او کوئی ۔۔۔ کوامے مکفرسن

Ocoee

او کوئی

افسانہ نگار : کوامے مکفرسن(جمیکا))

مترجم : محمد فیصل))

میں فیصلہ نہیں کرپارہا تھا کہ میں رُک جاؤں یا یہ کہ میرے پاس سفر جاری رکھنے کے لیے خوارک، چپس،ببل گم اور گانوں کامناسب ذخیرہ دستیاب ہے۔گاڑی کے میوزک پلئیر میں مائیکل جیکسن بین(Ben)کے متعلق گارہا تھا۔ مجھے بچپن سے ہی یہ فلم بے حد پسند تھی اور مائیکل جیکسن کا تو میں اور بھی دیوانہ تھا۔ اس کے باوجود، مجھے رکنا چاہیےتاکہ میں تھوڑی دیر اپنی ٹانگیں سیدھی کر لوں اور واش روم کا چکر لگالوں۔ سورج ڈوبنے والاتھا اور اگر مجھے تاخیر کا سامنا نہ کرنا پڑتا تو میں اس جگہ سے میلوں آگے ہوتا۔ ایک پنکچر ٹائر سے نمٹنا دو پنکچر ٹائروں سے نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ ایک سردرد جس کی مجھے ضرورت تو نہیں تھی مگر مجھے اسے برداشت کرنا اور منٹوں نہیں گھنٹوں کی تاخیر برداشت کرنا پڑی۔ اگریہ کہا جائے کہ میں مشتعل ہوچکا تھا تویہ کسرِ بیانی ہوگی۔

میں نے سوچ لیا کہ اگلے آنے والے شہر یا قصبے میں رات بسر کروں گا۔ خاص طور پر اس تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے جو میری آنکھوں میں سما رہی تھی، اور جس کی وجہ سے یہ کئی مرتبہ بند ہونے لگی تھیں۔ میں نے اس کا بھرپورمقابلہ کیا۔ مجھے گرما گرم خوراک کی طلب ہو رہی تھی۔ آخری کھانا پانچ گھنٹے قبل کھایا تھااور اس کے بعد چپس وغیرہ صحت کے لیے ٹھیک نہیں تھا۔

بڑا سا چاند کسی فلیش لائٹ کی طرح چمک رہا تھااور اس کی چاندنی سے جہاں تک میری آنکھیں دیکھ پا رہی تھیں ،چاروں اور پھیلا ویرانہ جگمگا رہا تھا۔پہاڑیوں میں دڑاریں تک چاندنی میں نمایاں تھیں۔ میرے دائیں جانب، میلوں دور ایک سیاہ لکیر میرا تعاقب کر رہی تھی، یہ لکیر دراصل ایک خشک اور چٹیل پہاڑی سلسلہ تھا۔ اس کا نام اب مجھے یاد نہیں۔ میرے دائیں جانب کچھ بھی نہیں تھا، ہر طرف خالی پن نظر آرہا تھا۔

مائیکل اب Living Off The Wallگارہا تھا اور میری انگلیاں سٹیرنگ پر اسی دھن میں حرکت کر رہی تھیں۔میں اپنے سب سے زیادہ پسندیدہ گلوکار سے اسی طرح لطف اندوز ہوتا ہوں۔ GPSپر نظر دوڑائی تو میلوں دور کسی شہر کا نام و نشان نہ تھا۔ میرا گمان تھا کہ جیسے ایک قصبہ گزرا ہے ، ایسے ہی اور بھی ہوں گے، ایک تو میں پیچھے چھوڑ آیا تھا ، جس میں سڑک کے دونوں طرف شاپنگ مال، ایک کیفے، ٹرک ڈرائیورز کے لیے ہوٹل اور تھوڑی دیر آرام کے لیے مخصوص احاطے ، گیس سٹیشن، دواخانہ اور پولیس سٹیشن واقع تھے۔سکول اور ہسپتا ل میلوں دور ہوں گے جنھیں ہائی وے سے دیکھنا ممکن نہ تھا۔

