غزل ۔۔۔ سبط علی صبا
غزل
(سبط علی صبا)
لبوں پہ نام میرا حرف واجبی ٹھہرا
میں خاندان میں تمثیل مفلسی ٹھہرا
کَلون کا شور بھی ذہنوں کو بانجھ کر نہ سکا
مقابلے میں سپر بن کے آدمی ٹھہرا
بتاو کیسے کروں حادثے کی تاویلیں
ہر ایک زخم ستم کی نشاں دہی ٹھہرا
زباں کی گرہیں کھلیں تو طلسم ابجد کا
درون حلقہ احباب دشمنی ٹھہرا
رموز مکتب ہستی کسی پہ کھل نہ سکے
بقید ِ زیست ہر اک شخص مبتدی ٹھہرا
Facebook Comments Box