بیٹی ۔۔۔ آصف اقبال
بیٹی
آصف اقبال
ہسپتال کے زچگی وارڈ کے باہر ایک چھوٹا سا گراسی پلاٹ تھا۔ جہاں فہیم اس وقت بیٹھا تھا۔اس کے چہرے پر اطمینان اور خوشی تھی۔ تھوڑی دیر قبل ہی ایک نرس اس کو اس کی پیدا ہونے والی چھوٹی سے بیٹی کا چہرہ دکھا کر گئی تھی۔ اور فیہم کے دل میں پہلا خیال یہ آیا تھا کہ دنیا میں اپنی بیٹی سے حسین کچھ اور نہیں ہو سکتا۔ ابھی کچھ یر قبل وہ اسی گراسی پلاٹ میں تیز تیز چل رہا تھا ۔۔ چلتے ہوئے لیکن اس کی نظریں وارڈ کے دروازے پر لگی ہوئی تھیں جہاں سے تھوڑی دیر بعد کوئی نرس نکلتی اور وہ اُس کو دوائیوں والی پرچی پکڑاتی اور وہ پلاٹ سے باہر نکلتا اور انہی تیز قدموں سے چلتا ہوا دوائی لینے چلا جاتا۔۔۔
کچھ ماہ قبل جب اس کی بیوی نے ایک دن رات کے اندھیرے میں شرماتے ہوئے “خوشخبری” کے بارے میں بتایا تو ایک لمحے کو تو اس کو یقین ہی نہیں آیا ۔۔ پھر اُس نے فرط مسرت میں آ کر بیوی کو چوم لیا اور اُسے اٹھا کر کمرے میں گول گول گھومنے لگا ۔اس کی بیوی نے ہی اسے احساس دلایا کہ ایسی حرکتیں اب ذرا غیر مناسب ہیں اور خطرے سے خالی نہیں۔۔۔ تو اس نے انتہائی احتیاط سے بیوی کو واپس بیڈ پر بٹھایا اور اکیلا ناچنے لگا۔۔ صبح ہوتے ہی اس نے گھر بھر میں یہ خبر پھیلا دی۔۔۔ اس کی بہنوں نے خوبصورت کارڈز بنائے ۔۔ اور اس کے کمرے کی دیواروں پر سجا دیئے۔۔ ساس نے بہو کی بلائیں اتاریں ۔۔ ایک تعویذ بہو کی کمر باندھا اور ایک کمرے کے دروازے پر باہر کی سمت لگا دیا۔۔ ساتھ ہی ساتھ بہو کو نصیحت بھی کر دی کہ اب “ادھر ادھر گھومنے کی ضرورت نہیں۔۔ آرام سے سارا وقت کمرے میں بیٹھا کرو۔۔ “
فہیم کو شادی سے پہلے ہر گز اندازہ نہیں تھا۔۔ کہ یہ لمحہ اتنی خوش کا سبب بنے گا اس کے لیے۔۔ وہ شادی کے بعد انتہائی ذمہ دار خاوند ثابت ہوا تھا اور اب وہ ایسا ہی ذمہ دار باپ بھی بننا چاہتا تھا۔۔
پانچویں مہینے جب اس کو اطلاع ملی کہ دنیا میں آنے والی بیٹی ہے تو اس کی خوشی اور بھی بڑھ گئی ۔ وہ بیگم کے مذید ناز اٹھانے لگ گیا ۔ جب اس کی بیگم اسے کہتی “آپ عجیب آدمی ہیں ۔ لوگ تو بیٹوں پر خوش ہوتے ہیں تو وہ اسے کہتا “جان من۔ بیٹیاں تو پریاں ہوتی ہیں۔ مرد کے لیے ماں کا روپ ہوتی ہیں ۔ مرد تو باپ بنتا ہی بیٹی کے پیدا ہونے سے ہے۔ اللہ بیٹا دے تو دوست دیتا ہے ۔ بیٹی دے تو اولاد بھی دیتا ہے ۔ محبت بھی دیتا ہے ۔ ذمہ داری بھی دیتا ہے ۔ رازدان بھی دیتا ہے۔ برکت بھی دیتا ہے۔ بیٹی سے تو رونق ہوتی ہے اب بھلا تم خود کو ہی دیکھو تم پیدا ہوئیں تو مجھے زندگی کی طرح مل گئیں “
