غزل ۔۔۔ ذوالفقار تابش

تابش

سمندر تھا مگر اس کا کنارہ ایک ہی تھا

جہاں سے بھی اسے دیکھا نظارا ایک ہی تھا

ہزاروں ندیاں تھیں، لاکھوں دریا بہہ رہے تھے

بہت سے روپ تھے پانی کا دھارا ایک ہی تھا

بہت سے آسماں تھے جو ستاروں سے بھرے تھے

افق پر صبح روشن کا ستارا ایک ہی تھا

عجب بستی تھی وہ جس میں نہ جانے کتنے گھر تھے

مگر ان سب گھروں میں سب سے پیارا ایک ہی تھا

وہ سب کی سن رہا، سب کودلاسا دے رہا تھا

جہاں دیکھا دکھی دل کا سہارا ایک ہی تھا

نجانے اس پہ کیوں لوگوں میں جھگڑے بڑھ گئے تھے

خدا ویسے ہمارا اور تمہارا ایک ہی تھا

وہ جنگل تھا درختوں، پھول، پتوں، جھاڑیوں کا

اسے جب دھیان سے دیکھا تو سارا ایک ہی تھا

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2025
M T W T F S S
 123456
78910111213
14151617181920
21222324252627
282930