سوانگ

(میلان کنڈیرا)

کار کے پٹرول گیج کی سوئی نے اچانک ٹینک کے خالی ہونے کا اشارہ دیا اور اسپورٹس کار کے نوجوان ڈرائیور نے اعلان کیا کہ یہ کار پاگل کر دینے کی حد تک زیادہ پٹرول کھاتی ہے۔ ’’دیکھنا کہیں پٹرول ختم نہ ہو جائے،‘‘ لڑکی نے، جو تقریباً بائیس برس کی تھی، احتجاج کیا اور نوجوان کو ان بہت سے موقعوں کی یاد دلائی جب ان کے ساتھ ایسا ہو چکا تھا۔ نوجوان نے جواب دیا کہ اسے کوئی فکر نہیں ہے کیونکہ جب وہ دونوں ساتھ ہوں تو ہر چیز ایک ایڈونچر کی سی کشش رکھتی ہے۔ لڑکی نے اعتراض کیا کہ جب کبھی ہائی وے پر یہ واقعہ ہوا ہے تو ایڈونچر سے صرف اسی کو گزرنا پڑا ہے۔ اسی کو اپنی نسوانی کشش کی مدد سے لفٹ حاصل کر کے قریبی پٹرول پمپ تک جانا اور پٹرول لے کر اسی طریقے سے واپس آنا پڑا ہے۔ نوجوان نے پوچھا کہ کیا اسے لفٹ دینے والے ڈرائیور بہت ناخوشگوار تھے کہ وہ اپنے اس کام کی دشواری کی شکایت کر رہی ہے۔ لڑکی نے شرارت سے جواب دیا کہ بعض دفعہ وہ بےحد خوشگوار تھے لیکن یہ اس کے لیے بےفائدہ تھا کیونکہ اس کے ہاتھ میں پٹرول کا ڈبا ہوتا تھا اور بات آگے بڑھنے سے پہلے اسے ان سے جدا ہوجانا پڑتا تھا۔ اس پر نوجوان نے اسے سؤر قرار دیا۔ لڑکی نے جواب میں یہ خطاب واپس لوٹایا اور کہا کہ اکیلے ڈرائیو کرنے کے دوران خداجانے کتنی لڑکیاں اسے روکتی ہوں گی۔ نوجوان نے کار چلاتے چلاتے اپنا بازو لڑکی کے کندھے پر رکھ دیا اور ماتھے پر نرمی سے اسے پیار کیا۔ اسے معلوم تھا کہ لڑکی اس سے محبت کرتی ہے اور حسد میں مبتلا ہے۔ حسد کوئی اچھی چیز نہیں ہے لیکن اگر وہ حد میں رہے اور انکسار کے ساتھ ہو تو اپنی بےاطمینانی کے باوجود ایک خوبصورت چیز ہے — کم از کم نوجوان کا خیال یہی تھا۔ اس کی عمر اٹھائیس سال کی تھی اور وہ خود کو معمّر خیال کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ اسے عورتوں کے بارے میں وہ سب کچھ معلوم ہے جو کوئی شخص جان سکتا ہے۔ اپنے پہلو میں بیٹھی لڑکی میں اسے وہی چیز سب سے زیادہ قابلِ قدر لگتی تھی جو اس نے اب تک دوسری عورتوں میں شاذ ہی دیکھی تھی: پاکیزگی!

سوئی خالی کے نشان تک پہنچ چکی تھی جب سڑک پر لگے ہوے ایک بورڈ سے اسے معلوم ہوا کہ پٹرول پمپ صرف چوتھائی میل دور ہے۔ لڑکی کو ابھی اپنے سکون کے اظہار کا موقع بھی مشکل سے ملا ہو گا کہ نوجوان نے بائیں طرف مڑنے کا اشارہ کر کے کار کو پمپ کے سامنے والی خالی جگہ میں روک لیا۔ اسے کچھ فاصلے پر رکنا پڑا کیونکہ ایک دیوہیکل ٹینکر پمپ میں پٹرول بھر رہا تھا۔ ’’ہمیں تھوڑا سا انتظار کرنا پڑے گا،‘‘ اس نے لڑکی سے کہا اور کار سے باہر نکل آیا۔ ’’کتنی دیر لگے گی؟‘‘ اس نے وردی پہنے ہوے ایک شخص سے بلند آواز میں پوچھا۔ ’’بس ایک منٹ!‘‘ اسے جواب ملا۔ ’’یہ میں پہلے بھی سن چکا ہوں،‘‘ وہ بولا اور واپس جا کر کار میں بیٹھنے لگا تھا کہ اسے لڑکی دوسرے دروازے سے باہر آتی نظر آئی۔ ’’میں اتنی دیر میں ذرا سیر کر آؤں،‘‘ وہ بولی۔ ’’کہاں؟‘‘ نوجوان نے جان بوجھ کر اسے شرمندہ کرنے کے لیے کہا۔ وہ اسے ایک سال سے جانتا تھا، لیکن اب بھی ایسی باتوں پر وہ شرما جایا کرتی تھی۔ وہ ان لمحوں کا پورا لطف اٹھاتا تھا کیونکہ ایک تو یہی بات اسے دوسری عورتوں سے ممتاز کرتی تھی — اور دوسرے وہ ہر چیز کی بےثباتی کے قانون سے واقف تھا، جس سے اس لڑکی کی شرم و حیا تک اس کے لیے ایک قیمتی چیز ہوجاتی تھی۔

لڑکی کو لمبے اور متواتر سفر کے دوران نوجوان سے درختوں کے پاس کار روکنے کو کہنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ اسے غصہ آتا تھا جب وہ مصنوعی حیرت سے پوچھتا کہ کیوں؟ وہ جانتی تھی کہ اس کی شرم مضحکہ خیز اور پرانی چیز ہے۔ کام کے دوران اس نے کئی بار لوگوں کو اس وجہ سے خود پر ہنستے ہوے پایا تھا اور وہ اسے جان بوجھ کر چھیڑنے کی کوشش کرتے تھے۔ کئی بار تو وہ اس کے بارے میں سوچ کر وقت سے پہلے ہی شرما جاتی۔ اس نے اکثر چاہا کہ اپنے جسم کے بارے میں اسی طرح آزادی اور سکون محسوس کرے جس طرح دوسری عورتیں کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ اس نے اپنی تربیت کے لیے ایک خاص مشق بھی وضع کی تھی: وہ بار بار دہراتی کہ ہر شخص کو پیدائش کے وقت بےشمار دستیاب جسموں میں سے ایک جسم مل جاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے کسی بڑے سے ہوسٹل کے بہت سے کمروں میں سے ایک کمرہ —یعنی یہ کہ جسم محض ایک اتفاقی اور غیرشخصی چیز ہے، بنی بنائی مستعار لی ہوئی ایک چیز۔ وہ طرح طرح سے یہ بات خود کو بتاتی لیکن کبھی اسے ٹھیک طرح محسوس کرنے میں کامیاب نہ ہوئی۔ روح اور جسم کی دوئی اس کے لیے ایک اجنبی بات تھی۔ اسے اپنا آپ اور اپنا جسم ایک ہی لگتا تھا، اس لیے وہ ہمیشہ اس کے بارے میں فکرمند رہا کرتی۔