اور اب وہ اسی گراسی میں بیٹھا جس کے سامنے آرتھو پیڈک وارڈ میں سے نکلنے والے مریض ویل چئیر پر بیٹھے رخصت ہو رتھے سوچ رہا تھا۔ اس کا گھر تو اب گڑیوں سے بھر جائے گا۔ اوراس کے باوجود روز گھر جاتا ہوا بیٹی کے لئے ایک گڑیا خریدے گا۔
اگلے دن ہسپتال سے گھر جاتے ہوئے اس نے سب ‘باجیوں’ کو بخشیش دی۔ کہہ کہہ کر ان سے بیٹی کے لئے دعائیں کروائیں۔ راستے میں ہی اس کی ماں نے اس کا نام زینب رکھ دیا۔
زینب کے ساتھ فیہم کےتین سال یوں گذرے کہ دفتر میں بھی اسے گھر جانے کی فکر ہوتی۔ اس کے لیے ایسی ہی ایک حسین شام تھی۔ جب وہ زینب کے لئے ایک سٹال کے پاس رکا جہاں سے وہ ہمیشہ اپنی بیٹی کے لئے کچھ نا کچھ خرید لیتا تھا گھر جاتے ہوئے۔ اس دن بھی اس نے ایک پیارا سا بھالو پسند کیا جس کی ناک سرخ تھی اور ہاتھوں پر گلابی جھالر نما کپڑا لگا ہوا تھا ۔ سٹال والے بابا جی اسے تین برسوں سے ہی جانتے تھے۔ اس دن اچانک بول پڑے۔
“اب تو اللہ میاں کسی کو بیٹی نہ ہی دیوے بابو۔ عجیب سے حالات ہو گئے ہیں بابو۔”
فیہم کو بابا جی پر غصہ تو بڑا آیا لیکن دفتری آدمی تھا برداشت کر گیا۔ ” یہ سب جہالت کے زمانے کی باتیں ہیں بابا جی۔ اب بیٹیاں باپوں کافخر ہوتی ہیں۔ ” یہ کہتے ہوئے اس کے دماغ میں اپنی بیٹی کا چہرہ گھوم گیا اور اس کا سر اصل میں فخر سے تھوڑا سا اونچا ہو گیا۔ “وہ اور وقت تھا بابا جی۔ جب بیٹیاں بوجھ لگتی تھیں۔ اب تو لوگ بیٹی مانگتے ہیں اللہ پاک سے خاص طور پر جیسے میں نے مانگی تھی۔ اور میں شکر کے نوافل پڑھتا ہوں کہ اللہ پاک نے میری خواہش پوری کی۔ آپ بھی اپنے خیلات بدل لیں اب۔”فہیم اپنی چھوٹی سی تقریر پر خود ہی خوش ہونے لگا۔
“بابو۔ لگتا ہے ٹی وی نہیں دیکھتے آپ۔ نہ ہی خبریں سنتے ہیں۔ ” بابا جی نے شاپر میں بھالو ڈال کر اسے پکڑاتے ہوئے کہا۔ “آج پیسے نہیں لوں گا اس کے میں فری میں لے جایئں”
فہیم کو یاد آیا کہ ٹی وی تو واقعی نہیں دیکھتا۔ گاڑی میں ریڈیو تھا لیکن کچھ عرصے سے اس نے وہ بھی سننا چھوڑ رکھا تھا۔ اس کی بیوی نے ایک یو ایس بی میں زینب کے لئے کارٹون ڈال کر وہی گاڑی میں لگا رکھی تھی۔ اور فہیم نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ اسے اتارے اور کچھ اور سنے۔
“ایسا کیا ہو گیا بابا جی۔۔ ایسی کونسی خاص خبر ہے۔ اور آپ پیسے لے لیں پلیز۔ “فہیم نے والٹ نکالا۔
“تین سال کی بچی کا ریپ کر دیا ظالموں نے۔ اور مار کر لاش ایک کھنڈر میں ڈال دی۔ “
“تین سال کی بچی کا۔ ؟”فہیم کو ایک لمحے کے لئے لگا وہ کسی اور زمانے میں ہے۔ جہاں صحرا میں تیز آندھی چل رہی ہے اور اس کی آنکھوں میں اس آندھی نے ریت بھر دی ہے۔ لمحے بھر کو اس کو نظر آنا بھی بند ہو گیا۔ اس نے زور زور سے اپنی آنکھیں ملنا شروع کر دیں۔