اچانک GPSپر ایک نقطہ ابھرا۔ میں نے اس پر نظر دوڑائی تو پتا چلا کہ یہ پہلے سکرین پر نہیں نظر آرہا تھا۔ اس جگہ کا نام اوکوئی تھا۔ میری آنکھیں گڑبڑا گئیں۔ سامنےایک قصبہ آرہا تھا، جس کی روشنیاں اورعمارتیں اب نظر آنے لگی تھیں۔ اس کا نام سے ذہن میں کچھ نہیں ابھررہا تھا، اس کا نام بھی کسی آسیب زدہ علاقے کی طرح کا تھاجو دور دراز علاقوںمیں واقع ہوتی ہیں۔اس لطیفے پر میں خود ہی ہنسنے لگا۔ مجھے اندھیری اور ویران جگہوں کا کوئی خوف نہ تھا، اور ان کے بارے میں مجھے اس وقت پتا چلا جب میں کیری بیئن میں بچپن گزارکر بڑا ہوچکا تھا، اس زمانے میں دادا نے کسی غیر مرئی بچھڑے، عورت کی روح اور سیاہ دل کے مالک بھوت کے بارے میں بتایا تھا۔ ان کی کہانیوں سے میرے بھائی اور بہن کی گھگھی بندھ جاتی مگر میں ہنستا رہتا۔ اور اب سابق فوجی ہونے کے باعث جو جگہیں میں دیکھ چکا تھا ، اس سے مجھے یقین تھا کہ میں کسی ویران یا آسیب زدہ جگہ سے خوف زدہ نہیں ہوں گا۔ مگر میں صرف خود کو طفل تسلیاں دے رہاتھا۔ ایسے کئی موقع آئے جب نیند آنا بے حد مشکل تھا۔جب مائیکل Thriller Nightگارہا تھا تو میں نے زوردار قہقہہ لگایا۔

میں قصبےسے ایک میل سے کم فاصلے پر ہوں گا جب میں عقبی آئینے میں سرخ اور نیلی روشنیوں کی چمک نظر آئی۔ان کے آنے کا پتا ہی نہ چلااور یقیناً میں انھیں نظر انداز کر تے ہوئے آگے نکل آیا تھا۔ شاید میں مائیکل کی Lady in My Lifeمیں گم ہوگیا تھا، یقیناََ میری نہیں اس کی زندگی میں۔ میری خاتون کا تو دور تک پتا نہ تھا۔ اپنے تجربے سے میں یہ سیکھ چکا تھا کہ اندھیری اور سنسنان سڑکوں پر رکنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ ایک رات شہر میں ، مجھے پولیس کی ایک گاڑی کے لیےرکنا پڑا جو پچھلے پانچ بلاکس سے میرے پیچھے تھی۔ انھوں نے کہا کہ یہ معمول کی کارروائی ہے، انھوں نے مجھ سے شناختی کارڈ کا مطالبہ کیا مگر میں نے انکار کردیا۔ اس کی بجائے میں نے اپنے دفتر کا کارڈ ان کے سامنے لہرادیاکیوں کہ مجھے اپنے آئینی حقوق کا علم تھا۔ انھوں نے مجھے گرفتاری کی دھمکی دی، ان کے بقول میں ان کے تفتیشی عمل میں رکاوٹیں ڈال رہا ہوں کیوں کہ میرا حلیہ شراب خانے میں ڈکیتی کرنے والے مفرورشخص سے ملتا ہے۔چوں کہ میں اپنے گھر کی طرف رواں دواں تھا ، لہٰذا میرے گلے میں دفتر کا کارڈ اور ایک بیگ تھا جس میں میرا ضروری سامان تھا۔مجھے اس طرح موردِ الزام ٹھہرانے کے بعد ایک آفیسر نے فیصلہ کیا کہ مجھے ہتھکڑی لگا دی جائے۔ میں نے کبھی ان کی گاڑی کو اندر سے نہیں دیکھا تھا۔ مان لیتے ہیں کہ میرے ساتھ بہت زیادہ برا ہوگا، میرا پولیس ریکارڈ بن جائے گا یا پھر میں جیل چلا جاؤں گا۔ میرے اجداد میرے ساتھ ایک بہترین وکیل کی صورت موجودتھے ۔

پولیس کی گاڑی کی ہیڈ لائٹس اور سائرن کی روشنیاں قریب آرہی تھیں۔ میں نےمناسب رفتار برقرار رکھی، زیادہ تیز نہیں کہ میں چاہ رہا تھا کہ کرائے کی اس گاڑی میں شہر تک پہنچ جاؤں۔ میں اوکوئی کے مضافات میں تھا کہ پولیس کی گاڑی میرے آگے آن کرمیرا راستہ روک لیا۔ میں نے گاڑی روک لی۔

میں اس انتظار میں تھا کہ کوئی پولیس والاآئے گا مگر اس گاڑی سے کوئی نہ اُترا۔ میں نے بریک لگاتے وقت گھڑی پر نگاہ ڈالی تھی، اب جو نظر دوڑائی تو پتا چلا کہ پانچ منٹ گزر چکے ہیں۔ میں حیران تھا کہ وہ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں، شاید وہ منتظر ہیں کہ میں پریشان ہو جاؤں یا پھر وہ میری نمبر پلیٹ کی تصدیق کررہے ہوں گے۔ میں نے دو منٹ مزید انتظار کیا۔ آخر دونوں اطراف کے دروازے کھُلے اور دو باوردی اہل کار باہر نکلے۔

وہ اعتماد کے ساتھ چل رہے تھے، ایک لمبا اور پتلا اور دوسرا موٹا اور چھوٹ۔ الف، نون، میں مسکرایا۔ ان کے ہاتھوں میں دبی ٹارچ لائٹوں سے میری آنکھیں بند ہو رہی تھیںاور میری کھڑکی سے ایک میٹر کے فاصلے پر کھڑے ہو کر لمبا آفیسر دہاڑا

مجھے اپنے ہاتھ دکھاؤ!