اس تشویش کا تجربہ اسے اپنے اور نوجوان کے تعلق میں بھی ہوتا تھا۔ وہ اسے ایک سال سے جانتی تھی اور اس کے ساتھ خوش تھی کیونکہ وہ اس کے جسم کو اس کی روح سے جدا نہیں کرتا تھا اور وہ اس کے ساتھ سالم رہ سکتی تھی۔ اس سالمیت میں مسرت تو تھی لیکن مسرت کے پیچھے ایک شک بھی جھلکتا رہتا تھا، اور لڑکی شک سے لبریز تھی۔ مثلاً اسے اکثر خیال آتا کہ دوسری عورتیں (جو کسی تشویش میں مبتلا نہیں ہیں) زیادہ پرکشش اور ترغیب انگیز ہیں اور نوجوان، جو اُن عورتوں سے اپنی آشنائی کو راز نہیں رکھتا تھا، ایک روز اسے چھوڑ کر ایسی ہی کسی عورت کے پاس چلا جائے گا۔ (یہ درست ہے کہ نوجوان کا کہنا تھا کہ وہ ان عورتوں کو اتنا جانتا ہے جو اس کی ساری زندگی کے لیے کافی ہے، لیکن وہ جانتی تھی کہ نوجوان کی عمر اس کے خیال سے کہیں کم ہے۔) وہ اسے مکمل طور پر اپنا دیکھنا چاہتی تھی اور مکمل طور پر اس کی ہونا چاہتی تھی؛ لیکن اکثر اسے محسوس ہوتا کہ جتنا زیادہ وہ اسے سب کچھ سونپنا چاہتی، اتنا ہی اس سے کچھ نہ کچھ بچا جاتی۔ یہ ’کچھ‘ وہ تھا جو آدمی کو ایک ہلکی پھلکی اور سطحی محبت اور عامیانہ عشق بازی سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ فکرمند رہا کرتی کہ وہ سنجیدگی کو خوش دلی سے ملانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے۔

لیکن اس وقت وہ اس تشویش میں مبتلا نہیں تھی اور یہ خیالات اس سے کوسوں دور تھے۔ اسے سب کچھ اچھا لگ رہا تھا۔ یہ ان کی دو ہفتوں کی چھٹیوں کا پہلا دن تھا (جن کے خواب وہ سال بھر سے دیکھ رہی تھی)، آسمان شفاف اور نیلا تھا (سال بھر اسے فکر لگی رہی تھی کہ آیا آسمان واقعی صاف ہوگا)، اور اس وقت وہ دونوں ساتھ تھے۔ نوجوان کے ’’کہاں؟‘‘ کہنے پر وہ شرم سے سرخ ہو گئی اور خاموشی سے کار سے اتر گئی۔ وہ پٹرول پمپ کے کنارے کنارے چلنے لگی جو ہائی وے پر کھیتوں سے گھرا، تنہائی میں واقع تھا۔ جس طرف ان کا رخ تھا، اُدھر کوئی سو گز دور جنگل شروع ہوتا تھا۔ وہ اس طرف چل پڑی اور ایک جھاڑی کے پیچھے غائب ہو کر اس نے خود کو پوری طرح اپنے موڈ کے سپرد کر دیا۔ (اس شخص کے ساتھ سے پورا لطف اٹھانا اس کے لیے تنہائی ہی میں ممکن ہوتا تھا۔ تنہائی کے ان وقفوں کے بغیر اس کی موجودگی کا احساس غائب ہونے لگتا تھا۔ صرف اکیلے میں وہ اس احساس کو اپنی گرفت میں لے سکتی تھی۔)

جب وہ جنگل سے نکل کر دوبارہ سڑک تک آئی تو اسے پٹرول پمپ دکھائی دیا۔ بڑا پٹرول ٹینکر پیچھے ہٹ رہا تھا اور اسپورٹس کار پٹرول پمپ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ لڑکی سڑک پر آگے کی طرف چلنے لگی اور کبھی کبھار مڑ کر پیچھے دیکھ لیتی کہ کار آ رہی ہے یا نہیں۔ بالآخر وہ اسے آتی نظر آئی۔ اس نے رک کر کار کی طرف ایسے اشارہ کیا جیسے کسی اجنبی سے لفٹ مانگ رہی ہو۔ اسپورٹس کار کی رفتار کم ہوئی اور وہ لڑکی کے قریب آ کر رک گئی۔ نوجوان کھڑکی کی طرف جھکا، اور اس کا شیشہ اتار کر مسکراتے ہوے پوچھنے لگا، ’’کہاں کا ارادہ ہے مس؟‘‘ ’’بانسکا بسترِتسا؟‘‘ لڑکی نے ادا سے مسکرا کر پوچھا۔ ’’ہاں ہاں، ضرور!‘‘ نوجوان نے کار کا دروازہ کھول دیا۔ لڑکی کار میں بیٹھ گئی اور کار روانہ ہو گئی۔

اسے اچھے موڈ میں دیکھ کر نوجوان کو بےحد خوشی ہوتی تھی۔ ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا تھا۔ وہ ایک ناخوشگوار ماحول میں ایک تھکا دینے والی ملازمت کرتی تھی۔ اسے اوورٹائم بھی کرنا پڑتا جس کے بدلے میں اسے اضافی چھٹیاں بھی نہیں ملتی تھیں۔ اور پھر گھر پر بیمار ماں کی دیکھ بھال الگ، جس سے اس پر ہمیشہ تھکن طاری رہا کرتی۔ پھر نہ اس کے اعصاب غیرمعمولی تھے اور نہ اس میں زیادہ خوداعتمادی ہی تھی، اس لیے نوجوان اس کے خوشگوار لمحات کا والدین کی سی دردمندی سے خیرمقدم کیا کرتا۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور بولا، ’’آج میرے لیے خوش قسمتی کا دن ہے۔ میں پانچ سال سے گاڑی چلا رہا ہوں اور میں نے آج تک اتنی حسین لڑکی کو لفٹ نہیں دی۔‘‘

لڑکی کو اس دکھاوے کی تعریف میں مزہ آیا۔ وہ اس کی گرمی میں کچھ دیر اور رہنا چاہتی تھی۔ ’’تم جھوٹ اچھا بول لیتے ہو۔‘‘

’’کیا میں جھوٹا لگتا ہوں؟‘‘

’’لگتا ہے تمھیں عورتوں سے جھوٹ بولنے میں لطف آتا ہے،‘‘ لڑکی نے کہا، اور اس کی بات میں اس کے پرانے شک کا ایک شائبہ سا در آیا — اسے واقعی یقین تھا کہ نوجوان کو عورتوں کی جھوٹی تعریف میں لطف آتا ہو گا۔

لڑکی کی رقابت نوجوان کو اکثر ناگوار گزرتی تھی، لیکن اس بار وہ اسے نظرانداز کر سکتا تھا کیونکہ بہرحال یہ الفاظ اس کے نہیں بلکہ لفٹ دینے والے اجنبی ڈرائیور کے بارے میں کہے گئے تھے۔ اس نے عام سے لہجے میں کہا، ’’کیا یہ تمھیں برا لگتا ہے؟‘‘

’’اگر میں تمھارے ساتھ جا رہی ہوتی تو مجھے ضرور برا لگتا،‘‘ لڑکی بولی۔ اس کی بات میں نوجوان کے لیے ایک معنی خیز اشارہ تھا۔ لیکن اس کے جملے کا دوسرا حصہ اجنبی ڈرائیور کے لیے تھا، ’’لیکن میں تو تمھیں جانتی نہیں، اس لیے مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے۔‘‘

’’عورتیں اجنبیوں سے زیادہ اپنے مردوں کے لیے پریشان ہوتی ہیں،‘‘ یہ نوجوان کا لڑکی کے لیے ایک معنی خیز پیغام تھا، ’’اور چونکہ ہم اجنبی ہیں اس لیے ہمارا گزارہ ہو سکتا ہے۔‘‘

لڑکی جان بوجھ کر اس پیغام کو سمجھنا نہیں چاہتی تھی، اس لیے اب اس نے خاص طور پر اس اجنبی ڈرائیور کو مخاطب کیا:

’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے، جب ہمارا ساتھ تھوڑی دیر کا ہے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ نوجوان نے پوچھا۔