“کیا ہوا بابو۔ آنکھ میں کچھ چلا گیا؟ ” بابا جی نے ذرا پاس ہو کر دیکھا۔
“نہیں۔ نہیں۔” فہیم نے آہستہ سے کہا۔ “پانی ہو گا آپ کے پاس؟”
بابا جی پانی لائے تو فہیم ابھی بھی اپنی آنکھوں کی دھول صاف کر رہا تھا۔
“ادھر ہی لہور میں ہوا یہ ‘وقوعہ’ بابو جی۔ باپ اور ماں غریب حج کرنے گئے تھے بیٹی کو گھر چھوڑ کر رشتے داروں کے پاس۔ پیچھے سے اغوا کرلی کسی نے اگلے دن لاش مل گئی۔
فہیم سے پانی نہ پیا گیا۔ اس کو گلاس میں ایک عجیب سے خون کی پتلی لکیر ناچتی نظر آئی۔ اس نے گلاس اور بھالو ادھر ہی چھوڑا اور گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ اچانک اس کو یاد آیا کہ وہ گاڑی پر ہے۔ اس کو اپنی حواس باختگی پر حیرت ہوئی کیونکہ ابھی دفتر سے نکلتے ہوئے اس نے اپنی بیٹی سے بات کی تھی اور اس کو بتایا تھا کہ اس کے لئے بھالو لائے گا آج وہ۔ وہ کچھ دیر پارکنگ کے بیچ بنی مسجد میں بیٹھ کر اپنے حواس درست کرتا رہا ۔ اور پھر گاڑی میں بیٹھ کر گھر کو چل دیا۔
گھر میں ننھی زینب اس کی منتظر تھی۔
“بابا۔ میلا بھالو۔۔ ” اس نے اپنی توتلی زبان میں پوچھا اور جواب نہ پا کر بھاں بھاں رونے لگی۔ فہیم نے اس پیار کیا اور ٹی وی پر چینل بدلنے لگا۔ ہر چینل پر ایک ہی خبر تھی۔ بچی کی تصویر کے ساتھ ایک تکرار تھی۔ فہیم کا سر پھٹنے لگا۔ اس نے ٹی وی بند کر دیا۔۔ چنگھاڑتی ہوئی اینکرز۔۔ بو سونگھتے ہوئے کیمرہ مین۔۔ گلا پھاڑتے ہوئے رپورٹرز ہر طریقے سے کوشش کر رہے تھے ککہ اس واقعے کو کسی طرح بھی زیادہ بھیانک انداز سے دکھایا جا سکے۔
فہیم پر وہ رات بہت مشکل تھی۔ اس نے بیٹی کا نام جب زینب رکھا تھا تو اس کے ذہن میں محبت ہی محبت تھی اور آج زینب کا نام سن سن کر اس کی کیفیت عجیب سی تھی۔اس کی بیگم نے اس سے دو چار دفعہ بات کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن وہ خاموش رہا۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ کس سے کیا بات کرے۔ زینب عادت کے مطابق تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس سے لپٹتی لیکن وہ بجھے ہوئے دل کے ساتھ اسے خود سے دور کر دیتا۔ اس کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ کوئی تین سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کیسے کر سکتا ہے ۔اس کی بیٹی اس کے ساتھ لپٹتی تو اس کو ننھی زینب کی پیاری پیاری ٹانگیں اس کو جبر اور تشدد کا نشانہ بنتی نظر آتیں۔ تو اس کا دل چاہا کہ اپنے بال نوچ لے۔اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر فہیم نے بیٹی کو بازوؤں سے پکڑنا چاہا تو اس کو اچانک فضا میں زینب کے بازو چیختے وقت اٹھتے نظر آئے۔ اس نے سر چومنا چاہا تو اس کو تین سال کی بچی زمین پر سر پٹختی نظر آ گئی۔۔