میں نے دونوں کھڑکی سے باہر نکال دیے۔ موٹے والے نے ٹارچ اندر دوڑائی جس سے گاڑی جگمگا گئی۔

کہاں جارہے ہو برخوردار!

میں سوچنے لگا کہ2022 میں مجھے برخوردار کہا جارہا ہے۔

کیا آپ میرا ڈرائیونگ لائسنس اور کاغذات دیکھنا چاہیں گے۔

میں نے اسے سر نہیں کہا۔

برخوردار! میں نے آپ سے کچھ پوچھا تھا۔

یہ دوسری بار تھا کہ اس نے مجھے برخوردار کہا تھا۔ میں نے پھر کہا

کیا آپ نے میرے کاغذات دیکھنے ہیں۔

یہاں جو کرنا ہے وہ بتا نا میرا کام ہے، برخوردار۔

تیسری بار۔

میں کچھ نہ بولا۔ میرے ہاتھ کھڑکی سے باہر تھے۔ مجھے اندازہ تھا کہ اس طرح روکے جانے کے کیا نقصانات ہوسکتے تھے اور میں کل کی سرخیوں کا گمان بھی کرسکتا تھا۔ کسی کو میرے گزر جانے کا پتا بھی نہ چلتا یا شاید میرے قتل کا۔ میں بہت دور آچکا تھا، دور تک کوئی دوسری گاڑی نہیں تھی۔ خالی پن اور دور ایک قصبے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ میں بالکل تنہا تھا۔مگر میں خوف زدہ نہ تھا۔گزشتہ عراقی جنگ میں میری یونٹ اور میں صحرا میں بچھڑ گئے۔ ہم کسی علاقے میں پٹرول پر تھےاور ہم پر حملہ ہوگیا۔ فائرنگ کے تبادلے کے بعد گرفتاری سے بچنے کے لیے وہاں سے بھاگنا ضروری تھا، اور اس کا مطلب تھا کہ چھپ کر راستے میں آنے والے ہر شخص کو ٹھکانے لگا کر نکل لیا جائے ۔ میں اس جنگ میں ہر شے دیکھ چکا تھا، ہر پٹرول پر کسی نہ کسی کی موت واقع ہوتی۔ تب میں واقعی خوف زدہ رہتا تھا۔

باہر آؤ! ابھی!

کیا میں آپ کا نام اور بیج نمبر جان سکتا ہوں!

اس نے جواب نہ دیا۔ اس کے بجائے اس نے ٹارچ پچھلی سیٹ کچھ ڈھونڈنے کے لیےڈالی ۔روشنی کے انعکاس سے میں اس کو بہتر طور پردیکھ پارہا تھا۔ اس کا ایک ہاتھ اس کے دائیں جانب ہولسٹر پر تھا۔ میں اس کی بات ماننے پر تیار پر نہ تھا کیوں کہ میں ایسے بہت سے واقعات سن چکا تھا جس میں سیاہ فام افراد گاڑی سے اترے اور مارے گئے۔ میرا ایک دوست بھی ایسے ہی مارا گیا تھا۔ اس کے جنازے میں شرکت اور اس کے خاندان کی حالت بہت دل شکن مرحلہ تھا۔ میں اسے قتل کرنے والےپولیس والوں کو قتل کرنا چاہتا تھا۔

برخوردار! تم نے میری بات سنی۔

چوتھی مرتبہ۔ مگر پانچویں مرتبہ کی نوبت ہی نہیں آئی کہ وہ، جو بھی تھا اچانک ہی ہوگیا۔ میں نے عقبی شیشے میں دور سے آتی روشنی کا عکس دیکھا۔اس کا سائز بڑھتا جارہا تھا۔ مالٹائی سرخ جو تیزی سے گردش کررہا تھا۔ بہت عرصہ پہلے ایسی روشنی میں نے ایک تھرفٹ سٹور میں دیکھی تھی۔ ان رنگوں سے مجھے وہ دن یاد آگئے جب میں جنگ لڑرہا تھا، ان دیکھے دشمنوں پر توپوں کی گولہ باری سے آسمان انھی روشنیوں سے منور ہوجاتا ۔شیشے پر نظر آنے والی روشنیاں بالکل اسی طرح دکھائی دے رہی تھیں جیسے توپ سے گولہ نکلنے کے بعد اس کی نال سے لپکے باہر آتے ہیں۔ روشنی کا سائز بڑھتا جارہا تھا۔

موٹے آفیسر نے اسے پہلے دیکھا اور پھر اسے دیکھنے کے لیے پورا مڑ گیا، خوف سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ اس کے منہ سے نکلا