’’کیونکہ میں بانسکا بسترتسا میں اتر جاؤں گی۔‘‘

’’اور میں بھی ساتھ ہی اتر جاؤں تو؟‘‘

اس پر لڑکی نے اس کی طرف نظر اٹھائی، اور وہ اسے بالکل ویسا نظر آیا جیسا حسد کے تکلیف دہ ترین لمحوں میں اس کے تصور میں نظر آتا تھا۔ وہ یہ دیکھ کر چونک اٹھی کہ وہ اسے (ایک انجان لڑکی کو) کس طرح پھسلا رہا ہے، اور یہ طرزِعمل اس پر کتنا ٹھیک لگ رہا ہے۔ اس پر وہ بےرخی سے بولی، ’’تم میرے ساتھ اتر کر کیا کرو گے؟‘‘

’’مجھے زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ ایسی حسین لڑکی کے ساتھ کیا کیا جا سکتا ہے،‘‘ نوجوان نے بانکےپن سے کہا، اور اس لمحے وہ پھر اس اجنبی لڑکی سے زیادہ اپنی محبوبہ سے مخاطب تھا۔

لیکن اس شرارت آمیز فقرے سے لڑکی کو پھر ایسا لگا جیسے اس نے نوجوان کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہو، جیسے اس سے چالاکی سے اعتراف کرا لیا ہو۔ اسے نفرت کی ایک لہر سی محسوس ہوئی۔ وہ بولی، ’’لگتا ہے تمھیں خود پر کچھ زیادہ ہی اعتماد ہے۔‘‘

نوجوان نے لڑکی کی طرف دیکھا — اس کا بےنیاز چہرہ اسے بالکل تنا ہوا نظر آیا۔ اسے افسوس ہونے لگا۔ اس کا دل چاہا کہ اس چہرے پر پھر سے وہی عام جانا پہچانا تاثر واپس آ جائے (جسے وہ سادہ اور بچکانہ کہا کرتا تھا)۔ اس نے لڑکی کی طرف جھک کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور نرمی سے اس کا نام پکارا جس سے وہ اسے عام طور پر مخاطب کیا کرتا تھا۔ وہ اب اس سوانگ کو ختم کرنا چاہتا تھا۔

لیکن لڑکی نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور بولی، ’’تم کچھ زیادہ ہی تیز جا رہے ہو۔‘‘

اس فقرے پر نوجوان نے کہا، ’’معافی چاہتا ہوں،‘‘ اور خاموشی سے اپنے سامنے سڑک کو دیکھنے لگا۔

لڑکی پر اچانک طاری ہونے والے قابلِ رحم حسد نے اتنی ہی تیزی سے اس کا پیچھا چھوڑ دیا، کیونکہ بہرحال وہ ہوش مند تھی اور جانتی تھی کہ یہ صرف ایک کھیل ہے۔ اب اسے اپنا رویہ کچھ مضحکہ خیز لگ رہا تھا کہ اس نے نوجوان کو بلاوجہ بھڑکا دیا۔ اگر اسے اس کا سبب معلوم ہو جائے تو اچھی بات نہیں ہو گی۔ خوش قسمتی سے عورتوں میں وقت گزر جانے پر اپنے طرزِعمل کے معنی تبدیل کرنے کی معجزانہ صلاحیت ہوتی ہے۔ اس صلاحیت کو استعمال کرتے ہوے اس نے طے کیا کہ اس کے رویے کا سبب غصہ نہیں تھا بلکہ وہ صرف اس سوانگ کو جاری رکھنا چاہتی تھی، جو ان کی چھٹیوں کے پہلے دن کا ایک مزیدار آغاز تھا۔

تو اب وہ دوبارہ لفٹ لینے والی لڑکی تھی جس نے ابھی ابھی نوجوان کو بےرخی سے روک دیا تھا، لیکن صرف اس کی فتح کی رفتار کو کم کرنے اور اسے زیادہ لذیذ بنانے کی غرض سے۔ وہ نوجوان کی طرف تھوڑا سا جھکی اور بہلانے والے لہجے میں بولی، ’’میرا یہ مطلب نہیں تھا۔‘‘

’’نہیں، معافی چاہتا ہوں، اب میں تمھیں نہیں چھوؤں گا،‘‘ نوجوان نے کہا۔

اسے لڑکی پر غصہ آ رہا تھا کہ وہ اس کی بات نہیں سن رہی تھی اور کھیل ختم کرنے پر تیار نہیں تھی۔ اور چونکہ ان کا سوانگ جاری تھا اس لیے اس نے اپنا غصہ اس اجنبی لڑکی طرف موڑ دیا۔ اچانک اس پر اس کھیل میں اپنے کردار کا انکشاف ہوا۔ اس نے بانکےپن کی وہ تعریفی باتیں روک لیں جو دراصل بالواسطہ طور پر اس کی محبوبہ کے لیے تھیں۔ اور اب وہ ایک مرد آدمی تھا جو عورتوں کو کرختگی سے برتتا ہے: خودپسندی، بےنیازی اور اعتماد سے۔

یہ سوانگ لڑکی کے ساتھ نوجوان کے اس دردمندانہ رویے کا بالکل الٹ تھا جس کا وہ عادی تھا۔ یہ درست ہے کہ اس سے ملنے سے پہلے وہ عورتوں سے اسی کرخت انداز میں پیش آتا تھا، مگر وہ کبھی ایسا سنگدل کرخت مرد نظر آنے میں کامیاب نہ ہوا۔ اس کے باوجود ایک وقت تھا جب اسے ایسا نظر آنے کی خواہش تھی — یہ بڑی احمقانہ سی خواہش تھی مگر بہرحال تھی۔ بچکانہ خواہشیں بالغ ذہن کی تمام احتیاطوں سے بچ نکلتی ہیں اور اکثر پکی عمر تک باقی رہ جاتی ہیں۔ اس طرح اس کھیل میں اس کی بچکانہ خواہش کو اپنا اظہار کرنے کا موقع مل گیا۔

نوجوان کے اس طنزیہ روکھےپن سے لڑکی کو بڑی تسکین ہوئی۔ اس نے اسے خود سے آزاد کر دیا۔ چونکہ وہ خود اپنی رقابت کی تجسیم تھی، جونہی اسے ایک خوشامدی بانکے نوجوان کی جگہ ایک مضبوط، رسائی سے باہر چہرہ دکھائی دیا تو اس کی رقابت ختم ہو گئی۔ اب وہ خود کو بھلا کر اپنے سوانگ میں گم ہو سکتی تھی۔

اس کا سوانگ؟ کیا تھا اس کا سوانگ؟ یہ سستے عامیانہ ناولوں کا ایک کردار تھا: ایک لڑکی جو کار روکتی ہے، لفٹ لینے کے لیے نہیں بلکہ کار چلانے والے کو رِجھانے کے لیے۔ وہ دل جیتنے میں ماہر ہے اور اپنی کشش کا استعمال جانتی ہے۔ وہ اتنی آسانی سے اس کردار میں ڈھل گئی کہ اسے خود پر تعجب ہونے لگا۔

نوجوان کو اپنی زندگی میں خوش طبعی کے سوا کسی شے کی کمی محسوس نہ ہوتی تھی۔ اس کی زندگی کی شاہراہ سنگدلی کی حد تک جچی تلی اور سیدھی تھی۔ اس کی ملازمت صرف دن کے آٹھ گھنٹے ہی نہیں نگل جاتی تھی بلکہ باقی وقت میں بھی میٹنگوں اور مطالعے کی صورت میں اپنا پھن پھیلائے رکھتی۔ پھر اس کے ساتھ کام کرنے والے بےشمار مردوں اور عورتوں کی بےجا توجہ کی باعث اس کا رہاسہا نجی وقت بھی ٹھکانے لگ جاتا تھا۔ اس کی نجی زندگی بھی راز نہ رہنے پاتی بلکہ عام بے سروپا گفتگو کی زد پر رہا کرتی۔ یہ دو ہفتوں کی چھٹیاں بھی اسے اب تک آزادی اور ایڈونچر کا احساس فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھیں۔ ان پر بھی کڑی منصوبہ بندی کا گدلا سایہ تھا۔ گرمیوں میں ٹھہرنے کی جگہوں کی شدید قلت کے پیش نظر اسے چھ ماہ پہلے ہی تترس میں ایک کمرہ مخصوص کرا لینا پڑا تھا۔ اور چونکہ اس کے لیے اسے دفتر سے اجازت درکار تھی، اس لیے یہ بات بھی دفتر کے حاضر و ناظر دماغ سے لمحہ بھر چھپی نہ رہ سکی۔

