آخری غزل ۔۔۔ اختر کاظمی
آخری غزل
( اختر کاظمی)
دہر میں ہے بھی کیا جبر ہی جبر ہے
زیست بھی جبر ہے مرگ بھی جبر ہے
سانس لینا بھی ہے اختیاری کہاں
یہ بھی اک ناروا دائمی جبر ہے
عمر بھر یہ ہمیں خوش گمانی رہی
جو مسلط ہے یہ آخری جبر ہے
تیرگی راس جن کو ہے ان کے لئے
اک کرن بھر کی بھی روشنی جبر ہے
دل میں جو ہے وہ کہنے کی ہمت نہیں
مصلحت جبر ہے بے بسی جبر ہے
ٹوٹتا ہی نہیں لاکھ تدبیر کی
ہم پہ قرنوں سے اک آہنی جبر ہے
کہہ رہی ہے یہ تاریخ اختر ہمیں
اہل،دنیا کا دستور ہی جبر ہے
(اختر کاظمی گزشتہ ہفتے کے دوران انتقال کر گئے)
Read more from Akhtar Kazmi
Read more Urdu Poetry
Facebook Comments Box
واااااااااااااہ ۔ تاریخ کےجس جبر میں ہم رہ رہے ہیں اس کی نہایت عمدہ عکاسی کی ہے آپ نے۔ ہمارا جینا مرنا ایک سا ہے کیونکہ ہمیں کچھ بھی کرنے یا سوچنے کا اختیار نہیں۔ ہماری آنکھوں سے ہمارے خواب چھین لئے گئے ہیں اور ہمارے دل میں حسرت و یاس کا سمندر ہے۔ کوئی امید بر نہیں آتی والی کیفیت ہے اور اس کی وجہ سیاسی و معاشرتی و معاشی جبر ہے۔ بہت عمدہ کلام ہے۔ ائی ۔