یہ کیا بلا ہے؟

آنےوالی روشنی اب شیشے پر قبضہ جما چکی تھی۔ لمبے آفیسر کو بھی اس کا اندازہ ہوا اور اس نے اپنا ہتھیار باہر نکال لیا۔ میں نےبے اختیاری میں اپنے ہاتھ اندر کھینچے اور سیٹ پر دبک گیا۔ میں خود کو ہرحال میں زندہ دیکھنا چاہتا تھا۔ مجھے اچانک دونوں آفیسرز کے چیخنے کی آوازیں آئیں، ان کی آوازیں میں درد تھا اور پھر گولیوں کی بوچھاڑ نے رات کی خاموشی میں طوفان برپا کردیا۔ دونوں نے اپنے ہتھیار مکمل خالی کر دیے۔ میں نے سترہ فائر گنے، ایک بھی میری گاڑی پر فائر نہیں کیا گیا تھا۔میں نے اپنا سر کھڑکی سے نیچے کیا ہوا تھا اور دونوں بازو اس پر رکھے ہوئے تھے۔ آنکھیں مکمل بند تھیں مگر پھر بھی مجھے ناچتی روشنیوں کا احساس ہورہا تھا۔ پھر ایک زور دار آواز آئی اور مکمل خاموشی طاری ہوگئی، اتنی کہ جھینگروں کی آواز سنائی دینے لگی۔ میں نے سر اٹھایا۔ آفیسر ز اور ان کی گاڑی غائب تھی۔ جس جگہ وہ کھڑے تھے ، بالکل صاف تھی جیسے وہ کبھی یہا ں آئے ہی نہیں۔ روشنیاں غائب تھیں اور رات اتنی پُرسکون تھی ، جتنا کہ اس واقعے سے پہلے۔ میرے پسینے پھوٹ پڑے۔

میں نے ترنت روشنیاں جلائیں اور باہر نکل کر اس جگہ کا معائنہ کیاجہاں دونوں کھڑے تھے۔فلیش لائٹ کی طرح چمکتا چاند، سب غائب۔ نہ وہاں خون تھا، نہ ہڈیاں۔ میں باہر نکل کر اس طرف بڑھا جہاں ان کی گاڑی کھڑی تھی، نہ گاڑی کے نشان نہ کچھ اور۔ یہ سب کچھ ناقابل سمجھ اور وضاحت تھااور مجھے اس طرح کی باتوں سے نفرت تھی۔ میں وا پس دوڑا ، گاڑی سٹارٹ کی اور وہاں سے چل دیا۔ مجھے ذرہ بھر اندازہ نہ تھا کہ یہاں کیا ہوا ہے اور میں خواہش کررہا رتھا کہ کاش اس سمے اس تاریک سڑک کے بجائے کہیں اور ہوتا۔میں دس منٹ سے بھی کم وقت میںقصبے میں پہنچ گیا۔ میںپسینے میں نہایا ہواتھا اور جسم پر کپکپی طاری تھی۔

٭٭٭

قصبہ میری توقع کے بر عکس تھا۔ وہاں بہت زیادہ عمارات اور سٹور نظر آرہے تھے۔ مگر کچھ باتیں عجیب بھی تھیں۔ سڑک پرکوئی گاڑی نہ تھی۔ نہ ٹرک، کار، بائیک یا سائیکل ۔بہت زیادہ روشن مرکزی شاہ راہ مکمل خالی تھی۔ چوراہوں پر ٹریفک لائٹس کام کر رہی تھیں مگر ہر شے سنسان۔ وہاں واقع روشن اور شان دار دکانوں کے باہر کوئی نہ کوئی کھڑاہاتھ ہلا رہا تھا،شاید وہ دکانوں کے مالک ہوں، میں نے سوچا۔ ابتداََ مجھے شک گزرا کہ وہ شاید میری طرف دیکھ کر ہاتھ ہلارہے ہیں،ہوسکتا ہے کہ یہاں ہر نئے آنےوالے کا استقبال ایسے ہی ہوتا ہو۔ مگر پھر ایک مسکراتی، ہاتھ ہلاتی ، بزرگ سیاہ فارم عورت نے میری طرف اشارہ کیا اور پھر مجھے یقین ہوگیا کہ سب مجھے ہی دیکھ رہے ہیں۔بوڑھی عورت مجھے اپنی دادی جیسی لگی۔ میں نے بھی ان کے اشاروں کا جواب دیا۔

