موت کی آخری ہچکی ۔۔۔ روشانے سبین
موت کی آخری ہچکی ( روشانے سبین ) رات کے بےمعنی قصے گٹا ر کی
موت کی آخری ہچکی ( روشانے سبین ) رات کے بےمعنی قصے گٹا ر کی
مسجد کے سائے میں چھوٹا سا بچہ وہ ننھا فرشتہ بے بس، بے گھر چلنے
نظم بہت آسان تھی پہلے نظم بہت آسان تھی پہلے گھر کے آگے پیپل کی
ایک نظم کہیں سے بھی شرو ع ہو سکتی ہے ایک نظم کہیں سے بھی
سوال سڑکوں پہ سناٹا ہے اور جن عمروں میں مائیں بیٹوں کے سگریٹ سے سلگے
گُم شدہ پینٹنگ ( تنویر قاضی ) باقی جسم درختوں کی اوٹ میں تھا گھوڑے
غزل ( نجیب احمد ) شب بَھلی تھی نہ دن بُرا تھا کوئی جیسا جی
غزل ( شہزاد احمد ) دُوریء منزل کا ٹھکانہ نہیں سانس بھی لینے کا زمانہ
“ایک خط ــــــ آشنا ورثوں کے نام” (اختر حسین جعفری ) گئے زمانے کے راستے
راکھ (سیمیں درانی ) کتنے خدا بپھرے چنگھاڑتے پھرتے ہیں کالی جبینیں،ناتریشیدا بال اہنے اپنےشبدوں