شام گذری اور اب اس پر رات طاری تھی۔بھیانک۔ افسردہ۔ خوفناک جس میں جگراتا اس پر فرض ہو چکا تھا۔ اس کی بیٹی جھولے میں سو رہی تھی۔ وہ ہمیشہ اس کے سینے پر سوتی تھی لیکن آج وہ پوری ہمت مجتمع کر بھی سینے پر نہیں سلا پایا تھا اور اس کی بیوی نے اسے جھولے میں سلا دیا تھا۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھتا ۔ بیٹی کو ایک نظر دیکھتا اور دوبارہ لیٹ جاتا۔ اس ایک لمحے کے عمل میں اسکی سانسیں ٹھیک ٹھاک بے ترتیب ہو جاتیں۔ اور وہ لیٹا لیٹا انہیں درست کرنے کی کوشش کرتا رہتا۔
اگر ایک لمحے کو اس کی آنکھ لگتی تو الجھے ہوئے سنہری بالوں کا ایک گچھا جس کی گنجلیں کسی تشدد کی علامت تھیں ۔ اس کے گلے کو جکڑ لیتا۔ وہ بولنا چاہتا چیخنا چاہتا مگر اس کے گلے سے آواز نہ نکلتی۔وہ سنہری بالوں کا گچھا اس کی زبان پر گانٹھ باندھ دیتا جس کی وجہ سے اس کی زبان دوہری ہو کر باہر کو لٹک جاتی۔ وہ سنہری بالوں کے گچھے کو ہاتھوں سے توڑنا چاہتا لیکن وہ اس کے ہاتھ زخمی ہو جاتے اور زبان پر گرہ مذید سخت ہو جاتی۔ اس کی آنکھ کھل کاتی تو انہی سنہری بالوں کی ایک بل کھاتی لکیر اس کی آنکھوں میں گھس جاتی اور اس کی آنکھیں ویسے ہی جلنے لگتیں جیسے صبح بابا جی کے سٹال پر ریت آنکھوں میں جانے سے جلنے لگیں تھیں۔ وہ آنکھوں کو زور زور سے ملتا اور کراہنا شروع ہو جاتا۔
پھر آنکھ لگتی تو خون اور پیشاب کی ایک لکیر سرخ اور پیلے سانپ کی شکل اختیار کر لیتی اور اس کے پاؤں سے ہوتی ہوئی اس کے ٹانگوں سے لپٹ جاتی ۔وہ سانپ گچھا بنا کر اس کے سینے پر بیٹھا رہتا اور اس کی دم اس کی ٹانگوں سے لپٹی رہتی۔ وہ اپنی ٹانگیں ہلانے کی کوشش کرتا لیکن وہ سرخ اور پیلے سانپ نے ایسے باندھ رکھی ہوتیں کہ وہ ہل ہی نہیں پاتا تھا۔ ایک دفعہ اسی سانپ کی دم اس کے مقعد میں گھس گئی اور وہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھا۔ اسے لگا جیسے کسی نے تیزاب سے وہ جگہ جلا دی ہے۔ اور وہاں سے آگ اور دھواں نکل رہا ہے ۔ اس کی بیوی اٹھ کر بیٹھ گئی اور حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔ فہیم کی آنکھوں میں اورمقعد میں ایک ہی جیسی جلن تھی۔ اسے اپنی بیوی اور بیٹی دونوں دھندلے نظر آئے۔ اس نے اپنی بیوی سے معذرت کی اور اٹھ کر ساتھ والے کمرے میں چلا گیا۔ اس نے اپنی آنکھوں پر پانی کے چھینٹے مارے اور جلن کم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن پانی اس کی آنکھوں میں تیزاب کی مانند لگا۔ اور اس کی پھر چیخ نکل گئی۔ وہ وہیں بے ہوش ہو گیا۔