میں ایک بڑے اور بہت زیادہ روشن کیفے Joe’s Homestyle Eatery کے سامنے رکا اور گاڑی سے باہر نکل آیا، میں نے چاروں جانب دیکھ کر جائزہ لیا کہ کہیں میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ اتنی زیادہ نگاہوں کا مرکز بننے پر مجھے الجھن محسوس ہورہی تھی، وہ سب میرا استقبال یوں کر رہے تھے کہ جیسے میں نے کوئی انعام جیتا ہو۔ میں کیفے کے اندر داخل ہوا۔ دروازے کے اندرونی حصے میں ایک گھنٹی نے میری آمد کا اعلان کیا اور کیفے میں خاموشی طاری ہوگئی۔ میرے بائیں جانب، مہاگنی کی لکڑی سے بنی ایک طویل بار بنی ہوئی تھی جس کے ساتھ رکھے سب سٹول بھرے ہوئے تھے اور سب افراد بیک نگاہ مجھے ہی دیکھ رہے تھے۔ سب کے چہروں ہر مسکراہٹ تھی۔ میری دائیں جانب بنے ہوئے بوتھ بھی بھرے ہوئے تھے، وہاں جوڑے اور خاندان براجمان تھے اور ان کے چہرے بھی مجھے دیکھ کر دمک رہے تھے۔ میں رک کر خود کو ایک بار دیکھنا چاہ رہا تھا کہ میرے حلیے میں کوئی ایسی چیز تو نہیں جسے دیکھ کر سب کو ہنسی آرہی ہو، جیسے آدھی شرٹ پینٹ سے باہر ہو یا میری زپ کھلی ہو۔ بار کے عقب میں ایک عظیم الجثہ سیاہ فام بوڑھا کھڑاتھا ، اس نے بڑے سے جسم پر انتہائی سپید رنگ کا ایپرن پہنا ہوا تھا۔ وہ مجھ سے قد میں تین انچ بڑا تھا۔ اس کے عقب سے کچھ برتن کھڑکنے کی آوازیں اور عمدہ مہک آرہی تھی۔ کچھ لذید چیز پک رہی تھی: فرائیڈ چکن۔ میرا معدہ آواز دینے لگا۔

میں نے سر ہلایا اور ادھر ادھر نگاہ دوڑائی۔ اچانک میرے ذہن میں جھماکا ہوا، یہاں کوئی سفید فام نظر نہیں آرہا تھا۔ ایک بھی نہیں، نہ ہی سڑک پر ، نہ ہی پارکنگ میں۔ اب تک نظر آنے والے تمام افراد سیاہ فام تھے۔ آخر وہاں موجود گاہکوں نے مجھے دیکھنا بند کردیا اور آپس میں بات چیت اور خوش گپیاں شروع کر دیں۔

ہیلو برادر! جسیم بوڑھے نے مجھے مخاطب کیااور ایک بلیک اینڈ وہائٹ فوٹو فریم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

گھرواپسی پر خوش آمدید!

گھر!

میرا سر چکرایا اور میں نے قہقہہ لگایا۔ تصویر پرانی تھی مگر اس میں چوڑی شاہ راہ اور عمارتیں نظر آرہی تھیں۔ یہ اوکوئی کی دن کے وقت کی تصویر تھی۔

گھر؟ میں تو یہاں سے گزررہا ہوں اور مجھےتو بس گرم کھانا اور ایک رات کمر سیدھی کرنے کے لیے کچھ چاہیے۔

فائن برادر! بوڑھا چوڑی مسکراہٹ لیے بولا۔

تم یہاں محفوظ ہو اور ایک پلیٹ فرائیڈ چکن، گندمی بسکٹ اور بھاپ اڑاتی کافی تمھارا انتظار کر رہی ہے۔

میں دل کھول کر ہنسا اور بولا۔

شکریہ!

ایک گاہک نے بطور خاص میرے لیے ایک سٹول خالی کیا ۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور سٹول پر بیٹھ گیا۔ مجھے یاد نہیں آرہا تھا کہ کب بڑے شہروں میں کسی سیاہ فام نے، بلکہ کسی بھی رنگت کے شخص نے میرے لیے اپنی جگہ چھوڑی ہو، کبھی نہیں۔

زور سے ہنستا ہوئے وہ بوڑھا میری جانب بڑھا اور حسب وعدہ فرائیڈ چکن، بسکٹ اور بھاپ اڑاتی کافی لے کر آیا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا ۔ اس کے پاس ایک چھوٹے برتن میں پانی اور تولیا تھا تاکہ میں ہاتھ دھو سکوں۔

تمھیں بسکٹ بہت پسند آئیں گے۔

کیوں؟

میں ہاتھ دھوتے ہوئے دریافت کیا۔

وہ کھنکھناتے لہجے میں بولا۔

یہ بالکل ایسے بنے ہیں ، جیسے تمھاری دادی بناتی تھیں۔

میں طنزیہ انداز میں مسکرایا اور بولا۔

یقیناً!اور بسکٹ کھایا۔

میری سانس رکنے لگی، ذرہ بھر بھی فرق نہیں تھا۔ یہ دادی کا مخصوص بسکٹ تھا۔ میں نے چکن چکھا، یہاں بتاتا چلوں کہ دادی جب بھی چکن کو فرائی کرتی تھیں تو اسے منہ میں لیتے ہی آنکھیں بند ہونے لگتیں، اس چکن کا ذائقہ ہی الگ تھا۔ اس بار بھی آنکھیں بند ہوگئیں۔ یہ ان کی ترکیب نہیں تھی، بلکہ ان کے ہاتھ کا بنا ہوا چکن تھا۔

