آخری نظم ۔۔۔ علی زیوف
آخری نظم
علی زیوف
مجھے ایک عورت کی گود میں سر رکھ کر
آخری نظم لکھنی ہے
کسی بھی دوسری عورت سے محبت کرنے کے لیے
گزشتہ ضائع شدہ برسوں کی نسبت سے
جہاں میں نے مزید وضع داری سیکھی
ایک دلگداز بیانیہ ترتیب دینے کی غرض سے
اداس بیوہ کے ڈھلتے دنوں کے سوگ میں
جب کوئی آدمی
اُسے گجرے دینے کی جسارت نہیں کرتا
نہ ہی
اُس کے دریچے میں مہک کی کوئی کِرن اترتی ہے
سرحد پر مرتے انسانوں پر
جو نہیں جانتے
بارود برآمد اور درآمد کہاں سے کیا جاتا ہے
زناٹے دار خون اڑاتی گولیاں
اُن کی خواہشوں کا سینہ چٹ کرنے کو
کسی بھی دھشا سے آ سکتی ہیں
میں نے کینوس پر بہت سی شکلیں بنائیں
ایک باکرہ کے توسل سے
جسے پیش کش میں پھول قبول کرنے کے بعد
جنسی لوازمات کے لیے تیار رہنا چاہیے
اور پھول رد کرنے پر
تیزابی بوتلیں
دوشیزگی مانگ کا سندور بن سکتی ہیں
اداس روحوں کے ہشاش چہروں کی پھٹی زبانیں
مختص کی گئی ہیں دلوں کی بخیہ گری کرنے کو
اُن کا صبر
حلق میں آہوں کے سبھی جتن دبانا جانتا ہے
جہاں موت کا درندہ پیشانی پر بوسہ دینے کے بہانے
پیاروں کو ہم سے دور لے جاتا ہے
اور ہمیں
اُن سے ملاقات کی خاطر
خوابوں سے اجازت طلب کرنا پڑتی ہے
میں اپنی بےبسی کا کرب
رد ہونے کی جہتوں کا توسیعی خاکہ
اُسی عورت کی گود میں سر رکھ کر
قرطاس کے حاشیہ لگے
کونوں میں ڈھونڈ سکتا ہوں
جہاں پر اب میرا سانس لینا ناجائز گردانا جاتا ہے
اِس احساسِ کمتری کے ساتھ
میری محبت اور آخری نظم مکمل ہو سکتی ہے