غزل ۔۔۔ اتباف ابرک
غزل
اتباف ابرک
ہم شجر سے نہیں سائے سے وفا کرتے ہیں
یہی ہے وجہ کہ ہم لوگ دغا کرتے ہیں
ہم پرندے ہیں ہمیں قید میں رکھنا، ورنہ
پر نکلتے ہی ہواؤں میں اڑا کرتے ہیں
اپنی تقدیر بھی ہے رستوں سے ملتی جلتی
کس تگ و دو سے بچھڑنے کو ملا کرتے ہیں
ہم کو معلوم تو ہوتی ہے حقیقت لیکن
یار جو بھی کہے سچ مان لیا کرتے ہیں
زندگی ہم کہاں جیتے ہیں یہ جیتی ہے ہمیں
ہم تو بس گردشِ ایام جیا کرتے ہیں
کتنی خواہش تھی تجھے زیست منایا جائے
اور منانے میں تجھے اور خفا کرتے ہیں
حق یہی ہے کہ جئیں اور یہاں جینے دیں
اور یہی کام کہاں لوگ کیا کرتے ہیں
ہم نے بس لفظوں کا ملبوس دیا ہے ابرک
درد، غم، رنج، الم، لوگ عطا کرتے ہیں
Facebook Comments Box