یہ نہیں ہوسکتا! میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے آنکھیں کھولیں۔

میں کہاں ہوں؟ میں جانتا ہوں کہ میری دادی یہاں نہیں ہیں۔

بوڑھے نے جواب دیا۔

اوکوئی میں اور کہاں، کیا اس سے تمھیں کچھ یاد نہیں آرہا۔

نہیں! میں نے کندھے اچکائے۔

تمھیں یاد تو آنا چاہیے مگر خیر،تم محفوظ ہو اور ہمیشہ رہو گے۔ جیسے ہی کھانا ختم ہوگا، تمھارا کمرہ تیار ملے گا۔

سر ہلاتے ہوئے میں نے کھانا اور کافی ختم کی اور اس کے ساتھ ہی بوڑھے نے ایک عورت کو اشارہ کیاتاکہ مجھے میرا کمرہ پتا چل سکے۔ عورت درمیانے قد کی حامل تھی اور اس کا چہرہ بیضوی تھا۔ اس کا چہرہ نہ جانے کیوں مجھے اپنی کزن جیسالگ رہا تھا۔ اس نے میری کہنی پکڑی اورایک جانب لے کر چل دی۔

یہاں سڑکوں پر گاڑیاں کیوں نہیں ہیں اور یہاں کے سفید فام باشندے کہاں ہیں؟ میں نے چھوٹتے ہی دریافت کیا۔

اس نے اپنی گہری بھوری آنکھوں سے دیکھامگر جواب نہ دیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے چہروں میں کچھ ایسی بات تھی جیسے کہ انھیں علم تھا کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ میں جانتا تھا کہ سوال بالکل درست تھے کہ مجھے اوکوئی کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتا تھا۔ وہ بالکل خاموش رہی یہاں تک کہ ہم بہت بڑی کھڑکیوں والی تین منزلہ عمارت کے سامنے پہنچ گئے۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ قصبے میں دست یاب تمام روشنیاں اس وقت آن تھیں۔ اگر چہ مجھے اس بارے میں کچھ اندازہ نہ تھا مگر اتنی روشنیاں دیکھ کر لگ رہا تھا کہ اس قصبے کے باشندے رات میں بھی نہیں سوتے۔

آپ یہاں رات بسر کریں گے۔ ڈیسک پر ایک صاحب آپ کی رہ نمائی کے لیے موجود ہوں گے۔ شب بخیر!

اتنی دیر میں اس نے بس یہ الفاظ کہے اورواپس کیفے کی جانب بڑھ گئی۔ میں نے سرگوشی کی

شب بخیر!

وہ مسکراتا چہرہ لیے اس طرح واپس پلٹی جیسے میںنے اس کےکان میںیہ الفاط کہے ہوں۔ میں نے سر ہلایا۔ اوکوئی واقعی ایک عجیب قصبہ تھا۔

مرکزی راہ داری بہت بڑے فانوس سے منور تھی۔ پور ے ہال میں بڑی تصاویر آویزاں تھیں اور سبھی افریقہ کے متعلق تھیں۔ مجھے اس بات کا اندازہ اس لیےتھا کہ میں براعظم افریقہ میں ایسے مناظر دیکھ چکا تھا۔عمارت میں بخور کی مہک رچی ہوئی تھی۔ایسا لگ رہا تھا جیسے کہیںبخور جل رہا ہو۔ عمدہ ہال اور گملوں میں لگے پودے آنکھوں کو بھلے لگ رہے تھے۔ کاؤنٹر کے ایک جانب کئی ایلیویٹر نظر آرہے تھے، اور اس کے پیچھے ایک دبلا آدمی کھڑا ہوا تھا۔ اس کی تھوڑی پر داڑھی تھی اور سر بالوں سے صاف تھا۔ وہ جن گہری نظروں سےمجھے جس طرح دیکھ رہا تھا اس میں کوئی پیغام چھپا تھا۔ مجھے یہ نظریں مانوس محسوس ہوئیں۔ ایسی ہی نظریں میرے ایک اور شناسا کی تھیں، انکل سڈ کی۔

شب بخیر جناب! بلیک وال سٹریٹ ہوٹل میں خوش آمدید۔

اس نے بلند آواز میں کہا

آپ ایک رات یہاں قیام کریں گے۔

جی ہاں!

بہت خوب!