صبح اس کی آنکھ کھلی تو وہ واپس اسی بستر پر تھا۔ جہاں سے رات کو بھاگا تھا۔ کچھ دوائیاں اس کے سرہانے رکھی تھیں۔ گیارہ بجے ہوں گے جب اس نے طے کیا وہ آفس جائے گا اور چھٹی نہیں کرے گا ۔ اس کی ماں اور بیوی نے بہت منع کیا لیکن اس نے انہیں یقین دلا دیا کے اب وہ ٹھیک ہے اور دفتر جا سکتا ہے۔ اس کمرے سے فرار کا کوئی اور راستہ اسے نظر نہیں آیا۔
دفتر میں بھی وہی گفتگو تھی۔۔ اس نے بہت کنی کترانے کی کوشش کی لیکن ہر بندہ ایک ہی گفتگو کرنے پر تلا ہوا تھا۔ اور ہر فقرہ نشتر کی طرح اس کے سینے میں گھسا جا رہا تھا۔
“رذیل اور کمینے لوگ ہیں۔ سنا ہے کسی انٹرنیشنل ویب سائیٹ کو بیچ دیتے ہیں ویڈیوز بنا کے۔ کیوں کیا بچوں کی ویڈیوز زیادہ مہنگی بکتی ہیں۔ ہاں سنا تو ایسے ہی ہے۔ ذہنی مرض ہے بچوں کی ایسی ویڈیوز دیکھنا۔تم نے فہیم وہ نئی ریسرچ پڑھی ہے جو امریکہ سے سے چھپی ہے۔ ؟ اس میں اس مرض کی بڑی تفصیل چھپی ہے۔ ان لوگوں کو بعد میں پریشانی بھی نہیں ہوتی بلکہ یہ والدین کو پریشان دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ انہیں لگ رہا ہو کہ انہیں پھانسی ہو جائے گی یہ پھر بھی یہی کام کریں گے۔ اذیت پسند ہوتے ہیں۔۔ اب بھائی کوئی دیکھتا ہے تو بنتی ہیں۔ بھئی بڑا پرافٹ ہو گا اس کام میں تو۔ ہر برے کام میں پرافٹ ہوتا۔ پر اللہ کی پھٹکار بھی پڑتی۔ ہم نے تو نہیں دیکھی پھٹکار پڑتے۔ پڑتی تو ہے بھائی لوگو۔ جلد پڑے یا بدیر۔۔ لیکن اصل مسلہ تو والدین کا ہے۔ ان پر کیا گذرتی ہے۔ یار بچوں کے بارے بھی سوچو۔۔۔ مطلب اتنا چھوٹا بچہ۔۔ وہ تو بیچارہ ہر چیز کو کھلونا سمجھ رہا ہوتا ہو گا ۔۔ اور اس کے ساتھ کیا ہو جاتا ہو گا۔ “
فہیم کو الٹی آ گئی۔۔ وہ واش روم تک پہنچتا پہنچتا بھی کچھ کارپٹ گندہ کر گیا۔۔ الٹی اتنی شدید تھی۔ کہ اس کو لگا اس کی ساری انتڑیاں جو کچھ اس کے اندر موجود ہے لیکر باہر نکل آئیں گی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ کموڈ کے اوپر سر رکھے اور سو جائے۔اس عجیب سی خواہش پر اسے رونا آ گیا۔۔ لیکن ایک عجیب سا خیال پھانس کی طرح اس کے دل میں چبھ گیا۔ کہ اس کی کوئی انتڑی باہر آ کر اس کے گلے میں ہار کی طرح لٹک گئی ہے۔ اور وہ کسی بھی وقت اس کے گلے میں پھندے کی طرح پھنس جائے گی اور اسے پھانسی ہو جائے گی۔اس نے بار بار ہاتھ لگا کر اپنا ہارٹٹولا۔ہر دفعہ اس کو یہی محسوس ہوا کہ ہار وہیں لٹک رہا ہے۔ اور اس کی بدبو سے اس کے دماغ میں جھکڑ چلنے لگے۔ وہ کچھ دیر کموڈ پر بیٹھا رہا۔ اور اپنے گلے میں لٹکنے والی انتڑی سے کھیلتا رہا۔ پھر اٹھ کر باہر آ گیا۔ باہر خاکروب نے صفائی میں مصروف تھا۔ شاید دفتر کا کارپٹ اٹھایا جا رہا ہے۔ اس نے خود کو مخاطب کیا۔
