ پہ آنے والا نہیں
یہ میری آنکھ میں بھڑکے ،
تو پھر ہٹاؤں گا
ابھی
میں آگ سے نظریں ، ہٹانے والا نہیں
تجھے کسی نے، غلط کہہ دیا ،
میرے بارے میں
نہیں
میاں! میں دلوں کو دکھانے والا نہیں
ہے ایک رمز ، جو تجھ پر ،
عیاں نہیں کرنی
ہے
ایک شعر ، جو تجھ کو سنانے والا نہیں
فقیر قول نبھاتا ہے ، پریم
کرتا ہے
فقیر
کوئی کرامت دکھانے والا نہیں
سن ! اے قبیلہُ کوفیُ دلاں
، مکرر سن
علی
کبھی بھی ہزیمت اٹھانے والا نہیں