اس نے خوشی کے عالم میں تالی بجائی اور میری توجہ ایک رجسٹر اور ایک خوب صورت مگر قدیم قلم کی طرف دلائی۔ قلم کسی نوادر کی طرح لگ رہا تھا۔ میں یہ سوچنے سے بھی قاصر تھا کہ میں نے کبھی کسی ہوٹل میں اپنا نام لکھا ہو یا دست خط کیے ہوں۔ یہ روایات نبھانے والے لوگ تھے۔

ہم نے آپ کے لیے ٹسلا سوئٹ تیار کردیا ہے۔

میں کھل کر مسکرایا۔

سوئٹ، مجھے تو بس ایک کمرہ اور بستر درکار تھا۔ واؤ، سنیے مسٹر۔۔۔۔۔

میں نے جان بوجھ کر وقفہ لیا تا کہ وہ اپنا نام بتا دے مگر وہ خاموش رہا۔

مجھے یقین ہے کہ میں نے اس قصبے کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔۔۔۔

آہ!وہ یہ کہتے ہوئے مسکرایا۔

بہت کم لوگ ہیں مگر آپ جیسے زیادہ ہیں۔ میں آپ کو مختصر تاریخ سےآگاہ کردیتا ہوں۔ نومبر 1920 میں پانچ سو افراد کی آبادی والا قصبہ۔ سیاہ فام افراد کے لیے ترقی کا شان دار موقعہ جہاں وہ پورے اطمینان سے بہترین زندگی گزار رہے تھے۔ مگر بدقسمتی سے ایسا جاری نہ رہ سکا۔ دو بھائیوں پر سفید فام افراد نے حملہ کردیا۔ دو سفید فام مارے گئے۔ جواباََ قصبے کو راکھ کا ڈھیر بنادیا گیا اور پانچ سو افراد یا تو ماردیے گئے یا پھر انھیں قصبہ بدر کردیا گیا۔ یہ اس سال کا سب سے بڑا قتل عام تھا۔

میں خاموشی سے سنتا رہا، میرے سینے میں ایک ٹیس اٹھی۔ میں ہکلاتے ہوئے بولا۔

مجھے تو علم ہی نہ تھا، مجھے افسوس ہےتو پھر ایک نیا قصبہ تعمیر کیا گیا؟

سب ٹھیک ہے، ہم نے دوبارہ قبضہ حاصل کر لیا ہے۔

وہ پراسرار اندازمیں مسکرایا اور مجھے ایک کارڈ نما چابی تھمادی۔ کہاں قلم اور رجسٹر اور کہاں یہ کارڈ، کھلا تضاد۔

ہم صبح آپ کو کس وقت بیدار کریں؟

اوہ۔ کوئی مسئلہ نہیں، میرے دماغ میں ایک الارم موجود ہےجو اپنے وقت پر کام کرتا ہے۔

مگر اس آدمی نے دوبارہ بھرپور لہجے میں کہا

ہمیں آپ کی خدمت کر کے خوشی ہوگی۔

اوکے! اگر آپ اصرار کررہے ہیں تو مجھے سات بجے جگا دیں۔

میں نے آواز میں ممنونیت بھر کر کہا۔ دروازے خودکار طریقے سے کھلے، میں لفٹ میں داخل ہوا اور بولا

شب بخیر! مجھے آپ کانام بھول گیا، کیا بتا یا تھا؟

آدمی مسکرایا اور لفٹ کا دروازہ بند ہوگیا۔

لفٹ تیسری منزل پر رکی۔ کمرہ بے حد شان دار تھا۔ مجھے کھوج ہوئی کہ باقی کمروں میں کون کون مقیم ہے۔ افریقی مناظر، پودوں او رجانوروں کی تصاویر سے مزین راہ داریاں کمرہ پُر آسائش تھا۔ بخور کی خوش بو تیز ہو چلہ تھی۔ کمرے میں ایک جانب تپائی پر چاندی کی بالٹی میں برف کی ٹکڑیوں میں کالے رنگ کی بوتل نظر آرہی تھی۔ اس رات دوسری مرتبہ میرے دل کو کچھ ہونے لگا۔ میں نے جوتوں کے تسمے کھولے اور بستر پر بیٹھ گیا،میرے ذہن میں آنے والا خیال یہ تھا کہ تھکن کا دس ٹن بڑا ٹرک مجھ پر آن گرا اور اگلے ہی لمحے میں کپڑوں سمیت بے سدھ ہوچکا تھا۔ نرم گدے نے مجھے اپنی حفاظتی نرمی میں پوری طرح سمیٹ لیا۔ مجھے اس رات اتنی گہری اورپُرسکون نیند آئی کہ پوری زندگی ایسا سکون نہیں ملا۔ اس رات کوئی خواب بھی دکھائی نہ دیا۔

٭٭٭

کسی نے مجھے ہلایا تو میں نے آہستگی سے آنکھیں کھولیں۔ مجھے یہ یاد کرنے میں چند سیکنڈ لگے کہ میں کہاں ہوں۔ میں اچانک اٹھ بیٹھا اوراپنا سر ادھر ادھر گھمایا۔میں اپنی کار میں بیٹھا بنجر منظر نامہ دیکھ رہا تھا۔ وہاں کوئی عمارت یا مسکراتے سیاہ فام نہیں تھے، ابھرتا سورج، نیلا آسمان اور ریتلا شیطان جو بنجر زمین پر ناچ رہا تھا۔

