رب میری فریاد سنے گا ۔۔۔ عائشہ اسلم ملک
نظم
عائشہ اسلم ملک
عدالت کا حکم تھا
اور مجھے تو جانا تھا
اس کے سنگ تھے بول پڑھے
وہ جو میرا سایئں تھا
اس کو بھی معلوم نہ تھا
اور میں نے یہ کب سوچا تھا
اپنے میرے رشتے سب
فولادی ہاتھوں سے
پتھربرسانے آیئں گے
پہلا پتھر کس نے مارا
سب اچانک ہوا تھا لوگو
جن کے لہو کے رشتے تھے
لہو لہان وہ کرتے رہے
اس کو غیرت کہتے ہیں وہ
مذہب اور قانون کے حق کو
میں نے استعمال کیا
کیا یہ جرم تھا ؟
اسکی معافی کہیں نہ تھی
عدالت نے سب کچھ دیکھا تھا
ہزاروں آنکھیں شاہد تھیں
لیکن سب خاموش رہے
کل ان کی بیٹی میری تصویر بنائے گی
تب بھی وہ گنگ رہیں گے کیا
میری چیخیں عدالتوں سے باہر
آواز بنی تھیں
لیکن نفسا نفسی میں
کچھ سنائی کب دیتا ہے
سنگ باری نے مہلت نہ دی
ورنہ پوچھنا چاہتی تھی کچھ
رب میری فریاد سنے گا ؟