Sapiens by Yuval Noah Harari: Book Review
یہ کتاب قارئین کو بنی نوع انسان کے ارتقا کے بارے میں آگاہ کرنے کی عمدہ کوشش ہے۔ بنی نوع انسان کی ابتداء اور ارتقاء اور تنازعات اس کا موضوع ہیں۔ یوول نوح ہراری نے اپنی کتاب۔ انسان ذات سیپن کی ایک مختصر تاریخ رقم کی ہے اور اس کو مختلف عنوانات سے مرصع کیا ہے۔ یہ تمام عنوانات سیپینز اور بنی نوع انسان کے ارتقا کو گہرائی کی تفہیم دیتے ہیں۔ تاریخ کے طالبعلموں کے لئے خاص طور پر اور سنجیدہ قاری کے لئے عام طور پر اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔( اردو میں اس پر اظہار خیال ذرا مشکل ہے کہ اسمیں استعمال کی گئی بہت سی اصطلاحیں اردو میں درست مطلب کی عکاسی نہیں کر پایئں۔)
اس کتاب کا انگریزی ترجمہ 2014 میں نوح ہراری نے خود ہی کیا تھا۔یہی کتاب میں نےبھی مطالعہ کی ہے۔ کتاب پہلی بار عبرانی زبان میں 2011 میں شائع ہوئی تھی ، اور بعد میں یہ برطانیہ میں انگریزی میں شائع ہوئی تھی۔ مختلف زبانوں میں اس کتاب کی موجودگی ، اس بات کی تصدیق ہے کہ کتاب کی طلب خوب ہے ۔ تاریخ کے اس دلچسپ تذکرےمیں تدریسی موضوعات جیسے کہ ‘علمی انقلاب ، زرعی انقلاب ، انسانیت کا اتحاد ، سائنسی انقلاب’ مستقبل کی ایک جھلک اوردیگر کئی عنوانات زیر بحث لائے گئے ہیں۔ اس موضوع پر اس سے پہلے چارلس ڈارون کے نظریات ثقہ ہیں تاہم اس کتاب میں پروفیسر حرار ی نے ارتقا اور زیادہ تفصیل سے کشید کیا ہے اور آسانی سے سمجھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔یہ کتاب غیر افسانوی ہوتے ہوئے بھی افسانے کا مزہ دیتی ہے۔ اس کے مطالعے سے کچھ لوگوں کے ذہنوں کے دریچے وا ہوں گے اور ہو سکتا ہے کچھ توبہ نعوذ باللہ کہہ کر کتاب ایک طرف پھینک دیں۔
کتاب بنیادی طور پر جوہر کی دریافت، ڈی این اے کی جینیات اور کمپیوٹر کی بائنری لسانیات، (جو کہ اب تک کی تین اہم دریافتیں ہیں) جیسے مظاہر سے حیاتیات کی اصل کے ساتھ کھلتی ہے۔ کتاب کے شروع میں حیاتیات کے وجود میں آنے کے سلسلے میں جو تاریخی وضاحت دی گئی ہے وہ اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ اب تک سایئنسی فکر پر ڈارون کے فطری چناو کا نظریہ غالب تھا لیکن حیاتیاتی انجینیرنگ کی اہلیت نے ذہین ساخت کو فطری چناو پر حاکمیت دے دی ہے۔ ڈارون کے مخالفین ذہین ساخت کا سہرا اپنے اپنے عقائد کے مطابق کسی خدا کے سر باندھتے رہے ہیں۔ اب انسان خود قدرتی ساخت کو اپنی ضرورت اور ذہانت کے اعتبار سے تبدیل کرنے کا اہل ہے۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ ہومو سیپین سادہ حیاتیات سے پیچیدہ حیاتیات میں تبدیل ہوئے۔ یہ کتاب، لاکھوں برس پہلے انسان کی آمد سے اس انالحق کے موڑ تک کے سفر کی خوبصورت روئداد ہے
کتاب کا پہلا باب ہی انسانی اہلیت کے انقلاب کی کہانی بیان کرتا ہے۔ بگ بینگ کو ہوئے تو ساڑھے تیرہ ارب سال گزرے، کوئی 25 لاکھ سال پہلے سے انسان کا وجود ہے تو پھر آخر وہ کیا وجہ تھی کہ 24 سال گزرنے کے بعد، آج سےمحض ستر ہزار سال پہلے انسانی ترقی کی رفتار تیز ہوئی۔ اس کی وجہ کیا ہماری اہلیت کی بیداری ہے ؟ اہم ترین موڑ دس ہزار سال پہلے زرعی انقلاب کی آمد ہے جب انسان، شکار اور تلاش کے مشغلے کو ترک کر کے گندم کا غلام ہوا۔تاریخ کے ساتھ سفر کرتے ہوئے حراری نے سلطنتوں کے بننے اور مٹنے کے اسباب پر بحث کی ہے۔ اس نے زبانوں کی کھوج کی ہے۔ وہ اس بات کا قائل ہے کہ حیاتیات، سادہ حیاتیات سے پیدا ہوئے اور پیچیدہ حیاتیات بن گئے۔ یہ انسانیت کے ارتقا کا ایک عمل ہے جو آہستہ آہستہ ہوتا ہے ، لیکن انسانی زندگی میں زبردست تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔۔ انسانیت کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ،ہر بصیرت کے بعد نئی بصیرت کی تفصیل ہے اس کتاب میں۔