“صاحب جی۔ طبعیت ٹھیک اب ؟ ۔۔ ” خاکروب نے اس سوال کیا۔
فہیم کو کچھ سمجھ نہیں آئی کہ اس بات کا کیا جواب دے۔ وہ چپ کر کے گذر گیا۔
ہال میں اس کی واپسی پر دو منٹ کے لئے گفتگو اس کی طبیعت پر پلٹ گئی۔
“فہیم ۔۔۔ گھر چلے جاؤ۔ صبح بھی طبعیت کی وجہ سے لیٹ آئے ہو۔ چھٹی کر لیتے آج۔ گاڑی چلا لو گے ۔ یا میں چھوڑ آؤں۔ ” کوئی ملی جلی سی آوازیں تھیں۔ اس کو کچھ سمجھ نہیں آئی کہ کونسی بات کس نے کی ہے۔ ایک لمحے کے لئے اس کے دل میں خیال آیا کہ کاش اسے کوئی گھر تک چھوڑ دے۔ مگر گھر جانے کا خیال پھر اس پر وحشت بن کر اتر آیا۔ اور وہ خالی خالی نظروں سے سامنے دروازے کی سمت دیکھنے لگا۔ اس کے دفتر کے ساتھی کچھ وقت اس کی طر ف دیکھتے رہے پھر کام کرنے کے بہانے باتوں میں مصروف ہو گئے۔
تھوڑی دیر بعد وہی گفتگو جو اس کو دور سے آتی سنائی دے رہی تھی اونچی ہونے لگی اور اس کے کان ذرا سماعت کے قابل ہونے لگے تو اسے ادراک ہوا کہ ابھی تک وہی بات چل رہی ہے۔ آخری آواز امجد کی اس کے کان میں پڑی۔
“یار کتنا نرم ملائم گوشت ہوتا ہے بچوں کا۔ کتنا ظالم آدمی ہو گا جس نے ایسا کچھ کیا ہو گا۔ ” اور وہ پھٹ پڑا۔
بے غیرت آدمی ۔ تمہیں دکھ ہے یا تم مزے لے رہے ہو۔۔ الو کا ۔۔” اور پھر اس کے منھ سے گالیاں نکلتی گئیں۔ امجد اٹھ کر اسے مارنے دوڑا اور جب تک باقی کولیگز پہنچے دونوں کا منھ زخمی ہو چکا تھا ۔
فہیم نے اسی حالت میں گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی ماں اور بیوی نے کچھ سوال پوچھے لیکن وہ کوئی جواب نہیں دے سکا۔ آخر وہ بھی خاموش ہو گئیں۔ اس کی بیٹی اس کی گود میں بیٹھ کر رونے لگی۔
“بابا کو ہائی ہو گئی ہے۔ بابا کا کھون نکلا ہے۔ بابا کو ہائی ہوئی ہے۔ ” فیہم نے وہیں صوفے پر سر رکھ کرسونے کی کوشش کی۔ لیکن وہ جیسے ہی اپنی بیٹی کی آواز سنتا تھا ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا تھا۔
“آپ نیند کی گولی لے لیں۔ صبح ڈاکٹر صاحب دے گئے تھے کہ اگر نیند نہ آئے تو آدھی گولی لے لیں۔ ” بیوی نے فہیم کو مخاطب کیا۔
فہیم نے گولی کھا لی اور حیرت انگیز طور پر سو گیا۔
رات کا پچھلا پہر تھا جب ایک چیخوں سے فہیم کی بیوی کی آنکھ کھل گئی۔ واش روم کا بلب جل رہا تھا۔ وہ ننگے پاؤں بھاگی۔ فرش پر فہیم لیٹا ہوا تھا۔ اور خون بکھرا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بلیڈ تھا۔ اور منھ پر ایک مسکراہٹ۔ پاس ہی ایک چھوٹا ساعضو ایسے پھڑپھڑا رہا تھا جیسے چھپکلی کی دم کٹنے کے کچھ دیر بعد تک پھڑپھڑاتی رہتی ہے۔