ان تمام باتوں سے بھی اس نے جوں توں سمجھوتہ کر ہی لیا تھا، لیکن گاہے گاہے اسے اس طویل سیدھی شاہراہ کا تکلیف دہ خیال گھیر لیتا جہاں اس کا مسلسل تعاقب ہو رہا تھا، جہاں وہ کسی کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں تھا اور جہاں سے وہ کسی طرف مڑ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس لمحے اسے پھر اسی خیال نے گھیر لیا۔ خیالات کی ایک عجیب خلط ملط سے اس کی زندگی کی شاہراہ اس حقیقی سڑک میں ڈھل گئی جس پر وہ اس وقت رواں تھا، اور اس کے زیرِاثر اس نے ایک عجیب مجنونانہ حرکت کی۔

’’تم نے کیا بتایا تھا تمھیں کہاں جانا ہے؟‘‘ اس نے لڑکی سے پوچھا۔

’’بانسکا بسترتسا!‘‘ اس نے جواب دیا۔

’’اور وہاں تمھیں کرنا کیا ہے؟‘‘

’’کسی سے ملاقات کرنی ہے۔‘‘

’’کس سے؟‘‘

’’ہیں کوئی صاحب!‘‘

کار ایک بڑے چورستے پر پہنچے ہی والی تھی۔ اس نے سڑک کا اشارہ دیکھنے کے لیے کار کی رفتار کم کی اور اچانک دائیں طرف مڑ گیا۔

’’اگر تم اس ملاقات کے لیے نہ پہنچ سکو تو کیا ہو گا؟‘‘

’’یہ تمھارا قصور ہو گا اور پھر تمھی کو میرا خیال رکھنا پڑے گا۔‘‘

’’شاید تم نے خیال نہیں کیا کہ ہم نووزمکی کی طرف جا رہے ہیں۔‘‘

’’واقعی؟ کہیں تم پاگل تو نہیں ہو گئے؟‘‘

’’گھبراؤ مت۔ میں تمھارا اچھی طرح خیال رکھوں گا،‘‘ نوجوان نے کہا۔

کار چلتی رہی اور نوجوان اور لڑکی، جو ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے، اسی طرح باتیں کرتے رہے۔

ان کا سوانگ اچانک اونچے سُر میں داخل ہو گیا تھا۔ اسپورٹس کار نہ صرف بانسکا بسترتسا کی فرضی منزل سے دور جا رہی تھی بلکہ اس کا رخ اس اصل منزل کی طرف بھی نہیں تھا جس کی طرف وہ صبح روانہ ہوئی تھی اور جہاں ایک کمرہ اس کے مسافروں کا منتظر تھا۔ سوانگ اچانک اصل زندگی پر غالب آ گیا۔ نوجوان اپنے آپ سے اور اس طویل سیدھی شاہراہ سے دور جا رہا تھا جس پر اس سے پہلے اس نے کوئی موڑ نہیں کاٹا تھا۔

’’لیکن تم تو کہہ رہے تھے تم تترس جارہے ہو؟‘‘

’’میں وہیں جا رہا ہوں جہاں میری ترنگ مجھے لیے جا رہی ہے۔ میں ایک آزاد آدمی ہوں مس، اور میں وہی کرتا ہوں جو میرا دل چاہے۔‘‘

جب وہ نووزمکی میں داخل ہوے تو شام پڑ چکی تھی۔

نوجوان اس سے پہلے اس شہر میں کبھی نہیں آیا تھا، اس لیے اس سے آشنا ہونے میں اسے کچھ دیر لگی۔ کئی بار اس نے گاڑی روک کر راہگیروں سے ہوٹل کا راستہ پوچھا۔ گو کہ وہ زیادہ فاصلے پر نہیں تھا (جیسا کہ انھیں راستہ بتانے والے ہر شخص کا کہنا تھا)، لیکن وہ گلیوں میں بھٹکتے ہوے کوئی پندرہ منٹ میں ہوٹل پہنچے۔ ہوٹل غریب سا لگتا تھا، لیکن یہ قصبے کا واحد ہوٹل تھا اور مزید کار چلانے کو نوجوان کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ سو وہ لڑکی کو وہیں ٹھہرنے کے لیے کہہ کر کار سے باہر نکل آیا۔

کار سے باہر آ کر ظاہر ہے وہ اپنے اصل روپ میں واپس آ گیا، اور خود کو شام کے وقت بےارادہ اپنی منزل سے مختلف کسی جگہ پر پا کر اسے کوفت ہونے لگی؛ اس وجہ سے اور بھی کہ کسی نے اسے اس پر مجبور نہیں کیا تھا، اور نہ واقعی یہاں آنے کو اس کا دل چاہ رہا تھا۔ اس نے اس حماقت پر خود کو کوسا، لیکن بالآخر حالات پر راضی ہو ہی گیا۔ تترس کے کمرے کو کل بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، اور اپنی چھٹیوں کے پہلے دن کو غیرمتوقع طور پر منانے میں کوئی حرج نہیں۔

دھویں، شور اور ہجوم سے پُر ریستوراں سے گزرتے ہوے اس نے استقبالیہ کا پتا پوچھا۔ اسے برآمدے کی دوسری طرف زینے کے قریب بھیج دیا گیا، جہاں شیشے کے پیچھے ایک ازکاررفتہ بلونڈ خاتون چابیوں کے گچھوں کے نیچے بیٹھی تھی۔ بڑی مشکل سے اس نے ہوٹل کے واحد خالی کمرے کی چابی حاصل کی۔

لڑکی نے بھی خود کو تنہا پا کر اپنا سوانگ اتار پھینکا۔ اسے البتہ ایک غیرمتوقع قصبے میں خود کو پا کر کوئی کوفت نہیں ہو رہی تھی۔ وہ نوجوان کی اتنی زیادہ گرویدہ تھی کہ اس نے کبھی اس کے کسی فعل پر الجھن محسوس نہیں کی اور اعتماد سے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اسے سونپ دیا۔ دوسری طرف اچانک یہ خیال پھر اس کے ذہن میں در آیا کہ جس طرح وہ اس وقت کار میں بیٹھی اس کا انتظار کر رہی ہے، راستے میں اسے ملنے والی دوسری عورتیں بھی اسی طرح کیا کرتی ہوں گی۔ لیکن تعجب یہ کہ اب کے اسے اس خیال سے بھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی، بلکہ وہ یہ سوچ کر مسکرانے لگی کہ آج وہ خود وہ دوسری عورت ہے، وہی لاابالی اور اوباش عورت جس سے اسے جلن ہوتی تھی۔ اسے لگا کہ وہ ان سب عورتوں کا راستہ کاٹ رہی ہے، اس نے بھی ان کے ہتھیاروں کا استعمال سیکھ لیا ہے؛ اب اسے بھی نوجوان کو وہ سب کچھ دینا آ گیا ہے جو اب تک دینے میں وہ ناکام رہی تھی: خوش طبعی، بےپروائی اور آوارگی۔ ایک عجیب سی تسکین اس پر چھا گئی کہ اس میں ان تمام عورتوں کو خود میں جمع کر لینے اور اپنے محبوب کو پوری طرح اپنے قبضے میں رکھنے کی صلاحیت ہے۔

نوجوان نے کار کا دروازہ کھولا اور لڑکی کو ریستوراں میں لے گیا۔ شوروغل، بےترتیبی اور دھویں کے درمیان سے گزر کر وہ کونے کی ایک میز پر بیٹھ گئے۔

