نمی دانم چہ منزل بود ۔۔۔ شہناز پروین سحر
Shehnaz Parveen Sahar is one of the prominent, famous and senior poets. Pathos is part of her poetry and is highly effective feature of her poems. This quality amply speaks about her experiences in life and stirs up emotions of sympathy and sorrow.
نمی دانم چہ منزل بود
( شہناز پروین سحر )
ڈھلتی عمر کی چادر کو
چہرے سے ہٹا کر
سمے کا پیہہ الٹا دوڑا
سارے منظر
واپس بھاگے
رکو ذرا
بس اس منزل پر
گاڑی روکو
دور کسی گھر کے فرشوں پر
وقت کا چہرہ
ہانپ رہا ہے
لمحہ لمحہ
کانپ رہا ہے
اب کی بار تو گیند کو میں
گرنے نہیں دوں گی
پورے سو ٹھپے کر کے چھوڑوں گی
گیند اچھلی
اور
سیدھی
ابو کی ٹیبل پر چڑھ بیٹھی
ایک کتاب گری وہاں سے
اور اس میں سے
اک تصویر گری
مرے ابو کی تصویر تھی وہ
لیکن ان کے ساتھ میں کوئی
اور ہی لڑکی بیٹھی تھی
کون ہے یہ ؟؟؟؟؟
میں سرپٹ بھاگی ماں کے پاس
گئی کچن میں
امی
ابو کو تو دیکھو
ان کے ساتھ کوئی لڑکی بیٹھی ہے
امی نے تصویر کو لے کر
واپس اسی کتاب میں رکھا
اور پھر الٹا مجھی کو ڈانٹا
چِمٹے سے ماروں گی
اب جو تجھ کو
اپنے ابو کی
چیزوں میں
گھستے دیکھا
لیکن ماں
یہ ؟؟؟؟؟
ابو کے ساتھ جو بیٹھی ہے
اس ۔۔۔۔۔ تصویر میں
کون ہے یہ ؟؟؟
اور میرے ابو کے ساتھ
یہ کیوں بیٹھی ہے ؟؟؟
اچھا
یہ ۔۔۔۔
پگلی یہ تو میں بیٹھی ہوں
نہیں نہیں ماں
یہ تو کوئی اور ہی ہے
تم کیسے ہو سکتی ہو
دیکھو !
غور سے دیکھو ناں ماں
کہا نا تم سے
یہ میں ہی ہوں
پہلے میں
ایسی دکھتی تھی
حیرت سے میں دیکھتی رہ گئی
اچھا ؟
ایسی تھی میری امی
پہلے ایسی دکھتی تھی
میں سوچ میں پڑ گئی
اگلے دن
پھر سے
تصویر نکال کے لے آئی میں
اور اپنے ابو کو دکھائی
ابو جی
امی کہتی ہیں
یہ ان کی تصویر ہے
اور پہلے وہ
ایسی دکھتی تھیں
ابو !
پہلے امی سندر تھیں یا اب مری امی سندر ہیں
ابو تھوڑا چپ سے ہو گئے
کچھ نہیں بولے
میں نے پھر پوچھا تو بولے
پہلے اس تصویر میں اچھی نہیں تھی وہ
لیکن اب
سندر لگتی ہے
یہ کہہ کر ابو نے
تصویر کو مجھ سے لے کر پھاڑ دیا تھا
کہنے لگے
شام کو میں جلدی آوں گا
پھر ہم تینوں جایئں گے
ایک نیا فوٹو بنوا کر لایئں گے
جس میں ہم تینوں ہوں گے
اور
تمہاری امی
جیسی ہے
وہ ویسی نظر بھی آئے گی
اس دن جب تصویر بنی تو
ہم تینوں ہی کتنے خوش تھے
بس مسکان تھی چہروں پر
ایک امر لمحہ
ٹیبل پر
جھلملا رہا تھا
وہ بچپن تو دور کہیں
گم گشتہ ویرانوں میں
جا کر
چھپا ہوا ہے
امی ابو جانے کس دنیا میں چلے گئے ہیں
خالی گھر ہے
سارے ہنستے بولتے لمحے
اپنا چہرہ کھو بیٹھے ہیں
سائے ہیں جو
حیرت سے
دم سادھے چپ چاپ پڑے ہیں
ٹیبل پر رکھی تصویر نے
برسوں کی
مٹی اوڑھی ہے
کیا ممکن ہے
اس منظر سے دھول ہٹا کر
وقت ہمیں آزاد کرے
اس گھر کو پھر آباد کرے
سیٹی بج گئی
گاڑی اب
پوری رفتار سے بھاگ پڑی ہے
لیکن
اس منزل میں
چھوٹے سے اُس گھر کے اندر
وہیں کہیں میں
اپنی آنکھیں بھول آئی ہوں