میں نے کچھ دیر آنکھیں بند کیں او ردوبارہ کھول دیں۔ کچھ نہ بدلا۔ میں خواب نہیں دیکھ رہا تھا۔ میں نے گھڑی پر نظر دوڑائی تو صبح کے سات بج کر ایک منٹ ہوچلےتھے۔ ایک خوش بو ناک میں داخل ہوئی اور میں اس کے منبع کی تلاش میں نظر دوڑائی۔ میں خوش بو سے واقف تھا، یہ میرے ساتھ والی سیٹ پر رکھےخاکی لفافے سے پھوٹ رہی تھی۔ خاکی کاغذ میں ایک بڑی شے بھی لپٹی رکھی تھی۔

میں نے لفافہ کھولااور فرائیڈ چکن کی خوش بو تیز ہوگئی۔ میں نے تھیلے کے مشتملات ایک ایک کر کےباہر نکالے؛ گتے کے ایک کپ میں بھاپ اڑاتی کافی، سفیدڈبےمیں چکن اور بسکٹ۔ میں نے آہ بھری اور سیٹ سے ٹیک لگالی۔ میں نے دوبارہ جائزہ لیا اور GPSکو آن کیا۔ جیسے ہی سکرین آن ہوئی، تو اس پرمیلوں تک کچھ بھی نہ آرہا تھا۔ کوئی متحرک یا ساکن نقطہ نہیں، نہ کوئی شہر، قصبہ اور نہ ہی اوکوئی۔ سانس روک کر میں نے خاکی کاغذ علیحدہ کیا۔ یہ ایک بڑا چوبی فریم تھاجس میں ایک پرانی تصویر آویزاں تھی۔ میں نے یہ چوڑی سڑک اور عمارات فوراً پہچان لیں اور وہ کچھ بھی دیکھ لیا جو میں رات کو نہ دیکھ پایا تھا۔ لوگ اپنی دکانوں کے باہر رات ہی کی طرح کھڑے تھے، ایک ہی سمت میں دیکھتے ہوئے، کیمرے کی جانب، میری جانب۔ بیک وقت، بیک نگاہ۔ اور ان سب کے درمیان Joe’s Homestyle Eateryکے باہر وہ جسیم بوڑھا کھڑا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں میری آنکھوں جیسی تھیں ۔ مسکراتا ہوا اور ہاتھ اس طرح بلند جیسے ہلا رہا ہو۔

میں نے فریم کو الٹا یا۔ تمام فریم صاف تھا ماسوائے فریم کے نچلے حصے کے جہاں تصویر کے بارے میں ٹائپ رایٹر سے کچھ لکھا جاتا ہے۔ وہاں درج تھا

اوکوئی؛ 1919، جو میک لیاڈ، مئیر آف اوکوئی ،اپنے نو افتتاح شدہ کیفے کے باہر کھڑے ہیں۔ اوکوئی کے باشندے۔۔۔۔۔

اس کے بعد یہ درج تھا کہ میک لیاڈ خاندان اوکوئی کا سب سے نمایاں اورذی عزت خاندان تھا۔ مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی۔ اب مجھے یاد آیا کہ وہاں مجھے مماثلت کا خیال کیوں آرہا تھا، کیا عجیب شے تھی۔ میں اس کے ہم راہ بڑا ہوا تھا، میری پوری زندگی ا س کے ساتھ بسر ہوئی تھی۔ میں اسے خاندانی اجتماعات میں برت چکا تھا۔ میں اسے اپنے بزرگوں میں محسوس کرچکا تھا اور ان کے اس انداز میں بھی جس طوروہ مجھے گلے لگاتے تھے۔ یہ اس قصبے کے استقبال اور مماثلت میں چھپا تھا۔ یہ میرےDNAمیں تھا، وہ نادیدہ نسب نماجو وقت اور خلا کی پابندیوں سے ماورا تھا۔ وہ سب میرے اپنے تھے، وہ میں تھا، میک لیاڈ میرا خاندانی نام ہے۔

میں نے اپنا چہرہ ڈھانپا اور رونا شروع کردیا۔

Original Title: Ocoee by Kwame McPherson

مصنف کا تعارف:

کوامے مکفرسن(جمیکا)

Kwame M a McPherson

کوامے مکفرسن لندن میٹروپولیٹن یونی ورسٹی اور یونی ورسٹی آف ویسٹ منسٹر کے سابق طالب علم ہیں۔ انھیں 2007 میں Poetic Soul نامی اعزاز تفویض ہوا اور 2020 میں وہ پہلے جمیکن تھے جنھیں The Bridport Prize: International Creative Writing Competitionمیں اول انعام ملا۔ ان کی اس کہانی کو کامن ویلتھ شارٹ سٹوری پرائز برائے 2023میں سب سے بہترین کہانی کا انعام دیا گیا ہے۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930