’’تو اب تم میرا کس طرح خیال رکھو گے؟‘‘ لڑکی نے اکسانے والے لہجے میں پوچھا۔

’’کچھ پینے کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘

لڑکی الکحل کی بہت زیادہ شوقین تو نہیں تھی، پھر بھی کبھی کبھار وائن سے شغل کر لیا کرتی؛ اس کے علاوہ اسے ورماؤتھ پسند تھی۔ اب کے البتہ اس نے جان بوجھ کر کہا، ’’وودکا!‘‘

’’بہت خوب!‘‘ نوجوان بولا۔ ’’امید ہے اسے پی کر تم مجھ پر گرم نہیں ہو جاؤ گی۔‘‘

’’اور اگر ہو جاؤں تو؟‘‘

نوجوان نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا، اور ویٹر کو بلا کر کر وودکا اور اسٹیک کا آرڈر دیا۔ فوراً ہی ایک ٹرے آ گئی جس میں دو چھوٹے چھوٹے گلاس رکھے تھے۔

نوجوان نے اپنا گلاس اٹھایا۔ ’’تمھارے نام!‘‘

’’کیا تم اس سے مزیدار کوئی بات نہیں سوچ سکتے؟‘‘

اس سوانگ سے اب نوجوان کو الجھن سی ہونے لگی تھی۔ اب لڑکی کے آمنے سامنے بیٹھ کر اسے محسوس ہوا کہ صرف اس کے لفظ ہی نہیں بلکہ اس کی پوری شخصیت، اس کے جسم کی حرکات اور چہرے کے تاثرات تک اس سوانگ میں شریک ہو چکے ہیں، اور وہ ناگواری کی حد تک ٹھیک ٹھیک اس قسم کی عورتوں سے مشابہ ہو چکی ہے جن سے وہ اچھی طرح واقف اور ایک حد تک بیزار تھا۔

تب نوجوان نے گلاس کو ہاتھ میں تھامے تھامے اپنا فقرہ درست کیا، ’’ٹھیک ہے، تو پھر تمھارے نام نہیں بلکہ اس صنفِ نازک کے نام جس سے تم تعلق رکھتی ہو اور جس میں حیوانوں کی بہتر اور انسانوں کی بدتر صفات کامیابی سے اکٹھی ہو گئی ہیں۔‘‘

’’صنفِ نازک سے تمھاری مراد ہے سب عورتیں؟‘‘

’’نہیں صرف تم جیسی عورتیں۔‘‘

’’خیر، عورت کا موازنہ جانور سے کرنا مجھے تو ایسی مزیدار بات نہیں لگتی۔‘‘

’’چلو پھر تمھاری صنف کے نام بھی نہیں،‘‘ نوجوان نے اپنا گلاس ابھی تک ہوا میں اٹھا رکھا تھا، ’’بلکہ تمھاری روح کے نام! یہ تو چلے گا؟ تمھاری روح کے نام جو تمھارے سر سے پیٹ کی طرف اترتے ہوے روشن ہو جاتی ہے اور سر کی طرف بلند ہوتے ہوے بجھ جاتی ہے۔‘‘

لڑکی نے بھی اپنا گلاس اٹھالیا۔ ’’یہ ٹھیک ہے — میری روح کے نام جو میرے پیٹ میں اتر آتی ہے!‘‘

’’میں اپنا فقرہ پھر سے درست کروں گا،‘‘ نوجوان بولا، ’’تمھارے پیٹ کے نام جس میں تمھاری روح اتر آتی ہے!‘‘

’’میرے پیٹ کے نام!‘‘ لڑکی نے کہا، اور اسے لگا کہ اس کا پیٹ، جس کا ذکر نام لے کر ہو رہا ہے، اس پکار کا جواب دے رہا ہے۔ اسے اپنے پیٹ کے ایک ایک انچ کا باقاعدہ احساس ہونے لگا۔

تھوڑی دیر میں ویٹر اسٹیک لے کر آ گیا۔ نوجوان نے مزید وودکا اور سوڈا منگایا (اس بار اس نے اسے لڑکی کی چھاتیوں کے نام کیا)۔ ان کی گفتگو اسی عجیب اور بیہودہ طرز میں جاری رہی۔ اس بات پر اس کی کوفت ہر لمحے بڑھتی جا رہی تھی کہ لڑکی میں اس اوباش عورت کا روپ دھارنے کی کس قدر صلاحیت ہے۔ اگر وہ اتنی کامیابی سے یہ سوانگ رچا سکتی ہے، اس نے سوچا، تو شاید یہ اس کی اصل فطرت ہو گی۔ آخر باہر سے کوئی روح تو اس پر قابض نہیں ہو گئی۔ جو روپ اس نے دھار رکھا ہے، وہی اصل میں وہ خود ہے۔ شاید یہ اس کے وجود کا وہ حصہ ہے جس پر اب تک قفل لگا ہوا تھا، اور جو اَب اس سوانگ کے ہاتھوں اپنی قید سے رہا ہو گیا ہے۔ شاید وہ یہ سمجھ رہی ہے کہ اس کھیل کے ذریعے وہ اپنے آپ سے نجات پا رہی ہے، لیکن اس کے برعکس کیا وہ دراصل اپنے حقیقی روپ میں سامنے نہیں آ رہی؟ اس کے سامنے اس کی محبوبہ کے جسم میں کوئی اجنبی عورت نہیں بیٹھی ہے — یہ وہ خود ہے، کوئی اور ہرگز نہیں۔ اس نے لڑکی پر نظر ڈالی اور اس کی بیزاری اور بڑھنے لگی۔

لیکن یہ صرف بیزاری نہیں تھی، کیونکہ جوں جوں لڑکی نفسیاتی طور پر اس سے دور ہو رہی تھی، اس کے لیے نوجوان کے دل میں جسمانی خواہش بڑھ رہی تھی۔ اس کی روح کی اجنبیت سے نوجوان کی توجہ کا رخ اس کے جسم کی جانب ہو گیا۔ درحقیقت اس کا جسم ایک ایسے جسم میں بدل گیا جو اس کے لیے تھا اور دردمندی، نزاکت، ہمدردی، محبت اور جذبے کے بادلوں کی اوٹ میں چھپا کب سے اس کی راہ دیکھ رہا تھا۔ اب تک گویا وہ جسم ان بادلوں میں گم تھا۔ نوجوان کو لگا کہ وہ لڑکی کے جسم کو آج پہلی بار دیکھ رہا ہے۔

وودکا کے تیسرے گلاس کے بعد لڑکی اٹھ کھڑی ہوئی اور ناز سے بولی، ’’معاف کیجیے گا۔‘‘

’’کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کہاں تشریف لے جا رہی ہیں؟‘‘ نوجوان نے طنز سے کہا۔

’’پیشاب کرنے، اگر آپ کی اجازت ہو تو!‘‘ لڑکی نے کہا، اور میزوں کے درمیان سے گزرتی ہوئی کونے میں لگے پردے کی طرف بڑھنے لگی۔

اس نے اپنے اس لفظ سے جس طرح نوجوان کو حیرت زدہ کر دیا تھا، اس میں اسے مزہ آنے لگا۔ یہ ایک معصوم سا لفظ تھا مگر نوجوان نے اس کے منھ سے پہلی بار سنا تھا۔ جس عورت کا سوانگ وہ رچا رہی تھی، اس کے کردار کے لیے اس لفظ اور اسے ادا کرنے کے انداز سے زیادہ اسے کوئی اور چیز موزوں نہیں لگی۔ ہاں، وہ مزے میں تھی اور اس کا موڈ بےحد خوشگوار تھا۔ وہ اس کھیل کے بس میں آ گئی۔ اس نے اسے وہ احساس بخشا جو اب تک اس کے لیے اجنبی تھا: خوش دلی اور بےپروائی کا احساس۔

