پیٹ میں جلتا ایندھن ۔۔۔ انجلا ہمیش
پیٹ میں جلتا ایندھن
انجلا ء ہمیش
بھوک کے عدم توازن نظام کی
وجہ سے
کبھی کبھی شدت سے بھڑکتا ہے
زندہ رہنے کی جدوجہد
ایک تماشے سے زیادہ کیا
تماش بین پھر بھی مطمئن نہیں
وہ کسی مرحلہ پہ داد نہیں دیتا
اس کا اصرار ہے کہ دوڑتے رہو
کبھی کبھی سانسیں بے ربط ہوجاتی ہیں
اداس پانی
محبت کو بے رنگ کیے جاتا ہے
ذرا دیکھو تو ایک ہی شاہراہ پر
زندگی اور موت
ساتھ ساتھ چلے جاتے ہیں
ایک جبری نظام سے دوسرے جبری نظام تک
جانے کے لئے
کیسے کیسے حادثوں سے بچتے
وہاں پہنچتے ہیں
جہاں کتنے وقت سے سوکھا پڑا ہے
سوکھے وجود
حالات کی بے رحمی نے جن سے ہنسی اور نمی چھین لی
وہ یہ جاننا ہی نہیں چاہتے جو ایک وجود ان کے ساتھ وقت کو بھوگ رہا ہے
وہ زندگی تو بہت پہلے ہار چکا ہے
جسم کی مشقت زندگی نہیں
ری سیکائلنگ کا عمل ہے