پراگ: فلم ریویو ۔۔۔ راشد جاوید احمد
پراگ : ہندی فلم
تبصرہ : راشد جاوید احمد
اشیش شکلا کی لکھی اور ڈائرکٹ کی اس فلم میں چندن رائے سنیال، ایلینا کازن، عارف لمبا، سونیا بندرا اور کمار ماینک نے کردار ادا کئے ہیں۔ چندن رائے اس فلم کا مرکزی کردار ہے اور یہ فلم اسکے اندرونی تضادات اور زندگی کی حقیقتوں کے تصادم سے عبارت ہے۔ فلم کے مطابق چندن رائے ایک محنتی اور جانفشانی سے کام کرنے والا ار کی ٹیکت ہے جو بھارت سے اپنے دوست آر کی ٹیکت گنیش، جس سے وہ بہت متاثر ہے اور اسکی تقلید کرنا چاہتا ہے لیکن اس سے خائف بھی ہے، کے ساتھ چیک ری پبلک کے کیپیٹل پراگ میں ایک پراجیکٹ مکمل کرنے کے لئے آتا ہے لیکن بھارت میں گزرا، آزاد منش عورت، شوبھانگی کے ساتھ اسکا تعلق، جو بعد میں اسکے دوست گنیش سے ہی تعلق قائم کر لیتی اسکے لئے نہ صرف تکلیف دہ ہے بلکہ وہ روح میں چبھی اس سول سے پیچھا بھی نہیں چھڑا پاتا۔ چندن اس گزرے حادثے کی بنا پر کم اعتمادی کا شکارہے اور اپنے سائے سے بھی عدم تحفظ محسوس کرتا ہے۔ پراگ میں چندن کی ملاقات ایک جپسی لڑکی ایلینا سے ہوتی ہے ۔ دونوں کے درمیان رومانس پروان چڑھتا ہے۔ ایلینا کے ساتھ اسکا تعلق اس وقت تک بہت اچھا رہتا ہے جب تک کہ گنیش ان کے درمیان نہیں آتا ۔ ماضی میں گنیش کی وجہ سے اس کی زندگی جہنم بن چکی ہے۔ ان تاریک لمحات میں اسکے لئے اگر کہیں سکون کے کوئی لمحات ہیں تو اسکے واحد دوست عارفی کی باتوں سے ہیں لیکن فلم میں آگے چل کر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عارفی کا تو سرے سے کوئی وجود ہی نہیں اور گلشن بھی دراصل چندن ہی کی ایک اضافت یعنی ایکسٹنشن ہے۔ اور یہ سارے کردار چندن کے دماغ کی پیداوار ہیں۔
فلم کا بنیادی خیال یا کہانی بظاہر تو بہت دلچسپ ہے لیکن اس کی بنت بہت کمزور ہے۔ اندرونی طور پر ایک تنہا شخص کے احساسات کو سمجھنا اور پردہ سکرین پر لانا بہت عمدہ کام ہے۔ اسمیں اسکے دوستوں گلشن اور عارفی کے کردار بھی زبردست ہیں۔ شوبھانگی کے ساتھ چندن کے مراسم، عارفی کا سایہ اور گلشن کی مداخلت، کچھ دیر کے لئے تو دیکھنے والے کو کہانی کے سحر میں مبتلا کرتے ہیں ۔ اس سب کو قابل تعریف سینز کے ذریعے دکھایا گیا ہے۔ انامیکا فلم کا گانا، میری بھیگی بھیگی پلکوں ، کے استعمال سے بات کافی واضح کرنے کی درست کوشش کی گئی ہے۔
مکالموں سے کہانی میں پوشیدہ بولڈ باتوں کا اظہار کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ لیکن اسکرپٹ کافی ڈھیلا ہے اور کرداروں کی عمیق کوشش کے باوجود وہ بات نہیں بن پائی جو کہانی کی روح ہے۔ کہیں کہیں تو پلات، کہانی سے با لکل الگ دکھائی دیتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں کی راہیں ہی مختلف ہیں۔ فلم کے کردار یک جہتی کردار ہیں اور اسی بنا پر دیکھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ایلینا اور چندن کے درمیاں محبت کا پہلا سین جاندار ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ تعلق پروان چڑھے گا لیکن بعد میں ان میں کوئی شدت اور گرمی نظر نہیں آئی جس کی وجہ سے یہ ایک ٹھس سا تعلق نظر آتا ہے۔ ایک عام انسان کے ذاتی، اندرونی تضادات کے حوالے سے یہ ایک بہت اچھی سوچی گئی کہانی لگتی ہے لیکن دیکھنے والوں کے لئے اس میں کافی کمیاں ہیں۔ بعض جگہ تو ایسا لگتا ہے کہ کردار کہانی کی تفصیل بتاتے ہوئے رک گئے ہیں ۔سکرپٹ کے ذریعے اس موضوع کو جتنا تہہ در تہہ بنایا جا سکتا تھا اس پر شاید غور نہیں کیا گیا اور یہ ایک عام سادہ سی کہانی بن کر رہ گئی ہے۔
چندن رائے نے اپنا کردار خون نبھایا ہے، ناظر کے لئے اسکی مسکراہٹ بہت دلکش ہے۔ اسے اپنی کردار نگاری پر مکمل اعتماد اور عبور ہے۔ مجھے اگر اس فلم میں کسی چیز نے تھوڑا بہت متاثر کیا ہے تو وہ چندن کی پرفارمنس ہے۔ ایکٹنگ سے قطع نظر، ایلینا کازن ایک خوشگوار چہرے کی مالک ہے ۔ کمار مایانک نے سپوڑٹنگ رول بہت خوبصورتی سے نبھایا ہےجس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ عارف لمبا اور سونیا بندرا نے اپنے کام سے مایوس کیا ہے۔ کہانی کے مطابق عارف لمبا ایک متاثر کن کردار ادا کر سکتا تھا لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔
جہاں تک فلم کی ہدایت کاری کا تعلق ہے تو اشیش شکلا نے کوشش تو بہت کی ہے لیکن ڈھیلے سکرپٹ کی بنا پر اسکے جوہر ماند پڑ گئے ہیں۔حالانکہ سکرپٹ میں بھی ڈائریکٹر کی شرکت ہے۔ ایک ایسا کردار جو خود ساختہ تضادات اور ان سے باہر زندگی کی حقیقتوں کے درمیاں پھنسا ہواہو ، کمال خوبی سے پینٹ کیا جا سکتا تھا ، خاص طور پر عارفی کا کردار جو چندن کو ہر جگہ، ہر وقت ہانٹ کرتا ہے۔ شکلا نے پراگ شہر کے ہڈیوں سے بنے چرچ کو استعمال کر کے اس نفسیاتی کہانی کو خوب بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس فلم کی سینماٹوگرافی بھی بہت عمدہ ہے۔
کہانی کے موضوع کو درست طریقے سے سکرپٹ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے یہ ایک بڑی فلم نہیں بن پائی۔ تاہم کرداروں کی کوشش اور ڈائریکشن کی وجہ سے آپ فلم دیکھ سکتے ہیں۔