وہ جو اپنے اگلے قدم کے بارے میں ہمیشہ فکرمند رہا کرتی تھی، آج اسے مکمل آزادی کا احساس ہوا۔ وہ اجنبی زندگی جس میں وہ داخل ہو گئی تھی، شرم سے آزاد تھی — یہاں تک کہ وہ سوانحی تفصیلات، ماضی اور مستقبل، ذمہ داریوں، سب سے بےنیاز تھی۔ یہ ایک غیرمعمولی طور پر کھلی زندگی تھی۔ اس اجنبی عورت کے روپ میں وہ جو جی چاہتا کر سکتی تھی، کہہ سکتی تھی اور محسوس کر سکتی تھی۔

ہال سے گزرتے ہوے اسے محسوس ہونے لگا کہ ساری میزوں سے مرد اسے دیکھ رہے ہیں۔ اس میں ایک نیا مزہ تھا جس سے وہ اب تک ناواقف رہی تھی: اس کے جسم سے پیدا ہونے والی ایک آوارہ مسرت! اب تک وہ اپنے اندر کی اس چودہ سالہ لڑکی سے پیچھا نہیں چھڑا پائی تھی جسے اپنی چھاتیوں پر شرم آیا کرتی اور جو اپنے جسم سے پھوٹنے اور صاف دکھائی دینے والے ان ابھاروں کی وجہ سے خود کو ذلیل محسوس کرتی۔ اگرچہ اسے اپنے جسم کے خوبصورت اور سڈول ہونے پر فخر تھا لیکن یہ فخر ہر بار شرم کے بوجھ تلے دب جایا کرتا۔ اسے بجا طور پر شک تھا کہ نسوانی حسن کسی اور چیز سے زیادہ جنسی اشتعال کو تحریک دیتا ہے، اور یہ بات اس کے لیے سخت ناقابلِ برداشت تھی۔ وہ چاہتی تھی اس کا جسم صرف اس مرد سے مخاطب ہو جس سے اسے محبت تھی۔ جب مرد گلی میں اس کے سینے کو گھورتے تو اسے لگتا کہ وہ اس کی اور اس کے محبوب کی خلوت میں دخل اندازی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ لیکن اس وقت تو وہ تقدیر سے آزاد ایک اجنبی عورت تھی — اس سوانگ نے اسے اس کے نازک بندھنوں سے رہا کر دیا تھا اور وہ اس وقت اپنے جسم کو پوری طرح محسوس کر رہی تھی، اور گھورنے والی نظریں اپنی اجنبیت کے باعث اس کے جسم کو اور زیادہ بیدار کر رہی تھیں۔

وہ آخری میز کے پاس سے گزر رہی تھی کہ ایک سخت مدہوش شخص اپنی قابلیت کا اظہار کرتے ہوے فرانسیسی زبان میں اس سے مخاطب ہوا: ’’?Combien, mademoiselle‘‘ (کیا ریٹ ہے، مس؟)

لڑکی فوراً سمجھ گئی۔ اس نے سینہ اور تان لیا اور اپنے کولھوں کی ایک ایک جنبش کو پوری طرح محسوس کرتے ہوے غسلخانے کے پردے کے پیچھے غائب ہو گئی۔

یہ ایک انوکھا کھیل تھا۔ اس کا انوکھاپن، مثال کے طور پر، اس بات سے ظاہر تھا کہ نوجوان، جو اگرچہ خود بھی اجنبی ڈرائیور کا سوانگ بےحد خوبی سے نبھا رہا تھا، ایک لمحے کے لیے بھی اس اجنبی عورت میں اپنی محبوبہ کو دیکھنے سے خود کو باز نہیں رکھ پا رہا تھا۔ اور یہی بات اس کے لیے اذیت ناک تھی۔ وہ اپنی محبوبہ کو ایک اجنبی مرد کا دل پرچاتے دیکھ رہا تھا، اور اسے اس موقعے پر موجود ہونے، اس کی حرکات کو قریب سے دیکھنے اور اس کی باتیں سننے کا تلخ اعزاز حاصل تھا جب وہ اس سے دغا کر رہی تھی (جیسے اس نے پہلے کبھی کیا ہو گا، یا جیسے وہ آئندہ کرے گی)۔ عجیب بات یہ تھی کہ اس کے طرزِعمل کا بہانہ بننے کا شرف بھی خود اسی کے حصے میں آ رہا تھا۔

یہ بات اور زیادہ بدتر یوں تھی کہ وہ صرف اسے چاہتا نہیں تھا، اس کی پرستش کرتا تھا۔ اسے ہمیشہ سے یقین تھا کہ اس کی محبوبہ کی فطرت صرف وفاداری اور پاکیزگی کی حدود میں حقیقی طور پر موجود ہے اور ان حدود سے باہر اس لڑکی کا وجود باقی نہیں رہ جاتا، جیسے پانی حرارت کے ایک خاص نقطے کے بعد پانی ہونا ترک کر دیتا ہے۔

لڑکی نے واپس آ کر شکایت کی، ’’وہاں ایک شخص مجھ سے کہہ رہا تھا:Combien, mademoiselle‘‘

’’اس میں حیرت کی کیا بات ہے!‘‘ نوجوان بولا۔ ’’آخر تم ایک طوائف ہی تو لگ رہی ہو۔‘‘

’’تمھیں پتا ہے میرے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟‘‘

’’تو پھر تم اس کے ساتھ چلی کیوں نہیں جاتیں؟‘‘

’’تم جو ہو!‘‘

’’میرے بعد سہی۔ اس سے طے تو کر لو!‘‘

’’مجھے وہ اچھا نہیں لگتا۔‘‘

’’یعنی ویسے تمھیں اس پر کوئی اعتراض نہیں؟ رات بھر میں ایک کے بعد ایک؟‘‘

’’اگر خوش شکل ہوں تو کیا برا ہے؟‘‘

’’ایک کے بعد ایک، یا ایک ساتھ؟‘‘

’’جیسے بھی ہو!‘‘

گفتگو درشتی کی انتہائی حدوں کو چھو رہی تھی۔ لڑکی کو اس سے ہلکا سا صدمہ پہنچا، لیکن وہ اس پر احتجاج نہ کر سکی۔ کھیل میں بھی آزادی سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ ہر کھیل کھیلنے والوں کے لیے ایک جال ہے۔ اگر یہ سوانگ نہ ہوتا اور وہ دونوں واقعی اجنبی ہوتے تو وہ لڑکی غصے میں آ کر کب کی جا چکی ہوتی۔ لیکن کھیل سے فرار ممکن نہیں — میچ ختم ہونے سے پہلے کوئی ٹیم میدان چھوڑ کر نہیں جا سکتی؛ شطرنج کے مہرے بساط سے باہر نہیں نکل سکتے — کھیل کے میدان کی سرحدیں متعین ہیں۔ لڑکی جانتی تھی کہ اب کھیل جو بھی شکل اختیار کرے، اسے تسلیم کرنا پڑے گا، صرف اس لیے کہ یہ کھیل ہے۔ اسے معلوم تھا کہ یہ جتنی زیادہ شدت اختیار کرتا جائے گا، اور زیادہ ایک کھیل کی شکل میں ڈھلتا چلا جائے گا، اور اسے اور زیادہ سپردگی سے اس میں حصہ لینا پڑے گا۔ ہوشمندی کی بات کرنا اور اپنی خیرہ روح کو یہ سمجھانا فضول ہے کہ وہ اس کھیل سے خود کو دور رکھے اور اس کے بارے میں سنجیدہ نہ ہو۔ ٹھیک اس وجہ سے کہ یہ سوانگ تھا، اس کی روح اس سے خوفزدہ نہیں تھی اور نشے کے سے عالم میں، مزاحمت کیے بغیر، اس میں اترتی چلی جا رہی تھی۔

نوجوان نے ویٹر کو بلایا اور پیسے ادا کیے۔ پھر وہ اٹھا اور لڑکی سے بولا:

