یاد ۔۔۔ ثمینہ سید
یاد ثمینہ سید تمہیں بھی یاد تو ہو گا کہ کیسے تم چلے آئے مجھے
یاد ثمینہ سید تمہیں بھی یاد تو ہو گا کہ کیسے تم چلے آئے مجھے
بندھن کا بوجھ ثمینہ سید “اس سے پہلے کہ آپ ہمیں کہیں سیر کےلیے لے
نیند میں چلتے ہوئے غلام حسین ساجد مبصر۔۔۔۔۔ ثمینہ سید غلام حسین ساجد کا شمار
غزل. ثمینہ سید دل کی دھرتی پہ کوئی پھول اگائیں کیسے شام ہوتے ہی تجھے
غزل ثمینہ سید ذرا بارش برستی ہے شگوفے جاگ اٹھتے ہیں کئی رنگوں کی خوشبو
مادھو ثمینہ سید رونقاں زوراں تے سن الہڑ ناریاں پیراں اچ گھنگھرو پاکے مست نچ
غزل ثمینہ سید چاہتوں سے مفر نہیں ہوتا اس کے دل تک سفر نہیں ہوتا
بلند بخت کیمرے سیٹ ہورہیے سن.پروگرام پروڈیوسر اپنا اپنا کم سنبھالن دی تیاری کررہے سن
کنواں ( افسانے ) .محمود احمد قاضی تبصرہ نگار ؛؛ .ثمینہ سید حرف جب سے
غزل ثمینہ سید عنوان بدلتے رہے,تحریر نہ بدلی نیا سال بھی آیا ,تعزیر نہ بدلی