نظم ۔۔۔ الیاس بابر اعوان
ہمارے دن گزر گئے
الیاس بابر اعوان
گھروں میں کوئی پیڑ ہے نہ موتیے کی بیل ہے
نہ دال کو بھگارتی ہوئی جوان لڑکیاں
کہ سب چلن بدل گیا
فراغتوں کے دن گئے
گئیں وہ کُنجِ وقت کی سفید ریش ساعتیں
شجر کی راہداریاں اُجڑ گئیں
گھنی دوپہر میں کھُلی کھُلی سی دھوپ کا سفر بھی رُک گیا
گلی کے سُرخ موڑ پر
کنارِ شام نقرئی لباس میں جمالتی ہوئی شریر اپسرانہیں رہی
وہ رِیش میں گندھے ہوئے
بدن کا خم زمین پر اتارتے ہوئے ضعیف لاٹھیوں پہ ڈولتے
خمیدہ سر نہیں رہے
وہ ٹائروں سے کھیلتا غبار اڑاتا بچپنا
وہ سانولے حجاب میں سفیدمسکراہٹیں
حیا کی سبز کترنیں کہ جن پہ سُرخ موتیوں کا نیلگوں لحاف تھا
نجانے کون سمت ہیں
جلے بجھے سے دیپ ہیں نظر کی رہگزار میں
ذرا ذرا سی روشنی کہ جس میں خام عجلتیں
بدن کے داغ سینچتیں
جھکے جھکے مزاج پر تنی تنی سی الجھنیں
دلیل سے وراہے ساری گفتگو کا سانحہ
ذرا ذار سی زندگی ، بڑا بڑا سا خوف ہے
لبوں کے سرخ بام پر ملالِ رفتگاں نہیں
فراستوں کا قحط ہے
ملامتوں کا عہد ہے
ہمیں فریبِ زندگی ، ذرا سا کام کیا پڑا
ہمارے دن گزر گئے