’’اٹھو چلیں!‘‘

’’کہاں؟‘‘ لڑکی نے حیرت کا اظہار کیا۔

’’پوچھو مت، بس آ جاؤ!‘‘

’’یہ تم کس طرح بات کر رہے ہو؟‘‘

’’جیسے میں طوائفوں سے بات کرتا ہوں!‘‘

وہ دونوں نیم تاریک زینے پر چڑھنے لگے۔ دوسری منزل کے نیچے، سیڑھیوں کے وقفے پر، نشے میں دھت چند لوگ باتھ روم کے قریب کھڑے تھے۔ نوجوان نے لڑکی کی بغلوں میں پیچھے سے ہاتھ ڈال کر اس کی چھاتی کو پکڑ لیا۔ یہ دیکھ کر وہ لوگ آوازے کسنے لگی۔ لڑکی نے خود کو چھڑانا چاہا لیکن نوجوان نے بلند آواز میں اس سے کہا، ’’سیدھی رہو!‘‘ ان لوگوں نے اوباش انداز میں نوجوان کی اس حرکت کی داد دی اور غلیظ زبان میں لڑکی پر تبصرے کیے۔ دوسری منزل پر پہنچ کر نوجوان نے کمرے کا دروازہ کھولا اور بتی جلا دی۔

اس تنگ کمرے میں دو بستر، ایک چھوٹی سی میز، ایک کرسی اور ایک واش بیسن تھا۔ نوجوان نے چٹخنی لگائی اور لڑکی کی طرف مڑا۔ وہ اس کے سامنے آنکھوں میں ایک سرکش دعوت لیے، گریزاں انداز سے کھڑی تھی۔ نوجوان نے اس پر ایک نظر ڈالی اور اس شہوت انگیز انداز کے پیچھے اپنے محبوب شناسا خدوخال کو تلاش کرنے کی کوشش کی — کچھ یوں تھا جیسے وہ دو تصویروں کو ایک ہی لینس میں سے دیکھ رہا ہو، جیسے دو سپراِمپوزڈ تصویروں میں سے ایک، دوسری کے عقب میں جھلک رہی ہو۔ ایک دوسرے میں سے جھلکتی ہوئی یہ دو تصویریں اسے بتا رہی تھیں کہ اس لڑکی کے اندر ’سب کچھ‘ موجود ہے، کہ اس کی روح ہولناک حد تک بےہیئت ہے اور اس میں وفا اور دغا، فریب اور معصومیت، آوارگی اور پاکیزگی ایک ساتھ سمائے ہوے ہیں۔ بےترتیبی کا یہ انبار اسے کوڑے کے ڈھیر کے تنوع کی طرح ناگوار اور کریہہ محسوس ہوا۔ دونوں روپ ایک دوسرے میں سے نظر آتے رہے اور نوجوان سمجھ گیا کہ یہ لڑکی دوسری عورتوں سے محض سطح پر مختلف ہے جبکہ گہرائی میں ان سے ہوبہو مماثل ہے: ہر ممکن طرح کے خیالات، احساسات اور برائیوں سے معمور۔ یہ بات اسے اپنے اندر کے شک اور جلن کا جواز محسوس ہوئی۔ یہ تاثر کہ چند واضح خدوخال اس لڑکی کو بحیثیت فرد متشکل کرتے ہیں، دیکھنے والے کے (یعنی خود اس کے) واہمے کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ اسے لگا کہ اس کی محبوبہ اس کی آرزوؤں، اس کے خیالات اور اس کے یقین کی تخلیق ہے؛ اور وہ حقیقی لڑکی جو اس وقت اس کے سامنے کھڑی ہے، مایوس کن طور پر اجنبی اور ’مبہم‘ ہے۔ اسے اس لڑکی کے لیے شدید نفرت محسوس ہوئی۔

’’اب انتظار کاہے کا ہے؟ کپڑے اتارو!‘‘ وہ بولا۔

لڑکی نے شرارت سے سر خم کیا اور پوچھا، ’’کیا یہ ضروری ہے؟‘‘

جس انداز سے اس نے یہ کہا وہ نوجوان کو بےحد آشنا محسوس ہوا۔ اسے لگا کہ کبھی بہت پہلے کسی اور عورت نے بھی اس سے یہی جملہ کہا تھا، البتہ وہ عورت اب اسے یاد نہیں تھی۔ نوجوان کے دل میں اس لڑکی کی شدید توہین کرنے کی خواہش بیدار ہوئی: اس اجنبی لڑکی کی نہیں بلکہ اپنی محبوبہ کی۔ کھیل زندگی میں گھل گیا۔ اجنبی لڑکی کی ہتک کرنے کا سوانگ اپنی محبوبہ کی توہین کرنے کا بہانہ بن گیا۔ نوجوان بھول گیا کہ یہ سوانگ ہے — اسے یاد رہی تو صرف سامنے کھڑی لڑکی کے لیے اپنی شدید نفرت۔ اس نے لڑکی پر نظر جما کر اپنی جیب سے پچاس کراؤن کا نوٹ نکالا اور اسے پیش کیا۔ ’’اتنے کافی ہیں؟‘‘

لڑکی نے نوٹ لے لیا اور بولی، ’’تو تمھارے خیال میں میں اس سے زیادہ کے قابل نہیں!‘‘

نوجوان نے کہا، ’’تم اس سے زیادہ کے قابل نہیں!‘‘

لڑکی اس سے لپٹ کر بولی، ’’مگر تم مجھے اس طرح رام نہیں کر سکتے۔ کوئی اور طریقہ اپناؤ۔ کچھ مجھے بیدار کرنے کی کوشش کرو۔‘‘

اس نے نوجوان کے گرد بانہوں کا حلقہ تنگ کرتے ہوے اس کے منھ کی طرف اپنے ہونٹ بڑھائے۔ اس نے لڑکی کے منھ پر انگلی رکھ کر اسے نرمی سے پیچھے دھکیل دیا اور بولا، ’’میں صرف اس لڑکی کو چومتا ہوں جس سے مجھے محبت ہو!‘‘

’’تمھیں مجھ سے محبت نہیں؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’تو پھر کس سے ہے؟‘‘

’’تمھیں اس سے کیا؟ تم کپڑے اتارو۔‘‘

لڑکی نے اس سے پہلے کبھی یوں کپڑے نہیں اتارے تھے۔ وہ شرم، وہ گھبراہٹ، وہ سر چکرانے کی سی کیفیت جو پہلے اسے نوجوان کے سامنے برہنہ ہوتے وقت ہمیشہ محسوس ہوتی تھی، اس وقت کوسوں دور تھی (اور اب تو اندھیرے کا پردہ بھی نہیں تھا)۔ وہ اس کے سامنے پُراعتماد اور شہوت انگیز طور پر روشنی میں نہائی کھڑی تھی، اور خود ہی حیران تھی کہ اس نے ایک آہستہ رو اور اشتعال انگیز اسٹرپ ٹِیز کی یہ سب حرکات، جو اب تک اس کے لیے بالکل اجنبی تھیں، اچانک کہاں سے سیکھ لیں۔ ناز سے اپنا ایک ایک کپڑا اتارتے ہوے وہ اس کی نگاہوں کو قبول کر رہی تھی اور اپنی نمائش کے ایک ایک لمحے سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔

لیکن اچانک وہ لمحہ آیا جب وہ نوجوان کے سامنے بالکل ننگی کھڑی تھی — اور اس لمحے اسے محسوس ہوا کہ اب بالآخر سارا کھیل ختم ہو جائے گا، اب جبکہ اس نے اپنے لباس کے ساتھ اپنا بہروپ بھی اتار دیا ہے، وہ اس کے پاس آئے گا اور اس کھیل کو ختم کر دے گا، اور پھر صرف ان کی انتہائی قربت، ان کا عالمِ وصل باقی رہ جائے گا۔ سو اس لمحے نوجوان کے سامنے برہنہ کھڑے ہو کر اس نے اپنا سوانگ ختم کر دیا۔ اسے انتہائی گھبراہٹ محسوس ہوئی اور اس کے چہرے پر وہی مسکراہٹ پیدا ہوئی جو اس کی اپنی تھی: شرم اور بوکھلاہٹ کی مسکراہٹ!