بہت سی ہومو نسلوں کا ترتیب سے ذکر کیا گیا ہے ، ۔ ہومو نیندرٹھنیلنس ، ہومو ایریکٹس ، ہومو ہابلیس ، ہومو فلوریسیینس، سب وقت کے ساتھ موجود تھیں ، ہم صرف ایک ہی وجود ہیں لیکن ” علمی انقلاب” نے ہمیں متاثر کن اور تشویشناک بنا دیا۔ ہماری گپ شپ کرنے کی صلاحیت، بولی اور لکھے جانے والی زبان کی ایجاد، ایک دوسرے کے بارے میں اچھی بری باتیں کرنا اور پھر سکے کی ایجاد کے بعد ” نوٹوں ” کا حصول۔پھر یہی گپ شپ اور فکشن جب کچھ تعمیری ہو گئے اور جہالت کم ہوئی تو حراری کے مطابق سائنس نے جنم لیا۔ حراری کے مطابق سائنس ایک افسانہ ہے۔ ایک من گھڑت چیز۔ قدرتی دنیا میں کچھ بھی نہیں ہے جو ‘سائنس’ ہے –ہم اسکے بغیر دسیوں ہزاروں سال زندہ رہے۔ ہم نے اسے بنا یا ، اور اگر ہم ختم ہوجائیں تو ، یہ بھی ختم ہوجائے گی۔ لیکن ساتھ ہی وہ اسے مفید بھی قرار دیتا ہے۔ کیونکہ ہم اسے پچھلے، محض پندرہ سو سالوں ،سے مستقل طور پر بہتر بنا رہے ہیں ۔ یہ سائنس ہی ہے جس کی بدولت آج انسانی آبادی میں چودہ گنا اضافہ ، پیداوار میں 240 گنا ، اور توانائی کی کھپت میں 115 گنا اضافہ ہوا ہے۔ سب سے زیادہ ترقی پچھلی پانچ صدیوں میں ہوئی جب انسانوں کو تیزی سے یہ خیال آیا کہ وہ سائنسی تحقیق میں سرمایہ کاری کرکے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرسکتے ہیں۔
پچھلے کئی ہزار سال سے زمانہ حال تک انسانیت ، اپنی بقا کی جنگ، تین بڑے دشمنوں کے خلاف لڑتی رہی بیماری، قحط اور جنگ۔ ان تینوں عفریتوں نے تاریخ کے مختلف ادوارمیں کروڑوں انسانی جانوں پر ہاتھ صاف کیا۔ لیکن اب انسانیت نے ان تینوں پر قابو پا لیا ہے۔ اب توانسانیت کے ایجنڈے میں موت کو شکست دینا بھی شامل ہے۔ بظاہر یہ ایک ناممکن امر لگتا ہے لیکن آج کے انسان کے پاس وہ صلاحیتیں ہیں جو پہلے زمانوں میں صرف دیوتاؤں کی صفت سمجھی جاتی تھیں۔ لیکن آج کا عہد جہاں دنیا میں علاج معالجہ، تجارت، کھیتی باڑی، پیغامات کی ترسیل اور آمدورفت اور ان جیسی بے شمار کام مشینیں کر رہی ہوں، اُس دنیا میں سب سے قیمتی چیز انسان کا ڈیٹا ہے جسے پڑھ کر کمپیوٹر انسان کو سمجھتا اور اسی حساب سے ردِعمل بھی دیتا ہے۔ اپنے ارد گرد کی دنیا میں نظر دوڑایئں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا پر مشینیں حکومت کررہی ہیں۔ حراری کے مطابق یہ مشینیں انسان کو ویسے ہی اپنا مطیع بنا کر رکھ د یں گی جیسے انسان نے مویشیوں، پرندوں کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہے۔ یہ مشینیں فیصلہ کریں گی کہ کون سا انسان سسٹم کےلیے فائدہ مند ہے اور سسٹم کے وسیع تر مفاد میں کس کی زندگی کی قربانی دی جا سکتی ہے۔ کونسی خواہش انسان کے دل میں پیدا ہونی چاہیے، انسان کیا کھائے، کیا پیے اور کیسے سوئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کاہل، بددیانت اور بےفائدہ انسان تلف کردیئے جائیں گے اور صرف ’’سپر ہیومنز‘‘ باقی بچیں گے جو مشینوں کی مدد سے موت کو شکست دے دیں گے۔ ویسے بڑی حد تک اب بھی مشینیں ہی ہماری زندگی کے بیشتر فیصلے کر رہی ہیں۔
اس کتاب میں، حراری نے سیپیئنز سے ہومو سیپیئنز اور مستقبل کے سوپر ہیومن کے ارتقا کو سمجھانے کے لئے گزشتہ ادوار کو تین حصون میں تقسیم کیا ہے اور ہر حصہ ایک نفیس کہانی لگتا ہے۔ یہاں انکی تفصیل تو کیا اختصار بھی بہت طویل ہو جائےگا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ حراری نے ان ’’کہانیوں‘‘ کے تذکرے میں مذہب، فلسفہ، وطنیت اور بادشاہت کے ساتھ ساتھ کمیونزم اور لبرل ازم کو بھی شامل کیا ہے۔
یہ ایک عمدہ کتاب ہے۔ اندازِبیان بہت پرکشش ہے۔ نان فکشن میں فکشن کا مزہ۔دلائل کو ایک روانی کے ساتھ دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اسکا مطالعہ بہت ضروری ہے۔
Read more from Rashid Javed Ahmed
Read more Book Reviews