غزل ۔۔۔ قیصر عباس
غزل ( قیصر عباس ) اپنے بے نام اندھیروں کوسنبھالے رکھوں میں نکل جاؤں تواس
غزل ( قیصر عباس ) اپنے بے نام اندھیروں کوسنبھالے رکھوں میں نکل جاؤں تواس
غزل ( ظہیر کاشمیری ) بے سبب بیٹھے رہے دیدہ ء بیدار کے ساتھ ظلمتیں
غزل ( غلام حسین ساجد ) چراغ کی اوٹ میں رکا ہے جو اک ہیولیٰ
خوش خوراک بدن سدرہ سحر عمران )) دل بستگی کے لئے مختلف نسلوں اور ذائقوں
نظم ( شکیلہ عزیز زادہ) (کابل۔ افغانستان ) اچھا شگن نہیں ہیں، یہ الفاظ، مت
نظم (سرمد صبائی) ایک وہ پل جو شہر کی خفیہ مٹھی میں جگنو بن کر
کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے ( صغیر ملال ) کسی انسان کو اپنا
نئے سلیقے کا جشن غم ہے ( نسیم سیـد) تمہارے جملوں میں چھوٹی چھوٹی یہ
“غزل” غلام محمد قاصر کَشتی بھی نہیں بدلی، دریا بھی نہیں بدلا اور ڈوُبنے والوں
زندگی لاگرتھم کا مسئلہ نہیں ( ثروت زہرا ) میں تمھارے ہمراہ رقص کرنا چاہتی