لیکن نوجوان نے اس کی طرف بڑھ کر کھیل ختم نہیں کیا۔ اس نے اس آشنا مسکراہٹ پر بھی کوئی توجہ نہیں دی۔ اسے اپنے سامنے محض ایک خوبصورت اجنبی بدن نظر آیا جو اس کی محبوبہ کا تھا، جس سے اسے نفرت تھی۔ اس نفرت نے اس کی شہوت پر سے جذبے کی پرت اتار پھینکی۔ لڑکی نے اس کی طرف بڑھنا چاہا لیکن اس نے ٹوک دیا، ’’وہیں کھڑی رہو، میں تمھیں اچھی طرح دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ اب وہ اس کے ساتھ وہی برتاؤ کرنا چاہتا تھا جس کی ایک طوائف حقدار تھی۔ مگر اس کا واسطہ کبھی کسی طوائف سے پڑا نہیں تھا اور طوائفوں کے بارے میں اس کے خیالات محض افسانوں اور سنی سنائی باتوں سے ماخوذ تھے۔ اس نے اپنے ذہن پر زور دیا اور پہلی چیز جو اسے یاد آئی وہ سیاہ زیرجامہ (اور سیاہ اسٹاکنگر) پہنے، پیانو کے چمکیلے ڈھکنے کے اوپر ناچتی ایک عورت کی تصویر تھی۔ اس چھوٹے سے کمرے میں پیانو تو نہیں البتہ دیوار سے لگی ایک چھوٹی میز ضرور تھی جس پر باریک کپڑے کا میزپوش بچھا تھا۔

اس نے لڑکی کو میز پر چڑھنے کا حکم دیا۔ لڑکی نے ہاتھ ہلا کر کچھ کہنا چاہا لیکن نوجوان بولا، ’’تمھیں پیسے مل چکے ہیں!‘‘

جب اس نے نوجوان کی آنکھوں میں ایک اٹل آسیب کی صورت دیکھی تو کھیل کو جاری رکھنے کی کوشش کرنے لگی، حالانکہ اب یہ اس کے بس سے باہر تھا اور اسے کچھ اندازہ نہ تھا کہ اب اسے کیا کرنا ہے۔ آنکھوں میں آنسو لیے وہ میز پر چڑھ گئی۔ میز کا تختہ مشکل سے تین فٹ مربع کا رہا ہو گا اور اس کا ایک پایہ بھی چھوٹا تھا، اس لیے اس پر کھڑے ہو کر لڑکی ڈانواں ڈول سی تھی۔

لیکن نوجوان اپنے سامنے بلند اس برہنہ جسم کو دیکھ کر خوش تھا اور لڑکی کا شرمایا ہوا عدم توازن اس کی رعونت کو اور بڑھا رہا تھا۔ وہ اس کے جسم کو ہر زاویے اور ہر سمت سے دیکھنا چاہتا تھا، جیساکہ اس کے خیال میں اور مردوں نے اسے دیکھا ہو گا یا دیکھیں گے۔ وہ بےحد فحش اور شہوانی حالت میں تھا اور ایسے الفاظ استعمال کر رہا تھا جو لڑکی نے پہلے کبھی اس کے منھ سے نہیں سنے تھے۔ وہ انکار کرنا چاہتی تھی، اس کھیل سے رہا ہونا چاہتی تھی۔ اس نے نوجوان کو اس کے پہلے نام سے پکارا، لیکن اس نے چلّا کر اسے اس بےتکلفی پر ٹوک دیا۔ سو بالآخر انتشار کے عالم میں وہ آنکھوں میں آنسو لیے اس کی باتیں ماننے لگی۔ نوجوان کے حکم پر وہ آگے کو جھکی، آلتی پالتی مار کر بیٹھی، اسے سلیوٹ کیا، ٹوئسٹ کے انداز میں اپنے کولھے مٹکائے۔ اسی دوران ایک تیز حرکت میں میز پوش اس کے پاؤں کے نیچے سے سرک گیا اور وہ گرنے کو ہوئی تو نوجوان نے اسے دبوچ لیا اور گھسیٹ کر بستر پر لے گیا۔

اس نے لڑکی کے ساتھ مباشرت کی۔ وہ خوش تھی کہ انجام کار اب یہ منحوس کھیل اختتام کو پہنچے گا اور وہ دونوں پھر وہی ہو جائیں گے جو پہلے تھے، اور پھر ایک دوسرے سے محبت کرنے لگیں گے۔ اس نے نوجوان کے منھ سے اپنا منھ بھڑانا چاہا لیکن نوجوان نے پھر اسے جھٹک دیا اور دہرایا، ’’میں صرف اس عورت کو چومتا ہوں جس سے مجھے محبت ہو۔‘‘ وہ بند آواز میں سسکیاں لینے لگی، لیکن اسے رونے کی مہلت بھی نہیں ملی کیونکہ نوجوان کے پرغیظ جوش نے اس کے جسم کو فتح کر لیا اور لڑکی کے جسم نے اس کی شاکی روح کو خاموش کر دیا۔ اب بستر پر محض دو جسم تھے جو ایک دوسرے سے پوری طرح ہم آہنگ تھے — شہوت میں مست دو جسم جو ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے۔ یہ عین وہی بات تھی جو لڑکی کے لیے زندگی میں سب سے زیادہ دہشت ناک رہی تھی اور جس سے آج تک وہ شکی انداز میں دامن بچاتی رہی تھی: محبت یا جذبے سے خالی جنسیت۔ وہ جان گئی کہ وہ اس ممنوعہ حد کو پار کر چکی ہے لیکن کسی اعتراض کے بغیر اس عمل میں پوری طرح شریک ہو کر وہ اس ممنوعہ علاقے میں اور آگے بڑھتی رہی۔ صرف کہیں دور شعور کے کسی کونے میں اسے اس خیال پر ہول اٹھ رہا تھا کہ وہ اتنی اور ایسی لذت سے پہلے کبھی آشنا نہ تھی۔

پھر یہ سب ختم ہو گیا۔ نوجوان نے لڑکی کے پہلو سے کروٹ بدل لی اور بستر کے پاس لٹکتی ہوئی ڈوری کو کھینچ کر بتی بجھا دی۔ وہ لڑکی کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ کھیل ختم ہو چکا ہے لیکن اپنے پرانے تعلق پر لوٹنے کو اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ اس واپسی سے خوفزدہ تھا۔ وہ لڑکی کے پاس اس طرح لیٹا تھا کہ ان کے جسم مس نہ ہوں۔

ایک لمحے بعد اسے لڑکی کی سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ لڑکی کے ہاتھ نے جھجکتے ہوے، بچوں کے سے انداز میں، اس کے ہاتھ کو چھوا، پھر دور ہو گیا، پھر چھوا، اور ایک التجا کرتی، سسکیاں لیتی آواز سنائی دی جو اس سے کہہ رہی تھی: ’’میں میں ہوں… میں میں ہوں…‘‘

نوجوان خاموش تھا۔ وہ ہلا تک نہیں۔ وہ لڑکی کے اس اصرار کے غمناک خالی پن سے واقف تھا جس میں ایک نامعلوم شے کی تعریف اسی نامعلوم شے کی اصطلاح میں کی گئی تھی۔

لڑکی کی آواز جلد ہی سسکیوں سے باقاعدہ رونے میں بدل گئی اور وہ بےشمار بار اسی قابلِ رحم اصرار کو دہراتی رہی: ’’میں میں ہوں… میں میں ہوں… میں میں ہوں…‘‘

نوجوان نے جذبۂ رحم کو مدد کے لیے پکارا (اسے بہت دور تک آواز دینی پڑی کیونکہ آس پاس کہیں اس کا وجود نہ تھا) تاکہ لڑکی کو دلاسا دے سکے۔ تیرہ دن کی چھٹیاں ابھی باقی تھیں۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

October 2024
M T W T F S S
 123456
78910111213
14151617181920
21222324252627
28293031